ملا عمر سے امیرالمومنین تک

ملا محمد عمر

صفتین خان 

اسلام آباد

صفتین خان

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

عجب گورکھ دھندہ تھا ۔ پہیلی تھا یا راز ۔ انسان تھا یا جن ۔۔ حکمران تھا یا لیڈر ۔ بہادر تھا یا بزدل ۔ عالم تھا یا مجاھد ۔۔ فاتح تھا یا مفتوح ۔۔ مگر جو بھی تھا ایک سحر تھا جس نے بیس سال تک جکڑے رکھا ۔ اس کی علمیت قابل رحم ۔ اس کا جذبہ قابل تقلید ۔ سادگی قابل رشک ۔ دیانت بے مثل ۔ جمہوریت کا دشمن . آمریت کا استعارہ. حکمت بے حکمتی کا مظھر ۔ جو عالم بنتا ھے تو اسلام کی ترجیحات کی دھجیاں بکھیر دیتا ھے ۔ حکمران بنتا ھے تو لوگوں کی حس لطیف کو ختم کر دیتا ھے ۔ قاضی بنتا ھے تو سزا مذھب کی پہچان بنتی ھے ۔ مجاھد بنتا ھے تو سپر پاور کو ناکوں چنے چبوا دیتا ھے ۔ لیڈر بنتا ھے تو لاکھوں لوگوں کو نظم اطاعت کا پیکر بنا ڈالتا ھے ۔ طالب بنتا ھے تو طالبان تخلیق کرتا ھے ۔ باغی بنتا ھے تو چند سالوں میں حکومت کا تختہ الٹ دیتا ھے ۔ گمنام بنتا ھے تو موت بھی اس کا راز افشا نہیں کر سکتی ۔۔ دوست بنتا ھے تو ایک شخص کے لئے پورا ملک داو پر لگا دیتا ھے ۔ امین بنتا ھے تو طول و عرض کو امن کی علامت بنا ڈالتا ھے ۔ فیصلہ کرتا ھے تو افغانستان کو پوست سے پاک کر دیتا ھے ۔ ایک ایسی قوم کو جس کے خون میں یہ شامل ھو چکی تھی ۔

لیکن اس نام کی اتنی بازگشت یہاں کیوں ۔۔ کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ اس کے تخلیق کار ھم ھی تھے ۔ اسی لئے وہ اپنے عروج سے موت تک سب سے زیادہ یہیں زیر بحث رھا ۔ مثبت یا منفی دونوں طرح ۔ لبرلز کے لئے دقیانوسیت کی علامت اور روایت پرستوں کا فخر ۔ ایک ایسا شخص جس کی ذاتی خوبیوں نے اس کی ذات سے وابستہ ھمہ گیر تباھی کو چھپا دیا ۔ جس نے جہاد کے نام پر لاکھوں چراغ گل کئے۔۔ جہاد و فساد مترادف قرار پائے. جس کی بے بصیرتی نے مسلمانوں کو شرمندہ کیا ۔ جس کی بہادری نے تخت و تاراج کیا ۔ جس کی بزدلی نے تورا بورا تخلیق کیا. جس کی مذھبی تعبیر نے جبر کو جنم دیا ۔ خوف کو ایجاد کیا ۔ جس نے احسان کا بدلہ بے مروتی سے دیا ۔۔ جس نے ملا سے امیر المومنین تک کا سفر بہت جلد طے کیا ۔ پانچ سال میں ایک ادارہ ایسا نہیں بنا سکا جو قابل فخر ھو ۔ وہ جس کے اشارے کے بنا پتہ نہیں ہلتا تھا شعور کی آبیاری نہ کر سکا ۔ افغانوں کی شناخت نہ تبدیل کر سکا ۔ علم کا علمبردار اور وسعت کا پیامبر نہ بن سکا ۔ بین الاقوامی سیاسیات اور عالمی تناظر سے جو ناواقف تھا ۔ پاکستان کی حمایت سے آنے والا پاکستانیوں کو آنکھیں دکھانے لگا اقتدار کے بعد ۔ وہ تزویراتی گہرائی ( Strategic Depth ) کی آخری نشانی تھا ۔ امیرالمومنین اصطلاح کا آخری جانشین ۔ لہذا وہ ایک ھیرو ھی کہلائے گا ۔ اس لئے کہ یہاں ہر گزرنے والا شہید اور زندہ باغی ھے ۔

اس کی موت کا اس وقت اعلان اور نئے امیر کا تازہ بیان جو مذاکرات کا انکار ھے یہ ثابت کرتا ھے کہ نیا عالمی کھیل شروع ھو چکا ۔ ملا عمر مر کر بھی عین وقت پر پاکستان کو بیچ چوراھے پر متذبذب چھوڑ گیا ۔ راستہ مشکل بنا گیا ۔ جس کی موت نے انتشار کو پیدا کیا ۔ حتی کہ امیر المومنین کی اصطلاح ھی بے وقعت ٹھری ۔۔ وہ چاھتا تو خود ھی اس قضیہ کو نمٹا جاتا کہ اس کا ارادہ ھی کافی تھا ۔ مگر جس کی زندگی نے فائدہ نہ دیا اس کی موت کیا اطمینان لائے گی ۔ شائد کچھ طاقتیں افغانستان کو پر امن دیکھ ھی نہیں سکتیں ۔ کشمکش ھی میں ان کا مفاد ھے اور احمق مسلمان ان کے دست و بازو ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تجزیے و تبصرے