ممتاز عالم دین ڈاکٹر محمود احمد غازی کے تشکیل کردہ پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے تحت اسلام آباد ، کراچی اور سکھر میں تین مدارس قائم کئے گئے تھے ، 2002 میں قائم کئے گئے ان مدارس میں ایک ہزار سے زائد طلبہ وطالبات کو تعلیم دی جا رہی ہے ۔ اسلام آباد میں طالبات کے لیے جبکہ سکھر اور کراچی میں طلبہ کے لیے یہ مدارس قائم کئے گئے ۔
پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے پہلے چئیر میں ڈاکٹر ایس ایم زمان تھے ،دوسرا چئیر مین ڈاکٹر خالد علوی کو مقرر کیا گیا ، مذہبی امور کے سابق سیکرٹری وکیل احمد خان سات برس تک اس ادارے کے چئیر مین رہے ۔ اس کے بعد ریاض احمد رانجھا کو بورڈ کا چئیرمین مقرر کیا گیا ۔ حکومت نے مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کیا جس کی وجہ سے یہ ادارہ نمایاں کاکردگی نہ دکھا سکا ۔ اگست 2014 میں پہلی بار وزارت نے چئیر مین مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے لیے درخواستیں طلب کیں ۔ انٹرویو ہوئے اور وزیر اعظم پاکستان نے ڈاکٹر عامر طاسین کو بورڈ کا چئیر مین مقرر کر نے کی منظوری دے دی ۔
حج کمپلیکس اسلام آباد میں قائم کئے گئے ماڈل دینی مدرسے میں 600 سے زائد یتیم اور غریب طالبات زیر تعلیم ہیں جن کا تعلق انتہائی پسماندہ علاقوں اور غریب خاندانوں سے ہے ۔ ساڑھے پانچ سو طالبات کے لیے مدرسے میں رہائش اور خوراک کا بندوبست کیا جاتا ہے اور اس مد میں انہیں ایک ہزار روپیہ ماہانہ دیا جاتا ہے ۔ خوراک کا انتظام ادارہ اس رقم سے خود کرتا ہے ۔
دیگر اخراجات کے لیے چھٹی جماعت سے لیکرمیٹرک تک کی طالبہ کو ماہانہ 500 روپے نقد دیے جاتے ہیں جبکہ ہائر اسکینڈری کلاسز کی طالبات کو ماہانہ 1125 روپے دیے جاتے ہیں ۔ یوں ان چھ سو طالبات کا سالانہ خرچ 41 لاکھ 62 ہزار پانچ سو روپے بنتا ہے ۔ پانچ برس میں یہ رقم 2 کروڑ 8 لاکھ 12 ہزار 500 روپے بنتی ہے جو زکوة سے ادا کی جاتی ہے ۔
پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کو اسلام آباد ، سکھر اور کراچی کے ایک ہزار طلبہ وطالبات کے اخراجات کے لیے زکوة کونسل کی جانب سے سالانہ ایک کروڑ آٹھ لاکھ روپے دیے جاتے ہیں ۔ چئیر مین مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ان مدراس کی طلب کے مطابق تینوں مدارس کو رقم بھجواتا ہے ۔
اسلام آباد کے ماڈل دینی مدرسے کی طالبات کہتی ہیں کہ انہیں گذشتہ 9 سال سے لباس اور کتابوں کے لیے نقد رقم نہیں دی گئی ۔ یہ رقم 3 کروڑ 73 لاکھ 63 ہزار 391 روپے بنتی ہے ۔ چئیرمین آفس کے ریکارڈ کے مطابق اسلام آباد مدرسے کے اکاؤنٹ میں باقاعدگی کے ساتھ منتقل کی جاتی رہی ہے ۔ مدرسے کے اکاؤنٹ سے پرنسپل اور اکاؤنٹنٹ مشترکہ دستخطوں کے ساتھ رقم نکالنے کے مجازتھے ۔
طالبات کا کہنا ہے کہ انہیں لباس کے لیے کبھی پیسے نہیں دیے گئے جبکہ کتابیں نئی خرید کر دینے بجائے اگلی جماعت والی طالبہ پچھلی کلاس والی کو دے دیتی تھی ۔ یوں طالبات لباس ، نوٹ بکس اور بیگ اپنے گھروں سے لاتیں جبکہ پرانی درسی کتب انہیں مدرسے سے ہی مل جاتی تھیں ۔
اس حوالے سے مدرسے کی پرنسپل شگفتہ عبدالرؤف پر کرپشن کے الزامات ہیں جن کی انکوائری ہو رہی ہے ۔ وزارت مذہبی امور نے 2012 میں مدرسے کا آڈٹ کرایا جس میں بڑے پیمانے پر مالی خرد برد اور بد انتظامی سامنے آئی ۔
ایک سال پہلے وزارت مذہبی امور نے اپنے ڈپٹی سیکرٹری محمد نعیم کو انکوائری افسر مقرر کیا تاہم ابھی تک محمد نعیم نے انکوائری شروع ہی نہیں کی ۔ ذرائع کے مطابق انکوائری میں پرنسپل شگفتہ رؤف پر کرپشن ثابت ہو رہی ہے اور بیورو کریسی میں اثر و رسوخ ہونے کی وجہ سے انکوائری کو جان بوجھ کر لٹکایا جارہا ہے ۔
ذرائع کے مطابق اگر انکوائری رپورٹ سامنے آ گئی تو اس میں حیران کن طور کئی سابق بیورو کریٹس کے نام بھی سامنے آ سکتے ہیں ۔
دوسری جانب زکوة کونسل کے اڈیٹر عبدالرحیم نے بھی مدرسے میں تمام ریکارڈ دیکھنے کے بعد اخراجات کی مد میں رسیدوں پر اعتراضات لگائے ہیں ۔ ذرائع کے مطابق ایف آئی اے میں بھی پرنسپل کے خلاف ایک درخواست زیر تفتیش ہے ۔
اس حوالے سے جب مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے چئیرمین ڈاکٹر عامر طاسین کا مؤقف جاننے کے لیے ان سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ انکوائری جاری ہے اور اس حوالے سے وزارت مذہبی امور زیادہ بہتر بتا سکتی ہے ۔ انہوں نے اس نمائندے کو مزید سوالات کے جوابات دینے سے انکار کر دیا ۔
دوسری جانب معلوم ہوا ہے کہ وزارت مذہبی امور میں بیٹھی بیورو کریسی ،پرنسپل کو بچانے کے لیے نو برس بعد انہیں واپس کیپیٹل ایڈمنسٹریشن اینڈ ڈویلپمینٹ بھجوا رہی ہے تاکہ یہ فائل بند کی جا سکے ۔ ظاہر ہوتا ہے کہ وزارت مذہبی امور کے افسران بھی اس کرپشن میں برابر کے شریک ہیں ۔
یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ یتیم لڑکیوں کا حق ضبط کرنے والوں کے خلاف کوئی کاروائی ہوگی یا ہمیشہ کی طرح فائل بند کر دی جائے گی ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ibcurdu@yahoo.com