پاکستانی آرٹ فلم ساون آسکر حاصل کر پائے گی؟

گزشتہ جمعے کو کلاکار فلمز کے تحت ریلیز ہونے والی فلم ساون ایک پاکستانی آرٹ فلم ہے۔ فلم کے ہدایت کار فرحان عالم ہیں اور نمایاں اداکاروں میں سید کرم عباس، عارف بہالم، نجیبہ فیض، سلیم معراج اور عمران اسلم شامل ہیں۔ دیگر کاسٹ میں ٹیپو شریف، سہیل ملک، شاہد نظامی، محمد عباس، دانیال یوسف، مہک ذوالفقار اور سید محمد علی موجود ہیں۔

فلمسازوں کے مطابق ساون بلوچستان کے ایک دور افتادہ صحرائی گاؤں میں پولیو سے متاثرہ بچے ساون (سید کرم عباس ) کی سچی کہانی سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہے۔ فلم کا مرکزی کردار ساون ہے جو بچپن میں حفاطتی ٹیکوں کے نہ لگنے کی وجہ سے پولیو کا شکار ہوچکا ہے اور معذوری کی وجہ سے اپنے بے روزگار باپ (عارف بہالم) پر بوجھ بنا ہوا ہے۔ ساون کا باپ بات بے بات پر اسے اور اس کی ماں (نجیبہ فیض) کو اپنے غصے کا نشانہ بھی بناتا رہتاہے۔

کہانی کا پہلا موڑ اس وقت آتا ہے جب ساون کے پاب کو نوکری کی تلاش میں ساون کو پیچھے چھوڑ کر اپنی بیوی اور چھوٹی بیٹی کو لے کر دوسرے گاؤں جانا پڑتا ہے کیونکہ جانے والی بس میں صرف دو افراد ہی کی گنجائش ہے۔ ساون جو کہ پہلے ہی اپنے لنگڑے پن کی وجہ سے باپ کے طعنوں اور گاؤں اور اسکول کے لڑکوں کی تضحیک کا نشانہ بنتا رہتا تھا اب تنہائی کا بھی شکار ہے۔

خاندان کی جدائی اور لوگوں کے امتیازی رویے کی وجہ سے ساون اپنی ایک الگ ہی دنیا بنالیتا ہے اور کم عمری کے خوف اور تنہائی کو اپنے اوپر غالب نہیں آنے دیتا۔اس دنیا میں ساون کے پاس ماں کی پیار بھری یادوں اور اپنی مدد آپ کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ زندگی گزارنے کی اسی تگ و دو میں ساون پرانے ٹائروں کو کاٹ کر انہیں لکڑی کے ساتھ جوڑ کر اپنے لیے مخصوص جوتے تیار کرلیتا یے اور چلنے کے قابل ہوجاتا ہے!

یہاں سے ساون کی زندگی کی ایک نئی کہانی شروع ہوتی ہے جہاں وہ نہ صرف فلم کا ہیرو ہے بلکہ پولیو سے متاثرہ بچوں کی مجبوریوں کی مکمل عکاسی ہے۔

فلم میں ان قوتوں کو بھی دکھانے کی کوشش کی گئی جو پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں کو ان کے کام سے روکتے ہیں جن میں علاقے کے سردار بھی شامل تھے۔ لیکن یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ پولیو کے قطرے پانے والی مہم میں رکاوٹ ڈالنے میں صرف سرداری نظام کو ہی زمہ دار کیوں ٹھہرایا گیا ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ تحقیق مکمل طور پر نہیں کی گئی۔ یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آئی گلگت بلتستان میں فلمائے گئے مناظر کو بلوچستان یا کوئٹہ سے قریب کے علاقے کیوں کہا جارہا ہے۔

ساون میں بچوں کی سمگلنگ کے موضوع کو بھی اٹھایا گیا ہے اور ایک گینگسٹر (سلیم معراج ) جو بچوں کے اغوا اور ان کی خر ید و فروخت میں ملوث ہے کا برا انجام دکھایا گیا ہے۔

فلم کی کہانی پہلے نصف میں اچھی ہے مگر دوسرے ہاف میں کہانی ہاتھ سے پھسل گئی ہے اور سسپنس اور دلچسپی کہیں گم ہوگئے ہیں۔ فلم طوالت کا شکار بھی نظر آتی ہے۔

جہاں تک اداکاری کی بات ہے تو فلم میں ہر اداکار نے عمدہ کام کیاہے خاص طور پر ساون کے کردارمیں کرم عباس نے بتادیا ہے کہ پوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آجاتے ہیں۔ یقینا آگے کرم سے اور بھی امیدیں ہیں۔ عارف بہالم بھی ایک بلوچ کے کردار میں رچ بس گئے ہیں۔ سلیم معراج نے پھر ثابت کیا ہے کہ چاہے کامیڈی ہو یا پھر منفی کردار وہ دونوں میں پوری طرح اتر جاتے ہیں۔ عمران اسلم کا رول گوکہ فلم میں مختصر تھا مگر وہ اپنی پہلی فلم میں ہی بھرپور تاثرات کے ساتھ اداکاری کرگئے ہین۔ نجیبہ فیض نے کم عمر ہونے کے باوجود دیہات کی ایک غریب حال عورت کا کرادر نہایات خوبی سے کیاہے اور کئی جگہ بہت جاندار تاثرات دیے ہیں۔ ہر کردار کا گیٹ اپ بھی موزوں ہے۔

فلم کی سینماٹوگرافی اور کیمرہ ورک مناسب ہے لیکن کلر کریکشن بہت ہی واجبی ہے۔ شاید ہدایت کار نے فلم کو آرٹ کا درجہ دینے کے لیے کلر کریکشن پر کوئی توجہ نہیں دی۔ ڈھائی گھنٹے تک پھیکے رنگوں اور دھندلے فریموں کے ساتھ فلم میں دلچسچی کا عنصر کم ہوتا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ فلم میں ساؤنڈ افیکٹس کی انتہائی شدید کمی محسوس ہورہی ہے خاص طور پر وہاں، جب ساون اپنے ہاتھوں سے بنائے جوتے پہن کر کھڑا ہوتاہے لیکن میوزک سے کہیں بھی ایسا محسوس نہیں ہورہا کہ فلم کی کہانی ایک اہم موڑ اختیار کرگئی ہے۔ یقینا موسیقی اور ساؤنڈ افیکٹس سے فلم میں جذبات اور اثر پیدا کیا جاسکتا تھا۔

ساون کو پاکستان اکیڈمی سلیکشن کمیٹی کی جانب سے ۹۰ویں اکیڈمی ایوارڈز میں آسکر نامزدگی پر غور کے لیے بھیج دیا گیاہے۔ انٹرنیشنل کمیٹی کی جانب سے نامزدگی کا حتمی اعلان ۲۳ جنوری کو کردیا جائے گا۔ اس سے قبل ساون میڈرڈ فلم فیسٹول ۲۰۱۷ میں ’بہترین غیرملکی زبان کی فلم‘ کا ایوارڈ حاصل کرچکی ہے۔ اس کے علاوہ فلم کو سوشل ورلڈ فلم فیسٹول اٹلی میں بھی ’بہترین فلم‘ اور ’بہترین ہدایت کار‘ کے ایوارڈز مل چکے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے