کیا پاکستانی منشور کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں؟

پاکستان میں عام انتخابات کی مہم زوروں پر ہے ۔ تقریباً تما م بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنااپنا انتخابی منشور پیش کر دیا ہے ۔ اب سیاسی کارکنوں کی پوری توجہ اپنے اپنے حلقوں میں رائے دہندگان کی حمایت حاصل کرنے کی جانب ہے۔زیادہ ترشہری علاقوں میں کارکردگی کی بنیاد پر مہم چلائی جا رہی ہے ۔ کارکردگی سے مراد انفراسٹرکچر یعنی سٹرکیں ، پل اور نالیاں وغیرہ ہیں ۔ کہیں کہیں اسکولوں اور ہسپتالوں کی تعمیر کی بات بھی کی جارہی ہے ۔

دیہی علاقوں کا معاملہ البتہ ذرا الگ ہے ۔ شہری علاقوں کے نواح میں واقع دیہی علاقوں میں شہروں میں جاری انتخابی مہم کارنگ نمایاں ہے لیکن دور دراز کے علاقوں میں ذات برادری ، لسانی دھڑے بندی اور مذہبی عقیدت کے کارڈ استعمال کیے جا رہے ہیں ۔ وہاں نمایاں سیاسی جماعتوں کے رہنما صرف جلسوں کو کافی نہیں سمجھتے بلکہ مقامی بااثرشخصیات کی حمایت حاصل کرنا ان کی اولین کوشش ہوتی ہے ۔ اس کے بعد ہی ان علاقوں میں کامیاب جلسوں کی ضمانت ملتی ہے ۔پاکستان کی کوئی بھی سیاسی جماعت اس پہلو کو نظراندازنہیں کر سکتی ۔

یہ سب تو روایتی انتخابی حربے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جمہوریت کی علم بردار ان جماعتوں میں منشور کی اہمیت کس قدر ہے؟ اس سوال کا مشاہدے کی بنیاد پر سامنے آنے والا جواب مایوس کن ہے۔ اس وقت ہر طرف پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت اور بڑے بڑے جلسوں کا دور چل رہا ہے۔

تحریک انصاف نے اپنا 61صفحات پر مشتمل پرکشش قسم کا منشور جاری کیا ہے جس کے سات ابواب ہیں جن میں بہتر انداز حکومت ، وفاق کی مضبوطی ،معاشی استحکام،رزعی و آبی ترقی، سوشل سروسزکی فراہمی اور پاکستان کی قومی سلامتی سے متعلق بلند وبانگ وعدے کیے گئے ہیں ۔تحریک انصاف کے منشور میں کہیں کہیں ان کی 2013میں قائم ہونے والی صوبہ خیبر پختون خوا کی حکومت کی کارکردگی کے حوالے بھی دیے گئے ہیں۔

مسلم لیگ نوازنے 70صفحات پر مشتمل اپنے منشور میں 2013 سے 2018کے اپنے دور حکومت کی کارکردگی کا خلاصہ پیش کیا ہے اور 2018سے2023کے دورانیے کی لیے نئے وعدے کئے ہیں۔ منشور کی یہ کتاب بھی کافی محنت سے تیار کی گئی ہے۔

تیسری بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ہے ،جس نے 64صفحات پر مشتمل ضخیم منشور جاری کیا ہے۔ اس منشور میں جا بجا اپنی2008ء سے 2013ء تک قائم رہنے والی حکومت کے کارنامے گنوائے گئے ہیں اور ساتھ ساتھ سندھ میں اپنی پارٹی کی گزشتہ 10 بر س سے قائم حکومت کی کارکردگی کے حوالے بھی دیے گئے ہیں ۔پیپلز پارٹی نے اپنی خارجہ پالیسی کے باب میں مستقبل کے عزائم کافی تفصیل سے نقل کیے ہیں اور اپنے بانی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کے اقوال بھی نقل کیے ہیں۔

ایک اور اہم سیاسی اتحاد متحدہ مجلس عمل یعنی ایم ایم اے ہے۔ اس اتحاد میں جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمان کی جمعیت علمائے اسلام سمیت کئی مذہبی جماعتیں شامل ہیں۔ ایم ایم اے نے جون کے پہلے ہفتے میں ہی اپنا انتخابی منشور پیش کر دیا تھا جس میں اسلامی شرعی نظام کے نفاذ اور اسی کے مطابق قانون سازی ، طاقت کی زیریں سطحوں تک منتقلی اور تقسیم ، دیگر ملکوں کے ساتھ برابری کی سطح کے تعلقات اور آزادانہ خارجہ پالیسی کی تشکیل ، پانی اور بجلی کے بحران کے حل ، سی پیک میں مقامی لوگوں کو نوکریوں کی فراہمی ، یکساں نظام تعلیم کا نفاذ اور خواتین کی بہبود جیسے مستقل امور سے متعلق وعدے کیے گئے ہیں۔

جہاں تک رائے دہندگان کا تعلق ہے تو کڑوا سہی مگر سچ یہی ہے کہ پاکستان میں اکثر لوگ منشورکی کتاب پڑھنے کو لازم نہیں سمجھتے اورنہ اس کی بنیاد پر ووٹ دالنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی میڈیا میں سیاسی پارٹیوں کے انتخابی منشور وں کے تقابلی جائزے پر مبنی پروگرام کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ہاں بعض انگریزی اخبارات کے لکھاری اور دانشوروں کے حلقوں میں کہیں کہیں منشور کے بارے میں بات چیت سننے کو ملتی ہے۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہر الیکشن میں سیاسی جماعتوں کے پانچ سال قبل پیش کیے گئے منشور کو سامنے رکھ کر سوالات اٹھائے جانے چاہئیں تاکہ اندازہ ہو سکے کہ کس سیاسی جماعت نے اپنے وعدے ایفا کیے ہیں ۔

اس وقت سبھی سیاسی جماعتوں کی توجہ میڈیا میں اپنی تشہیر کی جانب ہے۔ ٹی وی چینلز پر تین بڑی پارٹیوں مسلم لیگ نواز ، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے مختلف تھیمز پرمبنی طویل اشتہارات جلائے جارہے ہیں ۔ مسلم لیگ نواز کے اشتہارات میں ’’ووٹ کو عزت دو، خدمت کو ووٹ دو‘‘ کی لائن دہرائی جا رہی ہے جبکہ تحریک انصاف کے لیے ’’اب صرف عمران خان ، بلے کا نشان‘‘ کی ٹیگ لائن چل رہی ہے۔ پیپلز پارٹی ’’بی بی کا وعدہ نبھانا ہے ، پاکستان بچانا ہے‘‘ کی ٹیگ لائن کے ساتھ تشہیر کر رہی ہے ۔ایم ایم اے ’’اب کی بار ، دیانت دار‘‘ کا راگ الاپ رہی ہے۔

منشور کی خبریں تو سبھی پارٹیوں کے حوالے سے چلیں مگر کسی بھی سیاسی جماعت کی جانب سے ایسا تفصیلی اشتہار دیکھنے کو نہیں ملا جس میں اپنے منشور کی وضاحت کی گئی ہو۔پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا ایک طویل اشتہار البتہ نگاہ سے گزرا ہے۔

تنازع کشمیر پاکستانی سیاست میں ماضی میں ہمیشہ نمایاں رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی منشور میں ہمیشہ کشمیر کے بارے میں اپنے موقف یا عزائم کا اظہار کرتی آئی ہیں لیکن نائن الیون کے بعد جہاں پوری دنیا میں دہشت گردی سے متعلق بیانیے میں واضح شفٹ آیا ہے، وہیں پاکستان بھی کشمیر کے مسئلے پر محتاط رائے کا اظہار کرنے لگا ہے۔

ایم ایم اے نے 2002ء کے انتخابات میں کافی زیادہ نشستیں حاصل کی تھیں۔ اس کامیابی کے پیچھے عوام کے امریکا مخالف جذبات تھے جنہیں مذہبی جماعتوں کے اتحاد نے خوب کیش کروایا تھا۔ اب حالات اس قدر بدل چکے ہیں کہ وہی ایم ایم اے بے دست وپا دکھائی دے رہی ہے اور الیکشن میں جانے کے لیے اس کے پاس کوئی واضح متفقہ نعرہ نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کسی نہ کسی حیثیت میں کشمیری مزاحمتی تحریک کی حامی ہے لیکن مولانا فضل الرحمان کی رائے البتہ دوسری ہے ، وہ غیر ریاستی مسلح مداخلت کی حمایت نہیں کرتے۔اس پس منظر کے بعدیہ سمجھنا مشکل نہیں کہ ایم ایم اے نے اپنے تازہ انتخابی منشور میں ’’آزادخارجہ پالیسی‘‘ کے قیام کا مبہم سا وعدہ کیا ہے اور تنازع کشمیر سے متعلق الگ سے کوئی نئی بات نہیں کی۔

مسلم لیگ نواز اس وقت آزمائش کا شکار ہے۔ اس جماعت کے قائد نواز شریف کے خلاف چلائی گئی مہم کے دوران انہیں ’’مودی کا یار‘‘ بھی کہا گیا۔ مسلم لیگ نواز نے اپنے انتخابی منشور میں کشمیر کے لیے شامل تین سطور میں لکھا ہے کہ ’’وہ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے باشندوں کی اخلاقی، سفارتی اور سیاسی مدد پر مبنی پاکستان کی اصولی پالیسی کوجاری رکھیں گے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت کریں گے‘‘۔

پاکستانی پیپلز پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں تنازع کشمیر سے متعلق لکھا ہے کہ ’’ان کی جماعت کشمیر کے مسئلے کاکوئی بھی فوجی حل نہیں سمجھتی۔ پیپلز پارٹی اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت کی جائے اور اس سلسلے میں بھارت سے تعمیری نوعیت کے مذاکرات کیے جائیں‘‘ پیپلز پارٹی کے منشور میں گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیرانتظام کشمیر(آزادکشمیر) کے لوگوں کو معاشی اور سیاسی طور پر مضبوط کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر2018 میں پیپلزپارٹی کی حکومت میں آئی تو ایسا نظام بنائے گی جس کے تحت پاکستان میں اور کشمیر کی ان دونوں اکائیوں (گلگت بلتستان اور آزادکشمیر)میں عام انتخابات ایک ہی وقت میں ہوں اور دونوں خطوں کے لیے وفاق میں مختص بجٹ میں اضافے کی بات بھی کی گئی ہے۔

تحریک انصاف جو اس وقت پاکستانی سیاسی اُفق پر کافی نمایاں ہے، نے اپنے منشور میں اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ’’وہ اقتدار میں آنے کے بعد اقوام متحدہ کے متعین کردہ دائرہ عمل کی پاسداری کرتے ہوئے تنازع کشمیر کے حل کی کوشش کریں گے۔ تحریک انصاف نے اپنے منشور میں اس خطے کے ممالک خاص طور پر بھارت کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو امن کے لیے لازم قرار دیا ہے ۔

ایک لحاظ سے یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں تنازع کشمیر کو مقامی سیاسی مفادات کے حصول کے لیے استعمال نہیں کر رہیں جبکہ بھارت کے عام انتخابات میں مخصوص سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لیے کشمیر کو دہکائے جانے کے واقعات تسلسل کے ساتھ پیش آتے رہے ہیں،وہاں ایسے موقع پر پہلے تشدد کی لہر ظاہر ہوتی ہے اور پھر خوف کی فضا قائم کر کے بی جے پی جیسی انتہا پسند رجحانات کی حامل دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں فوائد حاصل کرتی ہیں۔ اسی طرح بھارت کی مذہبی اعتبار سے حساس ریاستوں میں بھی ہندو مسلم فسادات محض الیکشن کے مقاصد کے تحت کروائے جانے کی خبریں ریکارڈ پر ہیں۔ پاکستان میں ایسا نہیں اور یہ قابل تعریف ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی کی سیاسی جماعتوں سے یہ توقع بھی رکھی جاتی ہے کہ وہ کشمیر کے تنازع پر 70 برس پرانی لکیر پیٹتے رہنے بجائے کسی نئے اورمنفرد راستے کی تلاش بھی کریں۔ ایک ایسا راستہ جو سبھی فریقوں کے مفاد میں ہویعنی کشمیریوں کے بنیادی حق آزادی کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت ایسا لائحہ عمل تشکیل دیں جو خطے کو دہائیوں سے جاری اس جنگ ، خوف اور بے یقینی کی کیفیت سے نکال سکے۔ پاکستانی سیاسی جماعتوں نے اپنے تازہ انتخابی منشور میں کشمیر پالیسی کے حوالے سے کئی نئی تخلیقی اور قابل عمل راہ کی جانب کوئی اشارہ نہیں دیا۔یہ بدقسمتی ہے۔

بشکریہ : نوائے جہلم سری نگر ۔ کشمیر

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے