خدا کے لیے، بول، ورنہ

پاکستان کے نامور لکھاری، اور ہدایت کار شعیب منصور کی نئی فلم ورنہ جو ایک ہفتہ بعد پاکستان بھر کے سینماؤں میں ریلیز ہورہی ہے، ان کی پچھلی دو فلموں کا تسلسل یا حصہ معلوم ہوتی ہے۔ ان کی پہلی دو فلمیں ۲۰۰۷ میں ریلیز ہونے والی ’خدا کے لیے‘ اور ۲۰۱۱ میں ریلیز ہونے والی ’بول‘ معاشرے میں پھیلی ہوئی خرابیوں کو اجاگر کرنے اور ان کے نتائج پر مبنی تھیں۔

خدا کے لیے میں نو گیارہ کے بعد مغربی ممالک خصوصا امریکہ میں مسلمانوں کو حقارت کی نظر سے دیکھنا اور دہشت گر سمجھنا اور ساتھ ہی پاکستان میں بڑھتی ہوئی طالبنائزیشن کے موضوعات پر مبنی تھی۔ ان کی دوسری فلم بول کا موضوع پاکستان میں اولاد کے معاملے میں بیٹے کو ترجیح دینا اور اولاد نرینہ کی خواہش میں کئی بیٹیوں کو جنم دینا اور پھر ان کی بہتر پرورش نہ کرپانا تھا۔ فلم کو پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی سراہا گیا۔

شعیب منصور کی پروڈدکشن کمپنی شومین کے تحت بننے والی تیسری فلم ’ورنہ‘ جو ۱۷ نومبر کو ریلیز ہورہی ہے، اپنے موضوع کے اعتبار سے گو کہ بہت نئی نہیں ہے لیکن اس کو پیش کرنے کا اندا زرا مختلف ہے۔ فلم میں پاکستان کی صف اول کی اداکارہ ماہرہ خان اہم رول میں موجود ہیں۔ فلم کا موضوع جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی ایک عورت کی تکلیف اور اس کو انصاف دلوانے میں قانون اور سسٹم کی ناکامی ہے۔ فلم کا ٹریلر دیکھ کر ایسا ہی لگتا ہے کہ نظام اور قانون سے انصاف نہ ملنے کے بعد ایک عورت اپنے تئیں کس طرح انصاف حاصل کرسکتی ہے۔ فلم کا پوسٹر فلم کا موضوع اور اس کے طاقت ور پیغام کی عکاسی کرتا ہے جس سے اس تاثر کو بھی ختم کرنے کی کوشش کی گی ہے کہ عورت کی عزت، عصمت اور آبرو کو ایک زیادتی کرنے والا اس سے نہیں چھین سکتا۔ بول کے بعد شعیب منصور کی یہ دوسری فلم ہے جس میں فلم کا مرکزی کردار ایک عورت ہے۔ اس سے قبل زیادہ تر پاکستانی فلموں میں کہانی کا محور مرد کردار کے گرد ہی گھومتا تھا۔

شعیب منصور کا شمار پاکستان کی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے صف اول کے سکرپٹ رائٹر اور ہدایت کاروں میں ہوتا ہے۔ ففٹی ففٹی،ان کہی اور دیگر ٹیلی ویژن ڈراموں سے شہرت حاصل کرنے والے شعیب منصور کی فلموں کو کسی طرح بھی ایک مکمل کمرشل فلم نہیں کہا جاسکتا لیکن ان کی قابلیت اور کام میں مہارت کی وجہ سے فلم بینوں میں ان کی مضوعاتی فلموں کو کمرشل فلموں سے زیادہ شہرت حاصل ہوتی ہے اور بزنس کے لحاظ سے بھی کامیاب قرار پاتی ہیں۔

ہمیں امید ہے کہ شعیب منصور کی ورنہ بھی فلم بینوں کی توقعات پر پورا اترے گی اور کہیں نہ کہیں معاشرے میں کسی تبدیلی کا باعث ثابت ہوگی۔ ہماری یہ بھی خواہش ہے کہ شعیب صاحب ایسی موضوعاتی پرڈکشنز کے لیے دوبارہ ٹیلی ویژن کا رخ کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ سے لوگوں تک ان کا پیغام پہنچ سکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے