تحریر: محمد حسین (سماجیات پر ماہر ِنصاب ساز اور پروفیشنل ٹرینر)
ہمارے سماج کے بارے میں مختلف مطالعات، مختلف علاقوں میں مختلف سماجی سرگرمیوں، مختلف سماجی طبقات کے ساتھ تربیتی نشستوں اور دیگر رسمی و غیر رسمی رہن سہن کے دوران ہونے والے مشاہدات ، مختلف طبقات ِ فکر کے ساتھ ہونے والے مکالمات اور ہمارے سماجی امور اور مسائل پر جاری رہنے والی سوچ و بچار کے نتیجے میں دس ایسے بنیادی رجحانات کی نشاندہی کر رہا ہوں جن کے نتائج آج ہم معاشرے میں دیکھ سکتے ہیں۔ یہ رجحانات ہمارے لیے اپنے رویوں کو سمجھنے اور پرکھنے نیز ان کی اصلاح کرنے میں مددگار اور معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ وہ دس سماجی رجحانات یہ ہیں:
1. حیات محوری (life-centric) کے بجائے ممات محوری (death-centric):
ہم زندہ لوگوں کی نسبت مردہ لوگوں کو زیادہ اہم اسمجھتے ہیں. ہم حیات سے زیادہ ممات کو ترجیح دیتے ہیں۔ زندہ لوگوں سے ان کی بے پناہ اور متنوع صلاحیتوں، کردار اور معلومات و تجربات کے باوجود ان کی زندگی میں فائدہ نہیں اٹھاتے اور صرف چند اختلافات کی بنیاد پر ہم ا نہیں غیر اہم، غیر موثر اور ناکارہ سمجھتے۔ ہاں جیسے ہی وہ مرجاتے ہیں پھر سارے ان کی تعریف میں رطب اللسان ہوتے ہیں اور ان کی کرامات گھڑنا شروع ہوجاتا ہے۔ مرنے والوں کاذکر اچھے الفاظ میں کرنا ایک مشرقی روایت ہے تاہم مرنے کے بعد ان کے ہر جائز و ناجائز اور صحیح و غلط نظریات اور کاموں کو مقدس اور معتبر ٹھہرانا اور اسی طرح ان کے ہر اچھے برے کام پر خط بطلان کھینچ کر انہیں برائی کا ہی سرچشمہ بنانا انصاف والی بات نہیں۔ ہم اس معاملے میں بھی توازن اور اعتدال کی راہ سے دور تر ہوتے جار ہے ہیں۔ ہر معاملے کو سیاہ یا سفید انداز (black and white approach) میں دیکھنے سے نئی نسل کو ہر مرنے والی شخصیت پر نئے الجھنوں میں ڈالنا ہماری ایک غلط روایت بن چکی ہے۔ اس کی تازہ مثالیں آپ کو حالیہ مہینوں میں مرنے والی اہم شخصیات کے مابعد الموت تذکروں، تبصروں اور کالموں میں مل سکتی ہیں۔
2. حال اور مستقبل کے بجائے ماضی پر توجہ (past-centric):
ہم زمانہ حال کے تلخ و شیریں حقائق کو نظر انداز کر کے اور اس کے مستقبل کے ممکنہ نتائج، امکانات، مواقع اور خطرات کو دیکھنے و پرکھنے کے بجائے ماضی کی کہانیوں میں الجھے رہتے ہیں۔ چاہے معاملہ مذہب کا ہو یا سیاست کا تاریخ کے اوراق کو الٹ پلٹ کرنے میں ہی ہماری توانائی اور وقت صرف ہوتا ہے۔ آپ ذرا غور فرما لیں تو فرقہ واریت اور لسانیت سے لے کر خاندانی مسائل تک اکثر تنازعات میں لوگ آپ کو ماضی کے ہی قصوں پر لڑتے اور حال و مستقبل کو تباہ کرتے نظر آئیں گے۔ ماضی ہماری ثقافت، سیاست اورمذہب کی بنیاد ضرور ہے لیکن اسی میں الجھے رہنے میں ہمارے حال اور مستقبل کی تباہی بھی ہے۔ ماضی کو بنیاد بنا کر حال کو سنوارنے اور مستقبل کی تیاری میں ہی ہماری فلاح ہے۔
3. امور سے زیادہ شخصیات اہم ہیں۔ (people-centric)
ہم امور کو سمجھنے اور پرکھنے کے بجائے شخصیات کے گرد گھومنا شروع کر دیتے ہیں۔ بات اہم نہیں بلکہ کہنے والا اہم ہو جاتا ہے۔جس کی وجہ سے یا تو اندھی عقیدت اور اندھی تقلید شروع ہو جاتی ہے یا منافرت و دشمنی۔ تعصبات کی موٹی و اونچی دیواریں ہماری آنکھوں کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہیں، اور اب حقائق نظروں سے اوجھل ہو کر صرف وہی کچھ ہمیں نظر آتے ہیں جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں اور انہی کو ہم حقائق کہہ دیتے ہیں۔ تعصبات کی عینکوں کی بدولت ہماری پسندیدہ شخصیات ہماری نظروں میں معصوم ٹھہرنے لگتی ہیں،اپنے پسندیدہ قائد/ رہنما کی ایک اچھائی ایک ہزار اچھائیوں اور ایک ہزار برائیاں ایک برائی میں بدل جاتی ہیں جبکہ مخالف فریق/مسلک، پارٹی، جماعت کی ایک برائی ہزار برائیوں کے برابر اور ہزار اچھائیاں ایک اچھائی کے بھی برابر نہیں رہتی۔
4. خود داری و خودمختاری کے بجائے غیر پرستی اور غلامی:
ہمیں ہر وہ چیز اچھی لگتی ہے جس پرباہر کی چھاپ ہو اور دوسروں کی ہو۔دوسروں کی ثقافت، زبان، لباس، کھانے، پینے، آرائش و زیبائش، طور و طریقے اور طرز زندگی ہمیں جاذب، دلنشین اور بہتر نظر آتے ہیں۔ جبکہ ہمیں اپنی مقامی چیزیں، ثقافت، طور طریقے بے قدر، بد صورت، بد مزہ، بدبو دار اور بے اثر نظر آتے ہیں۔ یہاں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی نسبت باہر کی ڈگری یافتہ نیم خواندہ شخص ہمیں زیادہ قابل اور باصلاحیت نظر آتا ہے۔ کوئی ان پڑھ شخص بھی انگریزی ، عربی یا فارسی بولے تو وہ عالم اور دانشور لگنے لگتا ہے اور بیچاری اردو میں پڑھے گئے علمی و فکری مقالے ہمیں ان پڑھوں کی باتیں لگتی ہیں۔پینٹ شرٹ اور عربی لباس میں ملبوس شخص انتہائی معزز و مکرم نظر آنے لگتا ہے اور شلوار قمیص میں تو گلی محلے کے لوگ ہی نظر آتے ہیں۔غیر ملکی غیر معیاری کھانے بڑے لذیذ محسوس ہوتے ہیں اور ہمارے دیسی صحت افزا کھانوں سے بدبو آنے لگتی ہے۔امپورٹڈ مصنوعات استعمال کرنے کو ہم مقام و مرتبہ کا معیار سمجھتے ہیں اور مقامی مصنوعات غریبوں اور نادار لوگوں کا شیور جانتے ہیں۔ یہ رویہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہم اپنی شناخت پر ، اپنی ثقافت پر اور اپنی روایت پر شرمندہ ہیں۔ جو قوم اپنی شناخت پر شرمندہ ہو اس کی شناخت اور ثقافت کو مٹنے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔
5. ہم متفکر ہونے کے بجائے مشتعل قوم ہیں۔
ہم ہر چھوٹے بڑے معاملات میں سوچنے سے پہلے اشتعال میں آتے ہیں۔ ہم فکری لحاظ سے اتنے کمزور اور نحیف ہو چکے ہیں کہ کسی کے خلاف سوشل میڈیا پر چلنے والے ایک نفرت انگیز پوسٹ، کسی ایک خطیب کی پانچ منٹ کی شعلہ بیان تقریر اور چند سطروں پر مبنی نفرت انگیز پمفلٹ سے ہی کسی کے خلاف بغیر کسی تحقیق و تصدیق کے اپنی رائے قائم کر لیتے ہیں اور اسی پر اپنا رد عمل دینا شروع کر دیتے ہیں۔ ٹھوس منصوبہ بندی، تعلیم و تحقیق، مطالعہ و مکالمہ جیسی سنجیدہ سرگرمیوں کے بجائے اچھلنا کودنا، بلند و بانگ نعرے لگانا، کئی ہزار فٹ لمبے جھنڈے بلند کرنا، ترانے سنانا، عظیم الشان استقبال،فقید المثال اجتماع،لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر والے جلسے، جلوس، میلوں لمبی ریلی، سڑکوں پر احتجاج ودھرنے ، دھمال اور بھنگڑے وغیرہ ہمارے اسی رویے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ خواندگی، غربت، اموات، سالانہ فی نفر آمدنی اور بیماریوں کی شرح، تعمیر و ترقی کے تمام پیمانوں، تحقیق، تعلیم ، معاشی استحکام اور سماجی آسودگی اور تخلیق کے تمام معیارات کا جائزہ لیا جائے تو آپ پاکستان کو خواندگی، سالانہ فی نفر آمدنی، عمر درازی، انسانی حقوق کی پاسداری، صاف پانی و خوراک کی فراہمی اسی طرح ہر خوبی اور مثبت کام کے سلسلے میں دنیا کے ملکوں کی فہرست میں نیچے جبکہ تعلیم کے فقدان، غربت، بچوں کے حقوق کی پامالی، خواتین پر تشدد، مذہبی منافرت، انتہاپسندی، بیماریوں ، غلط طرز حکمرانی (رشوت، بدعنوانی، قانون کی جانبداری، انصاف کی عدم فراہمی وغیرہ) سمیت ہر کمزوری اور خامی کے معیار پر دنیا کے ملکوں کی فہرستوں میں اوپر نظر آتا ہے۔ لائبریریوں، کتب خوانوں ، تحقیقی و تخلیقی مراکز، عوامی سطح پر ادبی و ثقافتی سرگرمیوں کے فقدان اور مراکز کی ویرانی جبکہ اجتماعات، احتجاجوں، ریلیوں اور اسی طرح دیگر اشتعالی سرگرمیوں میں لوگوں کا پے بناہ رش ہماری اسی روش کی علامت ہے۔
6. ہم حقائق کو معروضی (Objective)انداز میں دیکھنے کے بجائے انہیں موضوعی(Subjective) انداز میں دیکھتے ہیں۔
بہت سارے معاملات کو جھنڈا، نعرہ، ترانہ، لیڈر، پارٹی، تنظیم، ادارہ، مسلک، نسل، زبان، علاقہ کے ساتھ جوڑ کر دیکھتے ہیں اور اسی طرح نتیجہ اخذ کرتے ہیں ۔ ہم حقائق کو جاننے کی زحمت کرنے کی بجائے عام طور پر ہم کسی سازشی نظریے ہی پر اکتفا کرتے ہیں۔ ہم قومی سطح کے معاملات سے لے کر گلی محلے اور گھر تک کے ہر معاملے میں یہود و نصاریٰ، امریکہ و اسرائیل اور بھارت کے ہاتھ ڈھونڈتےپھرتے ہیں، وہی تیسرا ہاتھ جو نسلی، لسانی، فرقہ وارانہ اور خاندانی جھگڑوں میں سرگرم ہوتا ہے لیکن کبھی نظر نہیں آتا۔ مسلکی و مذہبی معاملات میں اس مقصد کے لیے مخالف مسلک کی سازشوں کے نام پر فورا ہی فیصلہ کر لیتے ہیں ۔
7. شارٹ کٹ مزاجی:
ہم ہر معاملے کو تفصیل، گہرائی، گیرائی، باریکی اور ہمہ جہتی انداز میں سمجھنے، جانچنے، پرکھنے، اور جائزہ لینے کے بجائے ہر چیز میں سہل پسندی، کلیت پسندی، تعمیم، فوری نتیجہ خیزی، سرسری نظر اور جلد بازی کے شکار ہوتے ہیں۔ ہم ترقی کرنا چاہتے ہیں لیکن محنت کے بغیر، ہم دنیا کی اعلیٰ ترین مناصب پر فائز ہونے کے خواہش مند ہیں لیکن کسی شارٹ کٹ اور مختصر راستے پر چل کر۔
8. ہم ارتقا کے بجائے انجماد کے قائل ہیں:
ہم دس سال پہلے لکھی گئی تحریر، بات یا رائے کے پابند ہونے کی وجہ سے لمحہ موجود کے ساتھ ارتقائی سفر طے کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اس بات میں پھنسے رہتے ہیں کہ میں نے یہ بات کہہ دی تو آج اپنی رائے کے خلاف کیسے بات کروں حالانکہ سیاق و سباق، زمان و مکان، فہم و ادراک، حالات و واقعات کے بدلنے سے بہت ساری باتوں (نظریات، تحقیقات اور آراء) کی حیثیت بدل جاتی ہیں۔ ماضی میں صحیح سمجھ کر سرزد ہونے والے غلطی کے واضح ہونے کے بعد اس سے رجوع کرنا اور صحیح بات کو تسلیم کرنا منصف مزاجی اور حقیقت کی قدر شناسی کی علامت ہے۔ ہم اپنی غلطیوں سے نہ صرف سیکھتے نہیں بلکہ انہیں تسلیم ہی نہیں کرتے۔ ہاں جو غلطیوں پر ڈٹ جاتے ہیں اُنہیں تلخ غلطیاں بھی نہیں سکھا سکتیں۔
9. ہم ادخالی (inclusive)کے بجائے اخراجی (exclusive) اسلوب (approach)کے قائل ہیں۔
ہم شراکتی انداز اختیار نہیں کرتے ۔ ہمارا سماجی اسلوب زندگی یہ ہے کہ ہم اپنے معاملات، غور و فکر، تعمیر و ترقی کے معاملے میں دوسروں کو اپنے ساتھ شامل کرنے کے بجائے کوشش کرتے ہیں کہ دوسروں کو زیادہ سے زیادہ دور اور محروم رکھا جائے اور مراعات، فائدے اور وسائل خود اکیلے سمیٹ لیں۔ ہم ایک دوسروں کی صلاحیتوں، مہارتوں، تجربات سے نہ صرف فائدہ نہیں اٹھاتے بلکہ انہیں تسلیم ہی نہیں کرتے اور ہم اپنے آپ کو ہی ایک ہی وقت میں تمام امور کے ماہر سمجھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہیں معمولی نوعیت کے اختلافات کی بنیاد پر ادارے ، تنظیمیں، جماعتیں، خاندان سب ٹوٹ پھوٹ کے شکار ہیں اور دائرہ اسلام سے لے کر سیاست کے دائروں تک روز بروز محدود ہوتے جا رہے ہیں جس کے نتیجے میں روز ایک نیا مسلک، نئی تنظیم اور نئی پارٹی وجود میں آتی ہے۔
10. ہم دوسروں کی فنا میں اپنی بقا اور دوسروں کی شکست میں اپنی فتح تلاش کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔
دوسروں کو اپنے ساتھ صرف اسی صورت میں ساتھ رکھنا چاہتے ہیں جب ہمیں یہ لگے کہ ان کو ساتھ رکھے بغیر ہمارا بھی پورا فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ ہر پارٹی دوسری تمام پارٹیوں کا خاتمہ اور شکست چاہتی ہے تاکہ وہ اکیلی زمامِ حکومت سنبھال لے اور ملک کو اپنے منشور کے مطابق ترقی کی راہ پر گامزن کر سکے۔ اسی طرح ہر مسلک اپنی بقا دوسرے تمام مسالک کی فنا میں دیکھتا ہے تاکہ وہ ملک میں ’’اپنا خالص اسلام اور شریعت ‘‘ نافذ کر سکے ۔ کم و بیش سوچتے سب اسی انداز میں ہیں بس جب کچھ افراد اس پر عمل در آمد کے لیے آگے بڑھتے ہیں تو وہ دہشت گرد ٹھہرتے ہیں۔
دنیا میں ایسے بہت سارے ممالک ہیں جہاں پاکستان سے زیادہ نسلی، لسانی، مذہبی، سماجی، ثقافتی اور تہذیبی تنوع پایا جاتا ہے۔ ان ممالک نے اس تنوع کو اپنی کمزوری نہیں بلکہ اپنی طاقت بنائی ہے۔ وہ اسی تنوع کو تسلیم کر کے اسے اپنی تعمیر و ترقی کا راز بنا لیا ہے۔ لیکن ہم نے ا س تنوع کو اپنی کمزوری بنائی ہے۔ ہمارے سماج کا مسئلہ نہ سیاست ہے اور نہ ہی مذہب، نہ مختلف نسل، زبان، علاقہ، ثقافت اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق ہے۔ ہمارے سماجی مسائل اور تنازعات کا بنیادی سبب ہمارے سماجی رویے ہیں۔ جس طرح عمارت کی تعمیر میں ہر اینٹ کلیدی کردار ادا کرتی ہیں اسی طرح سماجی رویے کی تشکیل میں ہماری چھوٹی چھوٹی باتیں، حرکتیں اور عادتیں بنیادی کردار کی حامل ہیں۔ افراد اپنی باتوں، حرکتوں اور عادتوں پر نظر ثانی کر کے پورے سماج کا رخ کو تبدیل کر سکتے ہیں۔