پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان 29اپریل 2018 کی شام مینار پاکستان لاہور میں بڑ اجلسہ کر نے میں کامیاب ہو گئے۔میں شام ٹھوکر نیاز بیگ براستہ کینال روڈ جہاں تک گیا،ہر طرف تحریک انصاف کے بینر ہی بینر تھے۔ مختلف علاقوں سے گاڑیوں کے قافلے جلسہ گاہ کی طرف بڑھ رہے تھے۔دوسری جانب فیروز پور روڈ پر بھی کافی رش تھا۔جلسہ شروع تھا لیکن عمران خان ابھی نہیں پہنچے تھے۔میں نے ایک دوست کے ساتھ قذافی اسٹیڈیم کے ساتھ ایک ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا۔اس دوران جلسہ کی ٹی وی کوریج دیکھی تو اندازہ ہوا کہ مجمع کافی بڑا ہے۔فوڈ اسٹریٹ میں اتوار کی شام ہونے کے باوجودبہت کم لوگ موجود تھے۔برابر والے ریسٹورنٹ کے لان میں ایک گلوکار مہمانوں کی فرمائش پر گانے اور غزلیں لائیو پیش کر رہا تھا لیکن دو تین فرمائشوں کے بعد میں نے دیکھا کہ وہ فارغ ہو کر طبلے اور ہارمونیم پر سنگت کرنے والوں کے ساتھ گپ شپ میں مصروف ہو گیا تھا۔ مہمان نہیں تھے، اس لے کوئی فرمائش بھی نہیں تھی ۔گمان یہ ہے کہ شاید ایسا جلسے کی وجہ سے تھا ورنہ ویک اینڈ پر میں نے اس فوڈ اسٹریٹ میں اس قدر کم حاضری نہیں دیکھی ۔
جلسے میں سب سے اہم عمران خان کی تقریر تھی سب کو اسی کا انتظار تھا ، خاص طور پر ان کے 11 نکات سننے کے لیے لوگ متجسس تھے۔مطالعہ پاکستان نامی درسی کتاب میں درج قائداعظم کے چودہ نکات تو پوری قوم نے رَٹ رکھے ہیں ۔ عمران خان نے ’’احتراماً ‘‘چار نکات کم رکھے ہیں ورنہ وہ تو پچاس نکات بھی رکھ سکتے تھے۔
عمران خان نے کیا کہا؟
عمران خان نے پاکستان کی ابتدائی تاریخ سے شروعات کی ، پاکستانی صدر ایوب خان کی امریکا میں عزت افزائی اور ریڈ کارپیٹڈ استقبال کی ویڈیو بھی دکھائی ، اس کے بعد موازنے کے طور پر نواز شریف کی صدر اوباما کے ساتھ ملاقات میں بوکھلاہٹ اور موجودہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباس کی کچھ عرصہ قبل امریکی ہوائی اڈے پر ’’جامع تلاشی‘‘ کی ویڈیو بھی دکھائی اور اس سے ثابت کیا کہ پاکستان کی اب دنیا میں عزت نہیں ہے ۔ انہوں نے اقبال پارک اورسن 1940کا حوالہ دے کر اس قرارداد کی جو تشریح کی اس سے تاریخ جاننے والے اتفاق نہیں کریں گے لیکن مجموعی طور پر انہوں نے اس وقت کی مسلم لیگ کی ترجیحات کا ذکر کیا ۔ ان کی معلومات میں خلا اور گفتگو میں کچھ تضادات بھی نمایاں تھے ۔
کہانی جو انسانی کمزوری ہے
عمران خان نے تقریر میں اپنے سیاست میں آنے کی کہانی سنائی ۔ اس وقت وہ ایک مشاق موٹیویشنل اسپیکر کی طرح محسوس ہوئے ۔وہ بار بار کہہ رہے تھے کہ ’’یہ بات غور سے سنو‘‘ ۔ میں نے دیکھا کہ ان کی کہانی سنتے ہوئے جلسے میں شریک بہت سی خواتین کی آنکھوں میں چمک اور رشک کے جذبات تھے۔دوسرے یہ کہ عمران خان کا کہانی بیان کرنے کا انداز بھی دلچسپ تھا ، عمران خان نے غم ، درد ، مجبوری ، لاچاری ، کوشش ، ہمت جیسے احساسات کو اپنے لہجے میں اتارنے کی اچھی کوشش کی اور کہانی کا کلائیمیکس بھی عام آدمی کے لیے کافی اپیلنگ تھا ۔
گیارہ نکات جن کا انتظار تھا
اپنے گیارہ نکات سے قبل عمران خان نے ملی جلی باتیں کیں ، جن میں سماجی عدم مساوات کو ’’دو پاکستان ، غریب کا اور امیر کا ‘‘ سے واضح کرنے کی کوشش کی ۔ اپنے دو پرانے تحریکی ساتھیوں کو ، جو اب اس دنیا میں نہیں رہے اچھے لفظوں میں یاد کیا ۔ اپنے سیاسی دوست شیخ رشید پر ایک جملہ اچھالا کہ وہ کہتے تھے کہ تمہاری پارٹی تو تانگہ پارٹی ہے۔ شیخ رشید وہیں اسٹیج پر موجود تھے ۔ عمران خان نے ڈی چوک کے مشہور دھرنے کو اپنی بڑی کامیابی قرار دیا۔
اپنے گیارہ نکات میں صحت اور تعلیم کے شعبوں میں بڑی اصلاحات کا دعویٰ کرتے ہوئے حکومت پنجاب اور شہباز شریف پر سخت تنقید کی ۔ تیسرا نکتہ ملک کے قرضوں تلے دبنے کا تھا ، انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان کے اندر سے ہی پیشہ اکٹھا کریں گے ، منی لانڈرنگ روکیں گے اور لوگوں کا اعتماد جیتیں گے ۔ اس دوران انہوں نے ایک دو ویڈیوز بھی دکھائی جن میں شوکت خانم ہسپتال کے لیے کی گئی چندہ مہم کے مناظر تھے۔ اپنی 1996کی ایک تقریر کا ایک جملہ بھی سنایا جب وہ اپنے ہسپتال کے اسٹاف کو نصحیت کر رہے تھے کہ ’’آپ نے غریب امیر کا فرق کیے بغیر سب کو انسان سمجھتے ہوئے ان کا یکساں علاج کرنا ہے‘‘ ۔ چوتھا نکتہ کرپشن کے خاتمے سے متعلق تھا۔ عدالتوں ، ایف بی آر اور نیب کو مضبوط کرنے کے عزم کا اظہار کیا ۔اس کے بعد سرمایہ کاروں کو رعایتیں دے کر مقامی انڈسٹری کو فروغ دینے کی بات کی، اور سیز پاکستانیوں کو ملک میں سرمایہ کاری کے لیے تیار کرنے کا عزم بھی کیا ۔ روزگار کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ابتدائی طور پرکم قیمت والے50 لاکھ گھر بنائیں گے ۔ ان کے بقول اس سارے عمل میں بے شمار لوگوں کو روزگار ملے گا ۔ نوجوانوں کی تکنیکی و فنی تعلیم فراہم کرنے کی بات بھی انہوں نے کی ۔
ساتواں نکتہ پاکستان میں سیاحت کے فروغ سے متعلق تھا ۔ انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان میں ہر سال سیاحت کے لیے 4 نئی جگہوں کو کھولیں گے اور اس سے آمدن ہو گی ۔یہ اہم نکتہ تھا ۔ انہوں نے کسانوں کی مشکلات حل کرنے اور زرعی ایمرجنسی لگانے کی بات کی اورشوگر ملز مافیا سے نمٹنے کا عزم کیا۔ یہ بات سنتے ہوئے مجھے ان کی پارٹی کے ایک سر برآوردہ لیڈر جہانگیر خان ترین کا خیال آیا، جو کئی شوگر ملوں کے مالک ہیں۔ نواں نکتہ یہ تھا کہ ’’ہم فیڈریشن کو مضبوط کریں گے ، صوبوں کو ان کا حق دیں گے‘‘۔انہوں نے انتظامی بنیادوں پر جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے ، فاٹا اور قبائلی علاقوں کو پختون خوا میں ضم کرنے کے عزم کا اظہار بھی کیا ۔ اسی دوران انہوں نے دہشت گردی کے خلاف مشرف کی شروع کی گئی جنگ کو ’’امریکا کی جنگ‘‘ قرار دیا اور کہا کہ قبائلی علاقوں کے لوگوں نے امریکا کی اس جنگ میں جو ظلم برداشت کیے کوئی قوم ایسا ظلم برداشت نہیں کرسکتی ۔ انہوں بلدیاتی نظام کی بہتری اور شہروں کے براہ راست انتخاب کے ذریعے میئر لانے کا اعلان بھی کیا ۔
انہوں نے ماحولیات کے حوالے سے موجودہ خطرات کی نشاندہی کرکے ملک میں شجر کاری اور صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کا دعویٰ بھی کیا ۔ میری نظر میں یہ اہم ترین نکتہ ہے جس کا تعلق براہ راست ہر انسان سے ہے ۔ عدالتی نظام اور پولیس میں اصلاحات کے ذکر کے دوران پختون خوا کی مثالیں دیں ۔آخری نکتے میں انہوں نے خواتین کی بہبود اور ترقی کی بات کی اور ان کے لیے ترجیحی بنیادوں پر تعلیمی ادارے کھولنے کے عزم کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ خواتین کو جائیداد میں ان کا شرعی حصہ دلانے کے لیے قانونی اصلاحات کریں گے ۔
ان 11نکات پر عمل درآمد کی امید صرف اس صورت میں باندھی جا سکتی ہے کہ عمران خان کو آمدہ انتخابات میں اکثریت ملے اور وہ اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائیں۔
’’ایک کمی تھی وہ بھی پوری ہو گئی‘‘
آخر میں انہوں نے پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ’’نوجوانو! بڑ ا خواب دیکھو‘‘ ، انہوں نے الیکٹیبلز پر بھی ایک جملہ کسا ، اور یہ بھی کہا کہ مجھے خدا نے سب کچھ دیا ہے ، میں تو پاکستان کی خاطر جد و جہد کر رہا ہوں ، ہنستے ہوئے یہ بھی کہا کہ ’’ایک کمی تھی وہ بھی پوری ہو گئی ‘‘ مجھے لگا کہ اُن کا اشارہ اپنی تیسری شادی کی طرف ہے ۔
اور اب کچھ اہم مشاہدات
* عمران خان کی تقریر میں صیغہ واحد متکلم (مَیں ) ہمیشہ کی طرح کثرت سے سنا گیا ، وہ بار بار ’’میں نے ‘‘ ، ’’مجھے‘‘ ، ’’میرا‘‘ کے الفاظ استعمال کر رہے تھے ، ’’ہم‘‘ ان کی زبان سے کم سنا گیا ۔ ممکن ہے ان کے مداحوں کو اس پر کوئی اعتراض نہ ہو ، کیونکہ ’’ہیرو‘‘ کے لیے کافی گنجائش ہوتی ہے۔
*عمران خان کی تقریر میں شروع سے آخر تک مذہبی حوالے تھے ۔ انہوں نے مقدس شخصیات کے اقوال بار بار بیان کیے اور نماز میں پڑھی جانی والی آیات کی تشریح بھے کرتے رہے۔عین ممکن ہے کہ عام لوگ اسے بھی پسند کریں۔
* عمران خان جلسوں میں میوزک تڑکا لگانے والے اوّلین سیاست کار ہیں ، یہ بھی نیا ٹرینڈ ہے کہ جلسے میں اپنی بات کو مدلّل کرنے کے لیے پرانی ویڈیوز کے ٹوٹے بھی چلائے جائیں ۔اس بات یہ حربہ برتا گیا۔
*اب کی بار ان کی تقریر طویل تھی لیکن نعرے اور موسیقی کا تناسب کم رہا ۔
* عمران خان کی تقریر میں کشمیر کے بارے میں کوئی ایک لفظ بھی نہیں تھا ۔وہ اگر پاکستان کے قومی لیڈر ہیں تو انہیں یہ پہلو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے تھا ، اسی طرح انہوں نے خارجہ پالیسی کے بارے میں الگ سے کوئی بات نہیں کی ۔
* تحریک انصاف میں شامل ہونے والے معروف ٹی وی اینکر اور مشرف دور میں وزارت کے عہدے پر متمکن رہنے والے ڈاکٹر عامر لیاقت اسٹیج پر نیچے بیٹھے گُم سُم کھوئے کھوئے دکھائی دیے . سوشل میڈیا پر اب اس تصویر کے بارے میں طنزیہ تبصروں کا سلسلہ جاری ہے.
مجموعی تاثر:
عمران خان نے یقیناً لوگوں کی بڑی تعداد مینار پاکستان میں جمع کی ۔ میڈیا نے بھرپور کوریج کی ۔ جیو نیوز (جس سے عمران خان کی چند دن قبل تازہ تازہ صلح ہوئی ہے) نے پوری تقریر تسلسل کے ساتھ دکھائی ۔اس جلسے کی گونج آنے والے چند دنوں تک ٹی وی مباحثوں اور اخباری کالموں میں سنائی دے گی لیکن اس بڑے جلسے کو انتخابات میں ووٹ میں تبدیل کرنا عمران خان کے لیے ایک چیلنج ہو گا ۔ پاکستان کی انتخابی سیاست میں صرف جلسے اہم نہیں ہوتے بلکہ الیکٹیبلز ، تھانہ اور پٹواری بھی اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔اب عمران خان کی پارٹی میں الیکٹیبلز کی دھڑا دھڑ شمولیت سے لگتا ہے کہ وہ بہت حد تک اس بات کے قائل ہو چکے ہیں کہ پارلیمان میں مضبوط پوزیشن روایتی انتخابی چالوں کے ساتھ ہی ممکن ہو سکتی ہے۔برابر یہ تاثر بھی قائم ہے کہ عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کی مدد حاصل ہے لیکن اسی غیر جمہوری کُمک پر کُلی انحصار انہیں زیادہ مضبوط بنانے میں معاون نہیں ہو سکتا ۔انہیں انتخابات تک خود گراؤنڈ پر کام کرنا ہوگا۔کیا یہ جلسہ مسلم لیگ نواز کے لیے خطرے کی علامت ہے؟ لاہور کے بارے میں فی الحال میرا یہ خیال نہیں۔