معائدہ کراچی،سی پیک اورکشمیرکا المیہ

69 سال پیچھے چلتے ہیں ۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد ریاست جموں کشمیر کے حصول کے لیے پاکستان اور بھارت کی جاری جنگ سرد پڑ رہی تھی ۔اقوام متحدہ کی مداخلت نے اس کشمکش کی شدت کم کر دی تھی۔اس وقت ریاست جموں کشمیر کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا مقامی سطح پر’’ آزادکشمیر ‘‘قرار دیا گیا اور یہاں آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس نامی سیاسی جماعت کی حکومت قائم ہوئی جسے مسلم کانفرنس کی جانب سے ریاست کی ’’انقلابی حکومت‘‘ قرار دیا گیااوراس عزم کا اظہار کیا گیا کہ یہاں کی حکومت کو پوری ریاست کی نمائندہ حکومت کے طور پر پیش کیا جائے گا جو باقی ماندہ ریاست کی آزادی کے لیے بیس کیمپ کا کام کرے گی۔سردار ابراہیم خان جو سری نگر چھوڑ کر یہاں آئے تھے،اس حکومت کے صدر بنے جبکہ چوہدری غلام عبا س اس وقت آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کے سربراہ تھے۔

ریاست جموں کشمیر کے اس چھوٹے سے ٹکڑے میں ’’آزادکشمیر‘‘ اور گلگت بلتستان نامی علاقے شامل تھے۔اس کے بعد آج کے دن یعنی 28اپریل 1949کو حکومتِ پاکستان اور حکومت ’’آزادکشمیر‘‘ کے درمیان کراچی میں ایک خفیہ معائدہ ہوا تھا،حکومت پاکستان کی جانب سے وزیر بے محکمہ مشتاق گورمانی(انچارج وزارت امور کشمیر) جبکہ حکومت ’’آزاد کشمیر‘‘ کی طرف سے صدر سردار ابراہیم اور چوہدری غلام عباس اس معائدے کا حصہ تھے ۔

اس معائدے کو خفیہ اس لیے لکھا کہ28 اپریل 1949 کے بعد کے 41برسوں میں اس معائدے کے بارے میں کوئی اطلاع سرکاری طور پر نہیں دی گئی۔ریاست جموں کشمیر کے باشندے اس سے قطعی لاعلم تھے۔’’آزادکشمیر‘‘ کے اس وقت کے صدر نے اپنے عوام کو اس سے آگاہ کرنا اہم نہیں سمجھا ۔نوے کی دہائی میں آزادکشمیر ہائی کورٹ میں گلگت بلتستان سے متعلق ایک مقدمے کی سماعت کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ اس قسم کا کوئی معائدہ چار دہائیاں قبل طے پا چکاہے۔اس کے بعد اس معائدے کو ’’آزادکشمیر‘‘ کے آئین کے ضمیمے کے طور پر شائع کیا گیا۔

اس معائدے کو آزادکشمیر میں ’’معائدہ کراچی‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس کے تین حصے تھے ۔ پہلے حصے میں آزادکشمیر نامی علاقے کی عوامی حکومت کے ڈھانچے اور کردارسے متعلق بات کی گئی تھی ۔ دوسرا حصہ ریاست جموں کشمیر کے ان علاقوں پاکستان کے ساتھ معاشی روابط کا احاطہ کرتا ہے جبکہ تیسرے حصے میں حکومتِ پاکستا ن اور حکومت آزادکشمیردرمیان اختیارات کی تقسیم کا فارمولا پیش کیا گیا تھا۔اختیارات کے باب میں حکومت پاکستان نے اپنے لیے ریاست کے دفاع، اقوام متحدہ سے مذاکرات، خارجہ امور، دیگر ممالک میں مسئلہ کشمیر کی تشہیر، مہاجرین کی امداد اور بحالی، استصواب رائے دہی میں تعاون اور اس کی تیاریوں، کشمیر کے متعلق پاکستان میں تما م سرگرمیوں اور ریاست کے علاقے گلگت بلتستان اور لداخ کا سارا کنٹرول (کل آٹھ) اپنے لیے محفوظ کر لیے تھے۔دوسرے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ آزادکشمیر کی حکومت اس معائدے کی رو سے گلگت بلتستان سے اپنا اختیار کھو چکی تھی۔

نوے کی دہائی کے بعد سے ہونے والے سیاسی مباحثوں اور کشمیر سے جڑے تجزیوں میں ’’معائدہ کراچی‘‘ اسی ایک شق کے تناظر میں ذکر کیا جاتا رہا ہے۔ عملی طور پر اس معائدے کے بعد آزادکشمیر کی حیثیت ایک لوکل اتھارٹی سے زیادہ نہیں رہ گئی تھی۔ حکومت پاکستان نے مسئلہ کشمیر اور بھارت کے ساتھ اس کے زیر انتظام علاقے کے بارے میں بات چیت کا سارا اختیار اپنے پاس رکھ لیا ، جس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ حکومت آزادکشمیر کا کوئی عالمی کردار نہیں ہو گا۔

آزادکشمیر کی حکومت کو چار اختیارات دیے گئے۔جن میں سے تین کا تعلق آزادکشمیر میں پالیسی سازی،انتظامی امور اور معاشی ذرائع کی ترقی تھے جبکہ چوتھا اختیار یہ تھا کہ آزادکشمیر کی حکومت پاکستان کی وزارت بے محکمہ ، جوکہ کشمیر کے امور کی انچار ج بھی تھی ، اس کو اقوام متحدہ سے مذاکرات سے متعلق مشورے دینا۔ اسی طرح مسلم کانفرنس کو بھی جو آٹھ اختیارات دیے گئے ان میں’’آزادکشمیر‘‘،بھارتی زیر انتظام کشمیر اور مہاجرین میں سیاسی سرگرمیاں، استصواب رائے کے لیے کوششیں، آزادکشمیر کی حکومت کو مشورے اور پاکستان کی وزرات بے محکمہ (انچارج امور کشمیر)کو ’’ایڈوائس‘‘ دینا شامل تھا۔

یہ تفصیل آسٹریلوی پولیٹیکل سائنٹسٹ کرسٹوفر سنیڈن نے 2012میں شائع ہونے والی اپنی کتاب The Untold Story of the People of Azad Kashmir میں لکھی ہے۔کرسٹوفر سنیڈن کے بقول آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس نے یہ معائدہ اس لیے کہا تھا کہ یہ جماعت ریاست جموں کشمیر کو پاکستان کے حصے کے طور پر دیکھنا چاہتی تھی اور اس کا خیال تھا کی استصواب رائے کے بعد ریاست جموں کشمیر کے سب حصے پاکستان میں شامل ہو کر اس کے صوبوں کی طرح ہو جائیں گے۔ جبکہ ایک اور پولیٹیکل سائنٹسٹ نونیتا چدھا بہیرا ( Navnita Chadha Behera) نے اپنی کتاب Demystifying Kashmir میں لکھا کہ: ’’اس معائدے کو قبول کرنے کا واضح نتیجہ یہ تھا کہ پاکستان کی وزارت امور کشمیر کا جائنٹ سیکریٹری عملی طور پر آزادکشمیر نامی علاقے کا حکمران بن گیا۔‘‘ (اور آج کل حکومت پاکستان کی جانب سے بھیجا گیا چیف سیکرٹری )

گو کہ اس معائدے کے ایک شریک سردار ابراہیم خان اس کے حق میں بہت بعد تک دلائل دیتے رہے ہیں لیکن کشمیری سیاسی وسماجی حلقوں میں اس بارے میں بے چینی مسلسل پنپتی رہی۔ سوالات برابر پوچھے جاتے رہے۔ ’’آزادکشمیر‘‘ کی بعد کی حکومتوں نے گلگت بلتستان پر اپنے حق کا دعویٰ بھی کیا ،1972میں ’’آزادکشمیر‘‘ کی قانون ساز اسمبلی میں گلگت بلتستان پر ریاست کے حق سے متعلق ایک قرارداد بھی منظور ہوئی۔ اس کے بعد’’آزادکشمیر‘‘ کے 1974کے آئین میں گلگت بلتستان کو ریاست کے حصے کے طور پر ظاہر کیا گیا۔ 1992میں آزادکشمیر ہائی کورٹ نے ایک پٹیشن سماعت کے لیے منظور کی اوراپنے فیصلے میں ’’معائدہ کراچی ‘‘ کالعدم قرار دے کر آزادکشمیر اورگلگت بلتستان کو ایک سیٹ اپ میں لانے کا حکم جاری کیا ، یہ فیصلہ بعد میں آزاد کشمیر میں قائم ’’سپریم کورٹ‘‘ میں چیلنج ہو گیا جس کے نتیجے میں اسے کالعدم قرار دے دیا گیا لیکن سپریم کورٹ نے اس میں یہ ضرور لکھا کہ’’ گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ تھا‘‘

معائدہ کراچی خفیہ طور پر تین افراد کے درمیان طے پایا تھا۔ایک نمائندہ حکومت پاکستان کا تھا جبکہ دو نمائندے حکومت آزادکشمیر کے تھے۔لیکن یہ واضح تھا کہ اس معائدے میں کشمیر (بشمول گلگت بلتستان) کے عوام کی رائے شامل نہیں تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستان اور آزادکشمیر میں اس معائدے پر آج تک سخت تنقید کی جاتی ہے۔اس معائدے کے بعد گلگت بلتستان کا کنٹرول حکومت پاکستان کی جانب سے مقرر کیے گئے پولیٹیکل ایجنٹ کو دیا گیااور دہائیوں تک وہاں کے عوام اپنے حقوق کے لیے ٹامک ٹوئیاں مارتے رہے۔حکومت آزادکشمیر اب وہاں مداخلت کا جواز کھو چکی تھی۔

یہاں یہ جاننا بھی اہم ہے کہ ریاست جموں کشمیر میں پشتنی باشندگی کا ایک قانون اس ریاست کے مہاراجہ نے 1927کو نافذ کیا تھا جس کا مقصد غیر ریاستی باشندوں (برطانوی و دیگر)کی کشمیر کے ساز گار موسم کو دیکھ کر یہاں آباد کاری کا راستہ روکنا تھا، یہ قانون بھارت کے زیر انتظام کشمیر اور ’’آزادکشمیر‘‘ میں تو تقریباً اسی طرح لاگو ہے لیکن گلگت بلتستان میں پشتنی باشندگی کا یہ قانو ن1981 سے معطل چلا آرہا ہے ۔ ایسا اس وقت کے فوجی آمر جنرل ضیا ء الحق کی جانب سے شمالی علاقہ جات(گلگت بلتستان) کو (ای زون‘‘ قرار دینے اور پاکستان سیٹیزن شپ ایکٹ کے گلگت بلتستان میں نفاذ کی صورت میں ہوا، جس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ پاکستان کے شہری اور سرمایہ دار گلگت بلتستان میں زمین خریدنے کے اہل ہو گئے اور انہوں نے وہاں بڑی جائیدادیں خریدلیں۔ ان سرمایہ داروں کے پیش نظر وہاں مستقبل میں بننے لگائے جانے والے دیامر بھاشا ڈیم سمیت متعدد ترقیاتی منصوبے بھی تھے جن میں انہیں خریدی گئی زمینوں کے معاوضے کی صورت میں اربوں روپے کا فائدہ ملنا یقینی تھا۔

بعد ازاں 1999میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک فیصلے کے مطابق گلگت کے شہریوں کو بھی پاکستانی شہری قرار دیا گیا لیکن گلگت بلتستان امپاورمنٹ آرڈر 2009میں وہاں کے عوام کو صرف گلگت کا شہری تسلیم کیا گیا۔اس نکتے کو واضح انداز میں کشمیر کے امور میں خصوصی دلچسپی رکھنے والے صحافی دانش ارشاد نے ان الفاظ میں بیان کیا :’’سٹیٹ اسبجیکٹ رولز کا نفاذ نہ ہونے کی وجہ سے گلگت بلتستان میں غیر ریاستی افراد کو جائیدادوں کی الاٹمنٹ بھی کی گئی۔اس وقت پاکستان کے کئی سیاستدانوں ، موجودہ اور سابق بیوروکریٹس کے علاوہ کئی غیر ریاستی باشندوں کی جائیدادیں گلگت بلتستان میں موجود ہیں۔اسی طرح نوکریوں میں مقامی افراد کا کوٹہ انتہائی کم رکھا گیا ہے ۔سٹیٹ سبجیکٹ کا نفاذ نہ ہونے کے باعث گلگت بلتستان میں سب سے زیادہ نقصان عدلیہ کے حوالے سے ہوا ہے ، جہاں غیر ریاستی افراد کو سپریم اپیلٹ کورٹ کا چیف جج مقرر کیا جاتا ہے اور لوگوں کو انصاف کی فراہمی میں مشکلات درپیش آتی ہیں۔ ‘‘

اب جبکہ حکومت پاکستان ’’پاک چین اقتصادی راہداری ‘‘ (CPEC)کے بارے میں بہت سرگرم ہے ۔سرکاری سطح پراس معاشی منصوبے کو پاکستان کے روشن مستقبل کی بنیاد قرار دیا جا رہا ہے۔اس صورت حال میں عین ممکن ہے کہ گلگت بلتستان میں پاکستان سیٹیزن شپ ایکٹ نافذ کرکے انہیں بھی پاکستان کا شہری تسلیم کر لیا جائے۔اس وقت پاکستان کے اعلیٰ سطحی فیصلہ ساز حلقوں میں گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت میں جوہری نوعیت کی تبدیلیاں لانے کی خبریں گردش میں ہیں۔اگر پاکستان گلگت بلتستان کو اپنا باقاعدہ حصہ (صوبہ) بنا لیتا ہے تو بادی النظر میں ریاست جموں کشمیر پر اس کے 70 سالہ موقف کی بنیاد ختم ہو جائے گی اور عملی طور پاکستان ریاست جموں کشمیر کی تقسیم قبول کرنے پر مجبور ہو جائے گاکیونکہ 1948 /49 میں اقوام متحدہ میں جس علاقے کو متنازع قرار دیا گیا تھا ، اس کے ایک حصے کو آئینی طور پر پاکستان میں شامل کر لینے کے نتیجے میں بھارت کو قابض کہنے کا جواز ختم ہو جائے گا اور منقسم کشمیریوں کی آزادی کی امید دم توڑ جائے گی۔

اگر حکومت پاکستان اس نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کو چھیڑے بغیر وہاں کے عوام کو بااختیار بنا دیتی ہے توکشمیر کے حوالے سے ممکنہ استصواب رائے کے میں گلگت بلتستان کے عوام تقریباً20 لاکھ ووٹ پاکستان کے حق میں جا سکتے ہیں۔ بصورت دیگر ہمیں کشمیر کے ایک قدآور رہنما شیخ محمد عبداللہ کابرسوں پہلے کہا گیا یہ جملہ درست ماننا پڑے گا کہ ’’پاکستان کے ہاتھ سے کشمیر کی ٹرین 1965ء میں چھوٹ چکی‘‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے