مسئلہ کشمیر کو سلجھانے کے لیے 1947 سے لیکر سے 2003 تک
پاکستان اور بھارت کے درمیان ریاستی سربراہان کے درمیان تقریباً بتیس
وزراء خارجہ کی سطح پرایک سو دس
سیکریٹریز کے درمیان دو سو ستر
ملاقاتوں سمیت سیز فائر
معاہدہ تاشقند
شملہ معاہدہ اور لاہور معاہدہ بھی سود مند ثابت نہیں ھوا تو جنرل (ر) پرویز مشرف اور اٹل بہاری واجپائی نے ماضی اور تینوں فریقین کو سامنے رکھ کر 2004 میں ممکنہ حل کے پیش نظر اعتماد کی بحالی اور امن عمل شروع کرنے پر اتفاق کیا۔
دونوں حکمران جانتے تھے کہ کشمیریوں کو شامل کئے اور انہیں ریلیف دیئے بغیر وہ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکتے اس لئے انہوں نے سب سے پہلے مختلف طریقوں سے منقسم کشمیریوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے اور تبادلہ خیال کا موقع فراہم کیا، جسکے نتیجے میں بس سروس شروع ہوئی۔لائن آف کنٹرول کے ذریعے تجارت شروع ہوئی۔
اطراف کے نوجوانوں اور کاروباری لوگوں کے وفود کا تبادلہ ہوا لیکن ان سے غلطی یہ ہوئی کہ وہ آر پار کے صحافیوں کو آپس میں ملا کر پل کا کردار ادا کرنیکے لئے پلیٹ فارم مہیا نہ کر سکے۔
نائن الیون اور پھر ممبئی حملوں کے بعد بھارتی حکومت نے کشمیریوں کی آزادی کی تحریک کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش شروع کر دی جسکی وجہ سے امن عمل تعطل کا شکار ہوا تاہم دونوں ممالک کی اسٹیبلشمنٹ اور کشمیر میں یہ سوچ پروان چڑھ چکی ہے کہ تنازعہ کے کسی بھی پرامن اور دیرپا حل کیلئے اطراف میں موجود کشمیریوں میں ھم آہنگی پیدا کرنا ازحد ضروری ہے اور یہ ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے صحافی ہی پل کا کردار ادا کر سکتے ھیں۔
صورتحال یہ ہے کہ بھارت کے زیرانتظام کشمیر اور پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں مخصوص حالات، آذادی اظہار رائے اور معیار تعلیم میں فرق کے سبب اطراف کے صحافیوں کے نظریات، جذبات، احساسات، تجربات، پیشہ ورانہ مہارت سمیت مشاہدات اور توقعات میں بہت فرق ہے
اطراف کے صحافیوں کی اکثریت فطری طور پر مسئلہ کشمیر کو لیکر جرنلسٹ اور ایکٹیوسٹ کے درمیان فرق روا نہیں کر رہی ، جسکے باعث وہ تضادات کا شکار ہو کر کنٹرول کرنے والی دونوں ایٹمی طاقتوں کیلئے قابل قبول نہیں اور انکا دائرہ کار محدود ہے۔
لائن آف کنٹرول کے آر پار صحافیوں کے درمیان روابط بڑھیں، انکے درمیان ذہنی ہم آہنگی سمیت پیشہ ورانہ استعداد میں اضافہ ہو اور وہ نہ صرف اطلاعات کے تبادلے کے ذریعے آر پار لوگوں کے درمیان پل کا کردار ادا کر سکیں بلکہ سلگتے ھوئے انسانی مسئلے کے حل میں مدد کر سکیں
اس تناظر میں ہندوستان کے زیرکنٹرول کشمیر سے ڈاکٹر شجاعت بخاری اور پاکستان کے زیرکنٹرول کشمیر سے ارشاد محمود نے سردارامجد یوسف اور ڈاکٹر سید وقاص علی کوثر کی مدد سے تقریباً آٹھ ماہ اطراف کے صحافیوں کی پیشہ ورانہ بنیادوں پر تربیت کی اور پھر اپنی ساکھ کی بنیاد پر اسلام آباد اور دہلی کو راضی کرکے 68 سالوں میں پہلی بار انہیں اسلام آباد میں ایک چھت تلے بٹھایا ۔
انٹراکشمیر جرنلسٹس کانفرنس کے پہلے روز اطراف کے میڈیا کے ڈھانچے کو سمجھنے اور اسکے متوقع کردار کا تعین کرنے کیلئے پر مغز مشق کرائی گئی ۔
دوسرے دن آپس میں روابط بڑھانے اور بہتر تعلق کار قائم کرنے کے طریقہ کار پر غور کیا گیا ۔ تجاویز کی روشنی میں بڑے اقدامات تک پہنچنے کیلئے چھوٹے اقدامات سے اس سفر کا آغاز کیا گیا ۔ تاہم اس حقیقت کا احساس تھا کہ یہ سفر کٹھن اور منزل دور ہے
ایک وقت تھا جب مغربی ممالک ایک دوسرے کو مار کر زندہ رہنے کے فارمولے پر عمل کرتے تھے۔وہ نفرت میں اس قدر آگے نکل گئے تھے کہ ایک دوسرے کے اعضاء کاٹ کر کھا جایا کرتے تھے مگر پھر عوامی سطح پر باہمی روابط بڑھے تو سماجی دباؤ کے نتیجے میں آج وہ امن و اتحاد کیساتھ ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔
ادھر تنازعہ کشمیر کی وجہ سے 68 سال نفرت کی پگڈنڈی پر سفر کرنے والے پاکستانی اور ہندوستانی عوام کا سوشل میڈیا پر ایک ٹرینڈ سامنے آیا ہے کہ لوگ دونوں ملکوں میں آزادانہ داخلہ چاہتے ھیں اور اپنے لئے ترقی کی نئی راہیں کھوجنا چاہتے ھیں ۔ منقسم کشمیر کے دونوں حصوں کے لوگ بھی مزید جدائی برداشت نہیں کر پا رہے۔ وہ ایکدوسرے کی خوشی اور غم میں شریک ہونے سمیت مسئلے کے حل کیلئے آپس میں بات چیت کرنا چاہتے ھیں۔
اس کے برعکس دونوں ملکوں کی حکومتیں اگر جنگ و جدل ہی چاہتی ھیں تو انکی مرضی مگر ہمارا خیال یہ ہے کہ انہیں اس نئے رویے اور زاویے کو سمجھنا چاہیئے اور کشمیریوں کے آپس میں ملنے کی وجہ سے گھبراہٹ کا شکار ہونے کی بجائے اچھی توقعات کیساتھ سہولت کار بننا چاہیے ۔
باہمی اعتماد سازی کا ماحول پیدا کرکے سیز فائر لائن پر آنکح مچولی بند کی جائے اور ریاست جموں کشمیر کے کسی حصے ایک مقام متعین کیا جائے جہاں اطراف کے کشمیری آزادانہ مل سکیں ۔ سماجی تقریبات کا انعقاد ہو ۔
دوسری صورت میں وہ وقت بھی آ سکتا ہے جب دونوں ممالک اور متنازعہ ریاست کے منقسم حصوں میں بسنے والے کروڑوں لوگ سیز فائر لائن اور سرحد کی جانب مارچ کریں گے اور دونوں ممالک کے فوجیوں کو اپنے ھی لوگوں پر فائر کھولنا پڑ سکتا ہے۔
لائن آف کنٹرول کے اس پارکے صحافیوں کے اس دورے کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ سید افتخار گیلانی ، ڈاکٹر سید شجاعت بخاری اور ریاض ملک تو انفرادی طور پر آتے جاتے ھیں لیکن راشد مقبول، پیرزادہ عاشق، عرفان رشید، فیصل یاسین، طارق علی میراور محمود الرشید سمیت ہماری بہنیں شاہانہ بشیر، زینت ذیشان اور رفعت محی الدین کا یہ پہلا دورہ تھا اس لئے انکے جذبات بھی مختلف تھے۔
وہ پیشہ ورانہ تقاضے بھول کر کبھی ہمارے ساتھ ہنس دیتے اور کبھی ہم انکے ساتھ ملکر آنسوؤں کی ندی میں بہنے لگتے۔ بظاہر انکے ساتھ کوئی رشتہ نہ تھا مگر ماں تو سب کی سانجھی ہوتی ہے نا۔ دھرتی ماں نے ہمارے دل جوڑ رکھے ہیں۔ سات دنوں میں انہیں انتہائی سخت شیڈول میں رہنا پڑا اور وہ یقیناً عاجز بھی آگئے لیکن کیا کرتے ہر کوئی ان کیلئے دل و جان سے محبتوں کے پھول نچھاور کررہا تھا۔
وہ ہمارے دلوں پر بھی یادوں کے انمٹ نقوش چھوڑ گئے اور واپس پہنچ کر انکی تھکاوٹ بھی شاید دو تین دن میں ختم ہو جائے ۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ جو خلوص ،پیار، محبت، عزت ، احترام اور یادیںساتھ لیکر گئے ھیں وہ انہیں ہمیشہ لفظوں کی لڑی میں پرو کر یادوں کی مالا بننے میں مدد دیں گی۔
…………………
یہ تحریر اسلام آباد میں مقیم صحافی اور کانفرنس میں شریک سید خالد گردیزی
نے آئی بی سی اردو کے لیے لکھی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔