یہ 2016 کی بات ہے جب ہم علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں ایم فل کے شعبہ فکر اسلامی، تاریخ و ثقافت کے ریسرچ اسکالر تھے۔ ہمارے اصرار پر استادِ محترم ڈاکٹر محی الدین ہاشمی نے پروفیسر ڈاکٹر طفیل ہاشمی مدظلہ کو خصوصی لیکچر کے لئے مدعو کیا۔ انہوں نے تین گھنٹوں پر مشتمل سیشن لیا، جس میں نہایت مدلل انداز میں مختلف موضوعات پر گفتگو کی اور سامعین کے سوالات کے جوابات دیئے۔
جب سیشن ختم ہوا، تو ہم نے پروفیسر طفیل ہاشمی کے ساتھ گروپ فوٹو لینے کی درخواست کی۔ انہوں نے تمام احباب کے ساتھ تصویر بنوائی، اور بعد میں میں نے ان کے ساتھ انفرادی تصویر لینے کی خواہش ظاہر کی۔ یہ دیکھ کر دیگر اسکالرز اور علماء بھی باری باری ان کے ساتھ تصاویر بنوانے لگے۔ میں نے ساتھیوں سے کہا کہ استاد جی تھک گئے ہوں گے، راستے میں تصاویر لینے کے لئے یوں زیادہ کھڑا رکھنا مناسب نہیں، تو اس موقع پر ڈاکٹر طفیل ہاشمی نے مسکراتے ہوئے کہا: "تصاویر لینے دیں، علماء قضا ما فات کر رہے ہیں۔”
ڈاکٹر صاحب کی اس بات کے پیچھے گہری بصیرت تھی، جس کا مطلب یہ تھا کہ ماضی میں جو علماء تصویر کو حرام سمجھ کر اس سے اجتناب کرتے رہے تھے، وہ آج حالات کے دباؤ اور وقت کی تبدیلی کے باعث اسی عمل کو اپنانے پر مجبور ہیں۔ ایک طویل عرصے تک تصویر اور ویڈیو کو دینی معاملات میں حرام یا مکروہ سمجھا گیا، لیکن آج وہی علماءو مفتیان کرام اس کے استعمال میں آگے بڑھ گئے ہیں بلکہ قضا ما فات کی پوزیشن میں ہیں۔
سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے رجحانات نے علماء کو بھی اپنے موقف پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کیا۔ وہ علماء جو پہلے تصویر اور ویڈیو کی مخالفت کرتے تھے، اب سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی موجودگی کو مضبوط بنانے اور دین کی تبلیغ کے لیے اس کا استعمال کر رہے ہیں۔ حتیٰ کہ کچھ علماء اپنی روزمرہ کی سرگرمیاں بھی سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہیں، یہاں تک کہ سفر میں جہاز کے باتھ روم جاتے ہوئے بھی تصاویر لیتے اور فوراً اپ ڈیٹ کر دیتے ہیں۔
یہاں تک کہ وہ علماء جو کل تک مفتی تقی عثمانی جیسے بزرگ علماء کی تصویر اور ویڈیو کے استعمال کے موقف پر تنقید کرتے تھے بلکہ پھبتیاں کستے تھے، آج خود سوشل میڈیا پر ہر وقت متحرک نظر آتے ہیں۔ ان کے دروس، نمازیں، اور یہاں تک کہ ذاتی معاملات بھی آن لائن نشر کیے جاتے ہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں کہ دین کی تبلیغ اور رہنمائی کے لئے جدید ذرائع استعمال کیے جائیں، لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کب اور کس طرح ان ذرائع کا استعمال مناسب اور مفید ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے، بعض بڑے علماء نے اپنی تشہیر اور مقبولیت کے لیے ایسے افراد کو ذمہ داریاں سونپ دی ہیں جو تکنیکی لحاظ سے کمزور ہیں۔ یہ افراد بلا سوچے سمجھے مواد شئیر کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں بعض اوقات علماء کی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ ان غیر ذمہ دارانہ اقدامات کے باعث نہ صرف علماء کی بدنامی ہو رہی ہے بلکہ دین کی درست تشہیر بھی متاثر ہو رہی ہے۔
یہ چیزیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ وقت کے ساتھ فتاویٰ اور دینی معاملات میں تبدیلی آتی رہتی ہے، اور علماء کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اپنے فتاویٰ کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کریں۔ تصویر اور ویڈیو جیسے مسائل میں جب وقت نے ہمیں دکھایا کہ یہ ذرائع دینی تبلیغ کے لئے مفید ہو سکتے ہیں، تو علماء نے بھی اپنی رائے اور عمل میں لچک پیدا کی۔
اس تناظر میں، ضروری ہے کہ علماء اپنے کام میں ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اور ایسے افراد کو سوشل میڈیا یا دیگر ابلاغی ذرائع کے استعمال کی ذمہ داریاں دیں جو نہ صرف تکنیکی مہارت رکھتے ہوں بلکہ دین کی عظمت اور علماء کی عزت کو بھی برقرار رکھ سکیں۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ جدید ذرائع کا استعمال فائدہ مند ہو، نہ کہ نقصان دہ۔