یہ محض ایک جھلک ہے ، ورنہ گاؤں دیہاتوں میں رسوائی کے خوف سے بچنے کے لیے کتنے ہی ایسے کیس دبا دیے جاتے ہیں ۔ اس ملک میں قانون کے محافظ بھی درندے ہیں ۔ بہت سے کیس ایسے بھی سامنے آچکے ہیں جب متاثرہ لڑکی انصاف طلب کرنے تھانے پہنچی تو تھانے والوں نے اس کا ریپ کیا ۔پسند کی شادی اور خلع کے مقدموں میں وکیلوں کی بلیک میلنگ کی داستانیں الگ ہیں ۔ معلوم نہیں پڑتا کہ کس سے منصفی چاہیں ۔مظلومہ زینب اور اس طرح کے واقعات تو محض چند ایک ہیں، جو منظرعام پر آتے ہیں اورذرائع ابلاغ کی توجہ حاصل کر لیتے ہیں ۔ یہ خبریں سن سن کر اب ہمارے کان پک چکے ہیں کہ ’’نوٹس لے لیا‘‘ ، ’’کمیٹی بنا دی‘‘ ، ’’کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا‘‘ ۔
یہاں عدالت کی زنجیر بھی وہی ہلا سکتا ہے ، جس کے پاس سرمایہ اور طاقت ہے ، کراچی میں ایک جج کے بیٹے کی گاڑی کے قریب مشکوک افراد پائے جائیں تو شہر بھر کی پولیس کی دوڑیں لگ جاتی ہیں ، موٹر وے پر جج کی فیملی سے بدتمیزی ہوتی ہے تو بڑے بڑے پیرزادے پسِ دیوار زنداں چلے جاتے ہیں ، لیکن غریب کی بیٹی کا یہاں کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔
یہاں سسٹم کی بہتری کی بجائے افراداور ان کے اسٹیٹس کی پوجا کی جاتی ہے ۔ ایک پدرسر سماج میں عورت کی کوئی جگہ نہیں ۔ وہ مردوں کے جھگڑوں میں انتقام کے ایک آلے کے طور پر استعمال ہوتی ہے ۔ یہاں کی جعلی روایات اور انسانی احترام کے منافی رسوم کو جب تک مٹایا نہیں جاتا ، درندے کھلے پھرتے رہیں گے ۔ افراد اور معاشرے کا کردار اہم ہے، لیکن ریاست کیا کر رہی ہے ؟ کیا ریاست نے اس قسم کے جرائم میں ملوث افراد کو کبھی نشان عبرت بنایا ؟ یہاں ریاست اس بات میں تو ہمیشہ دلچسپی لیتی رہی کہ کس کا عقیدہ کیا ہے اور اس کی درجہ بندی کہاں کی جائے، لیکن ریاست کو سات دہائیاں گزرنے کے باوجود یہ موقع نہیں مل سکا کہ وہ سب شہریوں کو عقیدوں سے ماوراہوکر برابر کے شہری کے طور پر دیکھ سکے ۔ یہاں ریاست کا سلوک دہرے معیارات پر مبنی ہے ۔ یہ مجرمانہ منافقت ہے ۔
دوسری جانب ہم سب اس کے مجرم ہیں ۔ ہم نے بچے پیدا کرنا تو سیکھا ہے لیکن ان کو اپنے تحفظ کے بارے میں رہنمائی دیتے ہوئے ہمیں شرم آتی ہے ۔ جنسیات کو ہم ایک ممنوع موضوع سمجھتے ہیں ۔ ماضی کے فرسودہ ممنوعات(Taboos) کی پرستش میں ہم اندھے ہوچکے ہیں۔ہم خود کو دھوکہ دے رہے ہیں ۔ بچوں کو ان کے عمر کے تناسب سے اپنے تحفظ کے بارے میں آگاہی دینے کو ہم نامناسب خیال کرتے ہیں ۔
ہمیں مل کر یہ سب غیر انسانی بیرئیر توڑنے ہوں گے ۔ ہمیں جعلی روایات کی پرستش کی بجائے کھلے دماغ کے ساتھ بچوں کی تربیت کرنی ہوگی ۔ اپنے بچوں ، چھوٹے بھائیوں اور بہنوں کو تمام ممکنہ اندیشوں سے حکمت کے ساتھ باخبر کرنا ہوگا ۔ انہیں بتانا ہوگا کہ کوئی کس طرح ان کی معصومیت کا فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔ انہیں ان تمام تحدیدات سے آگاہ کرنا ہوگا ، جو ان کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں ۔اسکول ہو یاکالج ، کام کی جگہ ہو یا پھر تفریح گاہ ، ہمیں اپنے بچوں کو ہر جگہ مناسب انداز میں وقت گزارنا سکھانا ہوگا ۔ انہیں اتنا اعتماد دلانا ہو گا کہ وہ کسی بھی غیر معمولی چیز یا سلوک سے اپنے والدین یا بڑے بھائی بہن کو آگاہ کر سکیں ۔ ہمیں اپنے بچوں کے ساتھ دوستی کرنی ہوگی ، انہیں وقت دینا ہوگا ۔ ہم نے بچوں کے ساتھ خوف اور رعب کا ربط ختم کرکے دوستانہ رشتہ قائم کرنا ہوگا ۔
یہ وہ ہے جو ہم کر سکتے ہیں ، باقی کام ریاست کا ہے ۔ ریاست اگر اسی طرح غفلت کا شکار رہی تو مظلوموں کا انبوہ اسے بہا لے جائے گا ۔ جرائم پیشہ افراد کے رحم وکرم پر چھوڑے گئے معاشروں میںآخری قوت مظلوموں کی ہوتی ہے ۔ یہ بپھرا ہوا منتشر ہجوم جب حرکت میںآتا ہے تو بجائے سدھار کے ایک اور تباہی آتی ہے جو محفوظ ومامون چار دیواریوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتا ہے ۔ ہمیں بیدار ہوکر تباہی کا راستہ روکنا ہوگا۔