بات کیسے ہو؟

تکبیرِ مسلسل

Khurshid Nadeem

خورشیدندیم

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دو چیزیں مطلوب ہیں: امن اور یکساں مواقع۔یہ کیسے مل سکتے ہیں؟میں ایک حل تجویز کر سکتا ہوں مگر اسے بیان نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے مجھے وہ سماج چاہیے جو میری بات سننے پر آمادہ ہو۔جہاں مجھے اذنِ گفتار ملے۔انتخاب کا حق یقیناً لوگوں کے پاس ہے۔ چاہیں تو قبول کریں۔ چاہیں تو رد کر دیں۔مجھے مگر یہ خوف نہ ہو کہ بات کہنے کے نتیجے میں میری جان جا سکتی ہے۔مجھے ہجر ت کرنا پڑ سکتی ہے۔جب تک ایک سازگار ما حول نہیں ہو
گا،میں مسئلے کو کوئی حل کیسے تجویز کر سکتا ہوں؟
علامتی ادب کیا ہے؟جب سادہ لفظوں میں بات کہنا ممکن نہ ہو تو علامتوں کی زبان میں گفتگو کی جاتی ہے۔علامت عام آ دمی کو دیر سے سمجھ میں آتی ہے۔وہ مگر جلد سمجھ جاتے ہیں جو ہدف ہوتے ہیں۔وہ اپنی اصلاح کے بجائے مزاحمت کا راستہ اپنا تے ہیں۔یوں بات کہنے والے کے خلاف ایک ماحول بناتے ہیں تاکہ اس کی بات اور اس کی شخصیت کو رد کر دیا جائے۔عام طور پر وہ کامیاب رہتے ہیں۔آ دمی کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد لوگوں کو احساس ہو تا ہے کہ وہ تو ان کا مخلص دوست تھا۔پس ِ مرگ اس کی پوجا ہوتی ہے۔جانے والامگر چلا جا تا ہے۔علامتی اسلوب بھی اس کی جان نہیں بچا سکتا۔کبھی تو مرنے کے بعد بھی ایسے لوگ یاد نہیں آتے۔
 
تمثیل کی زبان میں اگر آپ حسنِ کلام کا کوئی نمونہ دیکھنا چاہیں تو انجیل اس کا ایک غیر معمولی مظہر ہے۔سید نا مسیحؑ کا سامنا بھی کم و بیش ایسے ہی حالات سے تھا۔اہلِ مذہب اور اربابِ اقتدار کا خلاف بات نہیں ہو سکتی تھی۔سید نا مسیح نے تمثیل کی زبان میں بات کی۔جاننے والے جان گئے کہ ہدف کون ہے۔پروپیگنڈے کی ایک مہم شروع ہوئی اورمخالفین نے انہیں اپنے تئیں مصلوب کر دیا۔وہ مگر اﷲ کے رسول تھے اور اﷲ اپنے رسول کو دشمنوں کے حوالے نہیں کرتا۔سید نا مسیح کو اُٹھا لیا گیا اور ان کے دشمنوں کے لیے معاملہ مشتبہ بنا دیا گیا۔آنے والا دورحضرت مسیح کا تھامگرمخالفین نے تو انہیں عین جوانی میں مار ڈالنے کی کوشش کی۔ان کی بات اور تمثیلات کو سمجھنے والے کم ہی تھی۔ان کے حواریوں کی تعداد کہتے ہیں کہ بارہ سے بڑھ نہیں سکی۔ان کے مخالفین مگر ان کی علامتوں کو جان گئے اور ان کے درپے ہوگئے۔
 
ہماری تاریخ میں بھی اس کی ایک مثال ہے۔یہ جسٹس ایم آر کیا نی ہیں۔ ایوب خان کے آ مرانہ دور میں بات کہنی بہت مشکل تھی۔جسٹس کیانی نے علامت اور تمثیل کا اسلوب اختیار کیا۔ان کی تقریریں ’افکارِِ پریشاں‘اور A Judge May Laughکے نام سے مو جود ہیں۔آج ان کی معنویت واضح ہے مگر اس وقت کتنے لوگ تھے جنہوں نے ان کی بات سمجھی؟تمثیل سے کہنے والا مطمئن ہو جا تا ہے مگر ابلاغ دیر سے ہوتا ہے۔وہ جلدی سمجھ جاتے ہیں جن کے مفاد پر ذد پڑتی ہے۔وہ اپنی حکمتِ عملی مرتب کر لیتے ہیں اور تمثیل میں کلام کر نے والا خود تمثیل بن جا تا ہے۔
 
آج معاملہ ماضی کی نسبت کہیں سنگین ہے۔جمہوریت نے سیاسی حکومتوں کا جبر ختم کر دیالیکن غیر ریاستی عناصر اب ریاست سے زیادہ طاقت ور ہیں۔بد قسمتی سے کبھی کبھی ریاست بھی اُن کی خدمات سے فائدہ اٹھاتی ہے۔جمہوریت کے خوف سے جو جبر براہ راست ممکن نہیں ہو تا، وہ بالواسطہ کیا جا تا ہے۔سیاسی حکومت البتہ بے بسی کی تصویر ہے۔وہ بارہا اعلان کر چکی کہ ’نفرت انگیز‘ لٹریچر کی اشاعت نہیں ہو گی۔ کفر کا فتتویٰ نہیں دیا جا ئے گا۔عملاً یہ باتیں بے معنی ثابت ہوئیں۔ لڑیچر شائع ہو رہا ہے۔ فتو ے دیے جارہے ہیں اور کوئی روکنے والا نہیں۔وجہ واضح ہے۔یہ عناصرحکومت سے زیادہ طاقت ور ہیں۔ریاست ان کی قو ت کو چیلنج نہیں کر سکتی۔یہی معاملہ غیر مذہبی عناصر کا بھی ہے۔جن کے پاس قوت ہے، ان پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔وہ مخالفین کی زبان بند کر نے کی صلاحیت رکھتے ہیں اورنظامِ عدل پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
 
اس پس منظر میں کوئی بات کرے تو کیسے؟کوئی حل تجویز کرے تو کیسے؟یہ بات طے ہے کہ اصلاح کا کوئی کام ممکن نہیں جب تک مو جود سماجی اور ریاستی اداروں کی اصلاح نہیں ہوتی۔یہ سب امن کے راستے میں حائل ہیں۔ان کے کردار کو تبدیل کیے بغیر یکساں مواقع پیدا نہیں ہو سکتے۔جو اس کی جسارت کر ے گا،وہ قابلِ مذمت ٹھہر ے گا۔وہ توہینِ مذہب کا مرتکب قرار پائے گا۔ اسے روایت کا منکر کہا جائے گا۔اس سے پہلے کہ اس کی بات سنی جائے، اس کے خلاف ایسی فضا پیدا کر دی جائے گی کہ کوئی اس کی با ت پر کان دھرنے کے لیے آمادہ نہیں ہو گا۔ایسے میں دو ہی راستے ہیں۔خاموشی یا علامتی اسلوب۔علامتی اسلوب کا انجام میں بتا چکا۔ تو کیا خاموشی اختیار کر لی جائے؟
 
یہ بھی آسان نہیں۔اس کے لیے اپنے آپ سے جنگ کر نا پڑتی ہے۔آ دمی دنیا کو مطمئن کر سکتا مگر اپنے آپ کو نہیں۔میرے سامنے ایک واقعہ ہو تا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ غلط ہے۔میں مگر اس پر کلام نہیں کر سکتا۔اس لیے کہ مجھے جان کا خوف ہے۔ایک آ دمی اس کیفیت میں کب تک رہ سکتا ہے؟خاموشی کیا اسے مار نہیں ڈالے گی؟ہجرت بھی ایک راستہ ہے۔یہ مگر کون سا آ سان ہے؟گھر بار، ملک اور عزیز و اقارب کو چھوڑنا آسان ہو تا تو ’ہجرت‘ اتنی بڑی نیکی نہ شمار ہوتی۔یہ بھی اہلِ عزیمت ہی کا کام ہے۔اپنی مرضی سے کہیں جانے اور جبر سے جانے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔اگریہ سب راستے بند ہیں تو پھر کیا کیا جائے؟خود کشی؟ظاہر ہے کہ ایک مسلمان کے پاس یہ راستہ بھی مو جود نہیں۔
 
راستہ ایک ہی ہے۔ سب سے پہلے اس ما حول کی تشکیل جس میں بات کہنے کیا اذن ملے۔یہ بھی آسان نہیں۔یہ خواہش کر نا بھی بہت سے لوگوں کے نزدیک جرم ہے۔سدِ ذرائع بھی ہمارے ہاں اقدام کا ایک جواز ہے۔ایسی کوشش چونکہ آزاد خیالی کا دروازہ کھولتی ہے جس کا نتیجے میں،ان کے خیال میں، مسلمات بھی زیربحث آ سکتے ہیں۔اس لیے سدِذرائع کے اصول پرایسی کوشش کی بھی مزاحمت جائز ہے جوکسی گناہ کا سبب بن سکتی ہے۔اس کے باوجود،اگر کوئی راستہ باقی ہے،تو یہی ہے۔ہمیں ایک ایسا ماحول تشکیل دینا ہے جوآزادی رائے کو یقینی بنائے۔ جس میں موقف کی قبولیت اور عدم قبولیت کا فیصلہ دلیل پر ہو۔جس میں فتوے کی زبان میں گفتگو نہ ہو۔جس میں ہمارے اسلاف کے اس رویے کا پرتو ہو کہ ھذاما عندی واﷲ عالم بالصواب۔یعنی یہ میری رائے ہے اور جہاں تک صحیح بات کا تعلق ہے، وہ اﷲ ہی جا نتا ہے۔ہمیں ایسا ما حول چاہیے جس میں اسی جذبے کے ساتھ لوگ اپنی بات کریں اور خود کو مامورمن اﷲ نہ سمجھیں۔ختمِ نبوت کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ یہ حق حضورِ پاکﷺ کے بعد،اب کسی کے لیے ثابت نہیں کہ اس کا فرمان دین کے باب میں حرف ِ آخر ہے۔
 
اس ما حول کی تشکیل ہراس آ دمی کی ضرورت ہے جو یہ خیال کر تا ہے کہ وہ ملک اور سماج کو درپیش مسائل کا کوئی حل پیش کر سکتا ہے مگر کسی خوف کے باعث کہنے سے گریزاں ہے۔جو ایسا معاشرہ چاہتا ہے جس میں ریاست اور دین کے مفاد پر کسی ایک گروہ کی اجارہ داری نہ ہو۔نہیں معلوم مجھ جیسے کتنے لوگ ناگفتنی کی اذیت میں مبتلا ہیں۔ہمیں اس بات پر یقین رکھنا چاہیے کہ وقت خود صراف ہے۔وہ کھرے کھوٹے کی تمیز کر سکتا ہے۔جو بات کمزور ہو گی،انسانی حافظے ہی سے نہیں،تاریخ سے بھی محو ہو جائے گی۔اگر ہم ایسا ماحول تشکیل دے سکیں تو پھر بات ہو سکتی ہے کہ امن اور یکساں مواقع کیسے مل سکتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے