ایلان کُردی میرے جان جگر۔۔!!!

شامی بچہ

farnood Alam

تحریر :فرنود عالم
. . . . . . . . . .
اتنا پرسکون درد حاصل زندگی میں پہلی بار سہا ہے۔
اتنی راحت بھری اذیت کو رگ وپے میں ایک حشر بر پا کرتے یوں کبھی نہیں دیکھاتھا۔
پیار کے ناقابل بیان جذبوں سے آراستہ پیراستہ تلخیوں کے کانٹے حلق میں کس طرح چبھتے ہوں گے، مورخ چاہے تو ہم سے پوچھ سکتا ہے۔
 
آگاہی کتنی بڑی اذیت ہے۔۔!!
 
سمندروں کی مضطرب لہروں نے مدتوں کی مسافت کو محیط اس دنیا میں کیا کچھ منظر نہیں دیکھا ہوگا۔ سفینہ نوح اور ٹائی ٹینک کی تاریخ انہی لہروں کے پاس محفوظ ہے۔ کتنی جنگوں کی شکست وفتح کی یہ عینی شاہد ہے۔ انسانی تاریخ کے کئی المیئے اس کے من میں ڈوب کر فنا ہوگئے۔ ان لہروں نے کیا کچھ نہیں دیکھا۔
 
ہم نے مگر وہ دیکھا، جو یا تو جمی کارٹر جیسے بدنصیب فوٹو گرافر کے نصیب میں آتا ہے یا پھر اکیسویں صدی میں سانس لینے والی اس دنیا کے نصیب میں کہ جو اپنی ذات کو تہذیب کا نقطہِ کمال سمجھتی ہے۔
 
ایلان کردی کا قطرہ بدن !! ہائے۔
جیسے کسی پھول نے ساحل کی چکنی ریت پہ کِھل اٹھنے کا معجزہ کر دکھایا ہو۔
تم دیکھ نہیں سکتے، شاید تمہارے امی ابو بھی نہیں۔ دیکھنے کو ہماری بے بس نگاہیں رہ گئیں کہ سمندر کی سہمی ہوئی ہیبت کس طرح سمٹ کر ایلان کے سرہانے بیٹھی اشکباری کر رہی ہے۔
 
کبھی لگتا ہے۔!!
ساحل کی ویرانی کچھ دیر کو خود سراپا پھول بن گئی ہو۔ وہ پھول کہ جس کا دامن تو ٹکڑے ٹکڑے ہے، مگر اس کے لبوں پہ ایلان کسی طنزیہ مسکراہٹ کی طرح بکھر گیا ہو۔ ایک پھول کہ جس پہ ایلان کسی تھکی ہاری تتلی کی طرح بیٹھے بیٹھے سو گیا ہو۔ رات بھر جس پہ روتے آسمان نے شبنم فشانی کی ہو۔ شبنمی کرب نے اس تتلی کا وجود نڈھال کر دیا ہو۔ سمندر کی مضطرب موجیں اور بپھری ہوئی لہریں ٹوٹ کر ایلان کی معصومیت کی بلائیں لے رہی ہو۔
 
اور۔۔!!!!
 
’’سات بر اعظموں پہ پھیلی انسانیت اس کے پہلو میں بال بکھیرے ماتم کر رہی ہو‘‘
 
ایلان ہم مگر شرمندہ ہیں۔!!
 
ہمارے دماغ کے ہر خلیئے میں تہذیب کے ایسے کلیئے ٹانکے گئے کہ جو حضرت انسان کا گلا تو کا ٹتے ہیں، مگر دامن پہ کوئی داغ چھوڑتے ہیں نہ خنجر پہ کوئی نشان۔
 
ہمارا شعور سیاست کے ان پر اسرار چالوں کا اسیر ہوگیا جس نے رہنے کیلئے زمین کو کائنات کا خطرناک ترین مقام بنا دیا۔
 
ہمارا احساس ان خدواندانِ مذھب کا مالِ تجارت بن کر رہ گیا جو غلاف کعبہ کے سائے اور اہلِ بیت کی آڑ میں جام سے جام ٹکراتے ہیں اور حضرتِ انسان کا لہو پیتے ہیں۔
 
ہمارے جذبات ان مذہبی پیروکاروں کے رحم وکرم پہ ہیں جو مسلمان کے ہاتھوں بہنے والے تمہارے خون کے چھینٹے کسی یہودی کے دامن پہ تلاش کر نے نکل گئے ہیں۔
 
تم نہیں رہے۔
تم ہوتے تو دیکھتے کہ تمہاری گردن پہ پاؤں کسی بشار کا پڑا ہے۔ تم اسے کافر کہتے تو میں تمہیں شجرہ نسب کی مدد سے بتاتا کہ وہ مسلمان ہے۔
تم ہوتے تو دیکھتے کہ دور فرات کے کنارے تم جیسے ہی ایک نا معلوم ایلان کے سینے میں شاہ عبداللہ خنجر پیوست کیئے فتح کا جشن منا رہا ہے۔ تمہیں حیرت ہوتی تو شجرہ نسب کھول کے بتا تا کہ وہ مسلمان ہی نہیں بلکہ حرم کے پاسبان بھی ہیں ۔
 
تم ہوتے تو ایک تماشہ اور دیکھتے۔۔!!
 
بتاؤں۔۔؟؟
 
وہ دیکھو، مصر کے اخوانیوں کا خون کرنے کیلئے جرنل سیسی کو پانچ ارب ریال دینے والے آل سعود شام میں مارے والے سنیوں پہ کس قدر غمزدہ ہیں۔ ماتم کا سماں دیکھا۔؟
اب یہ دیکھو، شام میں اٹھارہ سو ایلانوں کو مہلک ہتھیاروں سے تڑ پانے والے بشار کا پشتبان آیت اللہ علی خامنہ ای مصر میں قتل ہونے والے سنیوں پہ کس قدر دل گرفتہ ہیں۔
 
اب کچھ دیر کو سوچو۔۔!!! اس پورے منظر میں کوسنے ملے تو پاکستان کے مسلمان کو۔ طعنے ملے تو دور پار کے باسیوں کو۔ ملنے چاہیئں، دیکھنے کی مگر چیز یہ ہے کہ جبہ پوش اب بھی کس قدر صفائی سے بچ نکلے ہیں۔
 
یہ سب دیکھ کر تم سوچتے۔!! یہ کیسی جنگ ہے۔ یہ کاہے کی جنگ ہے۔ اس جنگ میں خدا کہاں کھڑا ہے اور اس کی جنت و دو زخ کا کیا مقام ہے۔
 
ہم بتاتے۔۔!!
یہ سیاست کی جنگ تھی۔ یہ استعمار کے پھڈے تھے۔ یہ سامراج کے دھنگے تھے۔ مگر میدان مذھب کا منتخب ہوا۔ بروئے کار اہل مذھب آئے۔ وہ اہل مذھب جو ایک دوسرے کیلئے کافر ہیں۔ وہ اہل مذھب جو ایک دوسرے کی نظر میں سامراج کے ایجنٹ ہیں۔
 
ایلان ۔۔!!
 
تم مارے گئے۔ بے موت مارے گئے۔ بشار اور اس کے غمخواروں کا معاملہ آسان ٹھہرا کہ مولا علی ،اہل بیت بارہ امام اور بھتر شہدائے کربلا جنت میں ان کے ٹھکانے یقینی کرواچکے۔ بس شدت کا انتظار جاری ہے۔
آل سعود کے بالواسطہ و بلاواسطہ کھجور خواروں کا معاملہ بھی واضح ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کرام ان کے استقبال کو دیدہ ودل فرش راہ جنت کے دروازے پہ کھڑے ہیں۔
 
مگر تمہارا کیا ہوگا۔؟
تم تو انسان تھے۔ بے گناہ انسان۔ بے گناہوں کیلئے جھنم ہے۔ اس دنیا میں بھی جھنم، جہاں جلنے سے تم بچ گئے۔ اآس دنیا میں بھی جھنم، جہاں تم نے جلنا ہوگا۔ تب تک ، کہ جب تک تمہارے نادان غمگسار خدا کے مشیر ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے