فضل ہادی حسن ، اوسلو ناروے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کافی عرصہ پہلے ایک امریکی یونیورسٹی کی رپورٹ پڑهی تھی جس کا خلاصہ تقریباً کچھ اس طرح تھا:
"پاکستان میں تین بڑی قوتیں ہیں. اول: نیوکلیئر، دوم: فوجی اور تیسری : مذھبی”
رپورٹ کا لب لباب یہ تھا کہ یہ تینوں قوتیں جتنی مضبوط ہوگی پاکستان مضبوط اور عالمی طاقتوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت اور کوشس کریگا.
رپورٹ میں سفارشات یا تجاویز میں پاکستان کا نقشہ بہت خطرناک کھینچا گیا تھاکہ "ان تینوں قوتوں کو دنیا کی نظروں میں بدنام کیا جائے اور اتنی غلط فہمیاں پیدا کر دی جائے کہ اس سے نکلنا آسان نہ ہو. اس لیے انہوں نے جو نقشہ کھینچا تھا کچھ یوں تھا
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو بدنام کیا جائے کہ پوری دنیا اس پر انگلیاں اٹھا کر عالمی امن کے لئے خطرہ قرار دے. اورجنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں پاکستان کا ایٹمی پروگرام اور ڈاکٹر قدیر خان کی شخصیت کے ذریعے سے بدنامی کی کوشش کی گئی ۔وہ دن ہے اور آج کا دن وقتاً فوقتاً عالمی ادارے اور طاقتیں پاکستاپاکستانی پروگرام پر سیکیورٹی کے خدشات سمیت دیگر ایشوز کو اٹھاتے رہتے ہیں۔
رپورٹ کا دوسرا اور تیسرا حصہ پاک فوج اور مذهبی قوتوں کے حوالے سے تھا۔سفارش تھی کہ : فوج اور مذهبی طبقے کو آپس میں لڑایا جائے اور ان کے درمیاں اتنی غلط فہمیاں پیدا کردی جائے کہ وہ ایک دوسرے سے دور اور شک کی نظروں سے دیکھتےہوئے بد اعتمادی کی فضا میں رہے۔ ہر خاکی والا داڑھی والے کو شک کی نگاہ سے دیکھے اور داڑھی والے خاکی وردی کے سامنے سے گزرتے ہوئے خوف محسوس کریں۔
رپورٹ کے خلاصے کے بعد اگر حالات کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت مملکت پاکستان ایک طرف کچھ غلط پالیسیوں کی وجہ سے اور دوسری طرف معصوموں کو مارنے ، پبلک مقامات سے لیکر سرکاری ادارو ں اور مقامت پرتشدد کاروائیوں نے پاک آرمی اور پاکستان کے مذھبی طبقے (چاہے وہ سیاسی مذھبی ہے یاغیر سیاسی) کے درمیان ایک خلیج پیدا کردی یہاں تک کہ پاکستان آرمی میں ائمہ کرام کی پوسٹ (خطیب اعلیٰ، خطیب اور نائب خطیب) پر مشرف کے دور میں پابندی لگادی گئ تھی، اسلامک اسٹڈیز میں لیکچرارپوسٹ پر دینی مدارس کی اسناد رکھنے والوں کی درخواستوں کو مسترد کیا جانے لگا اور دینی مدارس کے طلباء سمیت دیگر مذھبی طبقہ ایک غیر یقینی کیفیت سے دوچار ہوگئی۔ مجھے یاد ہے کہ جنرل حمید گلؒ نے ایک ملاقات میں کہا تھا (جب وہ نئے نئے ریٹاٹرڈ آرمی کی تنظیم ایکس سروس مین سوسائٹی کے صدر منتخب ہوئے تھے) کہ میرے پاس پاک نیوی کا ایک سابق سربراہ آئے تھے فرما رہے تھے کہ جنرل صاحب! آپ کیوں مذھبی طبقے کو ساتھ ملانے اور انہیں ایک مقام دینے پر تلے ہوئے ہیں ؟ جنرل صاحب کا جواب تھا کہ اس وقت پاکستان کی نظریاتی سرحدیں ہو یا پاک آرمی کی حمایت اگر یہی مذھبی طبقہ حمایت سے بیٹھ گیا تو کون کون ہیں جو کھڑا ہوگا؟؟ (جنرل صاحب مرحوم کی رائے اسے اتفاق یا اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن فریقین کے درمیان دوری کا اندازہ ہوسکتا ہے)
اب آتے ہیں اہل مدارس کی طرف
دینی مدارس کی ملک گیر تنظیم اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ پاکستان کے کنوینئر اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ قاری حنیف جالندھری سے عید کے فورا بعد یہاں اوسلو میں ملاقات ہوئی ۔ مدارس رجسٹریشن سمیت مدارس کے بنک اکاونٹس کھولنے پر بات ہوئی تو قاری صاحب نے کہا کہ بہت عجیب صورتحال ہے کہ ہمارے ہاں تقریبا سارے مدارس حکومت سے رجسٹرڈ ہیں لیکن کچھ نئے مدارس کی رجسٹریشن ہم کرانا چاہتے ہیں لیکن حکومت سنجیدہ نہیں ہے ، ہم خود رجسٹریشن کی بات کرتے ہیں اور کئی دفعہ سابق اور موجودہ وزیر داخلہ رحمان اور چوہدری نثار سے ملاقاتیں ہوئی ہیں لیکن وہ وعدہ کرکے بعد میں خاموشی اخیتار کرتے ہیں۔
قاری صاحب کہہ رہے تھے کہ بنک اکانٹس سے یقینا مدارس کی فنڈنگ بہترین طریقے آڈٹ ہوسکے گی، حکومت آسانی سے مانیٹر کرسکے گی لیکن وزارت داخلہ کے کہنے کے باوجود اسٹیٹ بنک آف پاکستان رکاوٹ بن گیا ہے اور انہوں نے کئی عرصہ سے بنکوں کو منع رکھا ہواہے۔۔ کئی بار وزارت داخلہ اور وزیر داخلہ کے کہنے کے باوجود ہمیں اس میں مشکلات کا سامنا ہے۔ تقریبا اسی طرح کا اظہار خیال دینی مدارس کے ایک اور بورڈ رابطۃ المدراس الاسلامیہ پاکستان کے ناظم اعلی مولانا ڈاکٹر عطاالرحمن نے بھی کیا تھا۔
یہ تو بس دو مثالیں تھیں، اس کے علاوہ بہت ساری مثالیں اور معاملات ہیں جہاں جانبین کے درمیان عدم اعتماد اور خوف کی فضاء ہے جہاں رقابتوں سے زیادہ دوریاں اور کدورتیں ہیں، پاکستان میں مختلف پوزیشنوں اور ادروں میں کام کا موقع ملنے کیوجہ سے مذھبی قیادت اور ریٹائرڈ عسکری قیادت کے ساتھ ساتھ کچھ حاضر سروس افسران سے گفتگو کا موقع ملنے کے بعد اس نتیجہ پر پینچا ہوں کہ جو کچھ امریکی یونیورسٹی کی رپورٹ میں تھا تقریبا وہی منظر نامہ اب میرے سامنے ہیں۔ میرے خیال میں یہ غلط فہمیاں اس وقت تک دور نہیں ہوسکتی ہیں جب تک اعتماد سازی کے اقدامات کے طور پر اعلی فوجی قیادت سمیت دینی قیادت اور بالخصوص دینی مدارس کی تنظیمات کے درمیان ملاقاتیں اور نشستیں منعقد نہ ہو۔
اس حوالے سے گزشتہ روز وزیر اعظم کی زیر صدارت اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کی قیادت سمیت حکومت اور چیف آف آرمی اسٹاف کی موجودگی میں اجلاس کا منعقد ہونا ایک مثبت اشارہ ہے۔
جس سے :
اول:معاملات کو باہم ملکر حل کرنے میں مدد ملی گی ،
دوم: غلط فہمیوں کا ازالہ ممکن ہوسکے گا اور اعتماد کی فضا قائم ہو جائیگی
تین: دھشت گردی اوردھشت گردوں کے خلاف اس طرح متحد ہونا پڑےگا کہ نہ کوئی مذھب کی آڑ میں کسی کا گلہ کاٹے اور نہ حکومت کی رٹ کی بحالی میں مسجد ومدرسہ کی تقدس کی پامالی کیساتھ داڑھی وپگڑی کی تحقیر ہو۔
شنید ہے کہ پاکستانی قیادت بشمول مذھبی وعسکری اس بار اخلاص کے آگے بڑھنے کے متنمی ہیں ۔
اللہ کریں کہ یہ پہلی اور آخری ملاقات نہ ہو بلکہ تبادلہ خیال اور اداروں کے درمیان ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہو ۔ آمین