تحریر: کوکب جہاں
آئی بی سی اردو ، کراچی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہمارے ملک کی ایک تاریخ رہی ہے کہ ہم اپنے محسنوں اور ہیروز کو جلد ہی بھلا دیتے ہیں اور بعد میں اس کا نقصان بھی اٹھاتےہیں۔
ہمارے اس ہی رویے کی نشاندہی کرنے کے لئے بینک الفلاح کے رائسنگ ٹیلنٹ پروگرام کے تحت پاکستان کے لیجنڈری پاکستانی باکسر حسین شاہ کی زندگی پر اک فلم شاہ کے نام سے نائی گئی ہے جو چودہ اگست کو پاکستان بھر کے سینمائوں میں کی زینت بنی۔
فلم میں حسین شاہ (عدنان سرور) کو اپنی زندگی کا آغاز لیاری کی فٹ پاتھوں پر کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ بھوک اور مفلسی کے ہاتھوں گھومتے گھومتے وہ ایک بزرگ (گلاب چانڈیو) کے پاس پہنچتے ہیں جو انہیں رہنے کے لئے گھر اور پیٹ بھرنے کے لئے نوکری دلواتے ہیں۔ اس ہی دوران کچھ سڑک چھاپ لڑکے ان کے پیسے چرانے کی غرض سے ان پر حملہ کرتے ہیں۔ ان سے مقابلہ کرتے ہوئے وہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اندر لڑنے اورمقابلہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے جس کے بعد حسین باکسنگ ٹریننگ سینٹر میں داخلہ لیتے ہیں۔
کھیل کا جذبہ اور جیت کی لگن حسین کو آگے بڑھنے میں مدد دیتی ہے اور آخر ایک دن آتا ہے جب ان کو 1984 میں کٹھمنڈو میں ہونے والے پہلے جنوبی ایشیا فیدریشن کے کھیلوں کے مقابلوں (سیف گیمز) میں پاکستان کی نمائندگی کےلئے چنا جاتا ہے۔ اس وقت فلم میں جذبات کو بہت خوبی سے پیش کیا گیا ہے جب وہ سپورٹس بورڈ کے عہدیدار سے سفارش کروارہے ہیں کہ انہیں مقابلوں کے لئے جوتے مل جاتے تو بہت اچا ہوتا۔ فلم میں کٹھمندو کی جگہ بھارت کا شہر کلکتہ دکھایا گیا ہے (جہاں انہوں نے 1987 میں میڈل جیتا تھا) جو بہرحال تاریخ کی ایک غلطی ہے اور اس سے گریز کرنا چاہئے۔ شاید کلکتہ دکھانے کامقصد فلم میں سنسنی پیدا کرنا تھا جہاں بھارتی شائقین جوتے نہ ہونے کی وجہ سے پورے مقابلے حسین شاہ پر طنزیہ نعرے لگاتے رہے مگر پھر بھی حسین کا جذبہ کم نہیں ہوتا اور وہ مقابلہ جیت جاتے ہیں۔ اگلے کئی سال تک قسمت کی دیوی حسین شاہ پر مہربان دکھائی دیتی ہے اور جیت پر جیت ان کا مقدر بنتی چلی جاتی ہے اور بالآخر وہ ن بھی آتا ہے جب وہ 1988 میں سیئول میں ہونے والے سرمائی اولمپکس میں پاکستان کے لئے کانسی کا تمغہ جیت کر لاتے ہیں۔ اولمپک کے باکسنگ مقابلوں میں پاکستان کے لئے اب تک یہ سب سے بڑا اعزاز ہے۔
لیکن ان کی تاریخی جیت کے چند سالوں بعد ہی ملک نے ان کو بھلادیا اور وہ پھر سے کسمپرسی کی زندگی کزارنے پر مجبور ہوگئے جیسی وہ چمپئن بننے سے گزاررہے تھے۔ اولمپکس جیتنے کے بعد حکومت پاکستان ان کو زمین اور تنخواہ دینے کا وعدہ کرتی ہے لیکن ان میں سے کوئی وعدہ پورا نہیں ہوتا۔ حسین کے بہت سے خواب ٹوٹتے دکھائی دئے جب حکومت پاکستان انہیں ستارہ امتیاز دینے کے باوجود بھی ان کی مالی امدا کرنے میں ناکام رہی۔ فلم کے ایک منظر میں دکھایا گیا ہے کہ وہ اپنے تمام تمغے قبرستان لاکر پھینک دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کو دفن کردو کیونکہ یہ تمغے نام تو دیتے ہی لیکن پیٹ نہیں بھرتے۔
فلم کے پروڈیوسر لوگو فلم اینڈ میڈیا ہیں۔ حسین شاہ کا کردار ادا کرنے والے عدنان سرور فلم کے ہدایتکار، رائٹر اور میوزک کمپوزر بھی ہیں۔
عدنان سرور کا کہنا ہےکہ حسین شاہ ان کے بچپن کے ہیرو ہیں اور اس فلم کا مقصد ہمارے ایک بھولے بسرے ہیرو کی یاد تازہ کرنا ہے ۔
عدنان سرور نےاس کردار پر بہت محنت کی ہے اور ان کی اداکاری تعریف کے لائق ہے اور یقینا وہ پاکستانی فلم انڈسٹری میں ایک اچھا اضافہ ہیں۔ لیکن جہاں تک ہدایتکاری کا تعلق ہے فلم میں کہیں کہیں جھول ضرور تھے مگر جاندار مکالموں اور جذباتی موضوع کی وجہ سے وہ شاید عام ناظر کو اتنے محسوس نہ ہوں۔
نئی آنے والی تمام فلموں کی طرح سٹوری بورڈ پر مذید کام کرنے کے ضرورت تھی۔ موسیقی فلم کے لحاظ سے موزوں تھی۔ کیمرہ ورک مناسب تھا۔
مجموعی طور پر یہ ایک مکمل فلم تھی جس میں جذبات، احساسات، اور سسپنس سب کچھ موجود تھا جس کو دیکھنے کے بعد یہ محسوس نہیں ہوا آپ بڑی سکرین پر کوئی ڈرامہ دیکھ رہے ہیں، جیسا کہ بنئی بننے والی اکثر پاکستانی فلموں کو دیکھ کو محسوس ہوتا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ عدنان سرور نے آغاز ہی فلمسازی سے کیا ہے اس لئے ان کے کام میں ڈرامے کی جھلک نظر نہیں آئی۔
شاہ کم بجٹ میں بننے والی پاکستانی فلم ہے جس کا ذیادہ تر خرچہ بینک الفالح کے رائسنگ ٹیلنٹ پروگرام کے تحت کیا گیا ہے۔
فلم کی دیگر کاسٹ میں کرن چوہدری، سردار بلوچ، میرال شاہ، اور عدیل رئیس شامل ہیں۔