چلاؤ!اےعرب دنیا چلاؤ۔

خالد المعینا عرب

خالد المعینا

ایڈیٹر ایٹ لارج

 سعودی گزٹ

—————————————————

یورپ اور امریکا کے بیشتر اخبارات میں یورپ کے ساحل سمندر میں ڈوب مرنے والوں کی تصاویر شائع ہوئی ہیں۔یہ یاسیت کا شکار عرب تھے اوران میں زیادہ تر شامی تھے جو اپنے ملک میں جاری جنگ کے بعد جانیں بچا کر گئے تھے۔یہ ایک المیہ ہے اور یورپ کے دروازے پر ایک بحران دستک دے رہا ہے لیکن حقیقی المیہ تو عرب دنیا میں برپا ہے۔

ان میں سب سے زیادہ دل دہلا دینے والی تصویر ایک شامی بچے کی تھی۔وہ اپنے خاندان کے ساتھ یونان کی جانب جانے کے لیے ترکی سے کشتی پر سوار ہواتھا۔کشتی بیچ سمندر الٹ گئی اور اس بچے کی تیرتی ہوئی لاش ترکی کے ساحل پر آلگی۔وہ اوندھے مُنھ پڑا تھا۔اس کی یہ تصویر شام ،عراق اور عرب دنیا کے دوسرے حصوں میں جاری پاگل پن کی حد تک سفاکیت کی بھی مظہر ہے۔

یہ ایک ایسی تصویر ہے جس سے عرب دنیا کو ہل کر رہ جانا چاہیے۔خاص طور پر شامی رجیم کو،جس کے بے رحم حملوں کے نتیجے میں یہ انسانی تباہی رو نما ہوئی ہے۔قاتل تکفیری اور جہادی بھی اس تباہی کا موجب ہیں۔انھوں نے عرب دنیا کو مضمحل کررکھا ہے اور اس کو اس کے امن اور سلامتی سے محروم کردیا ہے۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ڈھائی ہزار افراد یورپ جانے کی کوشش کے دوران سمندر میں ڈوب کر مارے جاچکے ہیں۔زمینی راستہ اس سے بھی زیادہ پُرخطر اور دشوار گذار ہے۔خطرناک صحراؤں سے گذرنے والوں کو بے رحم ڈاکوؤں کے حملوں کا ہردم خطرہ لگا رہتا ہے۔اس لیے یہ لوگ یورپ پہنچنے کے لیے اپنی سب سے قیمتی متاع جان ہی کو داؤ پر لگا دیتے ہیں۔

جو لوگ یورپ کی سرزمین پر قدم رکھنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں،ان کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ہنگری نے جرمنی جانے کے خواہاں ہزاروں لوگوں کو روک رکھا ہے لیکن سب سے زیادہ مجرمانہ اقدام تو جمہوریہ چیک میں کیا گیا تھا جہاں حکام نے ٹرینوں سے اتارے گئے مہاجروں کی جلدوں پر نہ مٹنے والی سیاہی سے اعداد لکھ دیے تھے۔جمہوریہ چیک فلسطینی عوام کے خلاف معاندانہ رائے رکھنے والے ملک کے طور پر مشہور ہے اور وہ ان نو ممالک میں سے ایک تھا جنھوں نے اقوام متحدہ میں فلسطین کے خلاف ووٹ دیا تھا۔اس نے اپنی یہ پالیسی جاری رکھی ہوئی ہے اوراس ملک کے دائیں بازو کے عناصر کوئی رحم دکھانے کو تیار نہیں ہیں۔

تاہم جرمنی اور سویڈن یورپ کے دو ایسے ممالک ہیں جو تارکین وطن کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔برلن حکومت اس سال پناہ کے خواہاں قریباً آٹھ لاکھ تارکین وطن کی درخواستوں پر غور کرے گی۔سویڈن کی آبادی یورپی یونین کے تمام رکن ممالک کی کل آبادی کا صرف دو فی صد ہے لیکن اس نے گذشتہ سال پناہ کے لیے درخواست دینے والے تمام درخواست گزاروں میں سے تیرہ فی صد کی منظوری دی تھی جبکہ کل اٹھارہ فی صد کی منظوری دی گئی تھی۔

یورپی ریاستوں کے ارباب اقتدار وحکام اعلیٰ سطح کے اجلاس منعقد کررہے ہیں۔وہ مہاجروں کے جتھوں کی کثیر تعداد میں آمد اور پناہ کے خواہاں افراد کی غیر محدود تعداد کے مسئلے پر غور کے لیے سروں کو جوڑے ہوئے ہیں۔بی بی سی کے ایک نمائندے نے مجھ سے سوال کیا ہے کہ عرب اور خلیجی ریاستیں ان مہاجرین کو کیوں پناہ نہیں دے رہی ہیں؟میں نے اس کے جواب میں کہا کہ اردن اور لبنان میں تو پہلے ہی قریباً چالیس لاکھ مہاجرین رہ رہے ہیں۔ ترکی میں ہزاروں ،لاکھوں مقیم ہیں(ترکی میں قریباً بیس لاکھ شامی مہاجرین خیمہ بستیوں یا شہروں میں رہ رہے ہیں) جہاں تک خلیج کا تعلق ہے تو ان کے لیے جغرافیائی طور پر اتنی زیادہ تعداد میں زمینی راستہ عبور کرکے پہنچنا مشکل ہے۔

تاہم اس جواز کے باوجود عرب اس المیے سے خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔آمریت اور جبرواستبداد پر مبنی پالیسیوں کے نتیجے میں یہ الم ناک صورت حال پیدا ہوئی ہے۔ہم اس المیے کو روزانہ اپنی آنکھوں کے سامنے رونما ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ہم یورپی اقوام کو سرحدوں پر سختی کرنے پر تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ہم انھیں ہمارے اپنے اعمال کے نتیجے میں پیدا ہونے والے انسانی المیے یا بحران کو حل نہ کرنے پر مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں مگر سچ تو یہ ہے کہ عرب دنیا کے فیصلہ ساز ناکام ہوچکے ہیں۔وہ اپنے عوام کو درپیش مسائل کے حل میں ناکام رہے ہیں۔انھوں نے اپنے مسائل کا کوئی مناسب حل تلاش نہ کرکے اپنی نااہلیت اورعدم صلاحیت پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔وہ عقل ودانش سے عاری ہیں اور صرف اقتدار کے پجاری ہیں۔وہ کسی نہ کسی طرح اپنا کنٹرول چاہتے ہیں۔

عرب دنیا اور کتنا عرصہ یہ مصیبتیں جھیلتی رہے گی اور کب متحارب جنگجو دھڑے لڑائی ختم کرنے کا فیصلہ کریں گے؟اور بحران کے حل کے لیے کتنے بچوں کی لاشیں سمندر میں تیرتی ہوئی درکار ہوں گی؟اور کتنی جانوں کا ضیاع ہوگا اور دنیا مہاجرین کے لیے اور کتنے کیمپ لگائے گی؟برائی کی قوتیں اور کتنا عرصہ بے گناہ عرب خاندانوں کو ڈراتی دھمکاتی رہیں گی؟کیا عرب دنیا میں اربابِ دانش عنقا ہوگئے؟ دانش کی آوازیں کیا ہوئیں؟
چلاؤ!اےعرب دنیا چلاؤ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے