ہم ڈنڈے کے منتظر ہیں یا جادو کی چھڑی کے؟

نصرت جاوید

فلموں کے چند بہت مشہور ہوئے سدا بہار گانے ہوتے ہیں۔ ان کے لئے لکھی شاعری پر غور کریں تو مضحکہ خیز حد تک سطحی محسوس ہوتی ہے۔ اس سادگی کے بغیر جس پر مرجانے کو جی چاہتا ہے۔

’’اے میرے دل ناداں‘‘ بھی ایسا ہی ایک گیت ہے۔ بچپن میں لاہور کے گوالمنڈی چوک والے شیر پنجاب ہوٹل کے سپیکر کی وجہ سے دن میں کئی بار سننا پڑتا تھا کیونکہ اس ہوٹل کے بالمقابل میرے تایا مرحوم کا گھر تھا جو سکول سے اکثر مجھے اپنے ہاں لے آیا کرتے تھے۔ ان کی محبت کی وجہ سے میں چند ایسی فلمیں بھی دیکھ لیا کرتا جن کا تذکرہ اپنی ماں کے سامنے کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ تایا جی ہی کی وجہ سے مجھے آنہ لائبریری سے لئے ناولوں کو پڑھنے کی لت لگی اور نسیم حجازی کے شہرئہ آفاق ٹھہرائے ناول پڑھنے کے بعد سمجھ آگئی کہ ایسے ’’ادب‘‘ سے پرہیز بہتر ہے۔ ’’طلسم ہوشربا‘‘ پر ہی گزارہ کرو۔ اگرچہ اس میں کئی الفاظ ایسے بھی تھے جن کے معنی گھروں میں رکھی لغات میں نہیں ملاکرتے تھے۔
’’اے میرے دل ناداں‘‘ نے کالج پہنچنے کے بعد بھی پیچھا نہ چھوڑا۔ ریلوے اسٹیشن کو میکلوڈروڈ چوک کی لکشمی بلڈنگ سے ملانے والی سڑک پر اپنے وقت کے مشہور ’’لاہور ہوٹل‘‘ کے بعد آگے بڑھیں تو دو چائے خانے سڑک کے دونوں اطراف ایک دوسرے کے سامنے ہوا کرتے تھے۔ دونوں کے پاس فلمی گیتوں کے تووں یعنی ریکارڈز کا متاثر کن ذخیرہ تھا۔ کائونٹر پر کھڑا شخص DJ کے فرائض بھی سرانجام دیتا تھا۔ اسے چِٹ پر گانے کے بول لکھ کر بھیجو تو انہیں اپنے سامنے رکھی چٹوں کے نیچے رکھ دیتا۔ فرمائش پوری کرنے کو ’’فرسٹ کم-فرسٹ سرو‘‘ والا اصول لاگو تھا۔ اگرچہ چند گاہک ایسے بھی تھے جن کے میز سنبھالنے کے چند ہی لمحوں بعد ان کی پسند کا گانا لگادیا جاتا۔ میں ان دونوں چائے خانوں میں کافی وقت ضائع کیا کرتا تھا۔
ان میں سے ایک چائے خانے کا ایک مستقل گاہک تھا۔ اس کی شکل، صورت اور حلیہ صاف بتادیتا کہ کسی کھاتے پیتے گھرانے کا نوجوان ہے جو فلمی دنیا میں اپنے لئے کوئی چانس ڈھونڈ رہا ہے۔ وہ اپنی میز پر ہمیشہ اکیلے بیٹھتا اور چائے کے ساتھ دو شامی کباب بھی آرڈر کئے بغیر اس کے سامنے رکھ دئیے جاتے۔ کبابوں سے فارغ ہوکر جب وہ سگریٹ سلگاتا اور ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر خلا میں دیکھنا شروع ہو جاتا تو کائونٹر والا خودبخود ’’اے میرے دل ناداں‘‘ لگا دیتا۔ یہ گاناسنتے ہوئے اس نوجوان کے چہرے سے صاف عیاں ہوجاتا کہ شاید یہ گیت اس کی ذاتی کہانی اور ارمان وغیرہ بیان کررہا ہے۔
مجھے مستقل اداس بنے ہیرومارکہ لوگوں سے بہت چڑآتی تھی۔ ایک دن جب وہ نوجوان یہ گانا ختم ہوتے ہی چائے خانے سے باہر نکلا تو میںنے اسے فٹ پاتھ پر جا لیا اور نہایت سنجیدگی اور منافقانہ دردمندی سے اسے بتایا کہ بھائی دُنیا بہت بڑی ہے، اسے کیا پڑی ہے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ’’تیرا افسانہ‘‘ سمجھنے کی کوشش کرے۔ میرے دوستوں نے ان فقروں سے بہت لطف اٹھایا۔ وہ نوجوان چلاگیا مگر اس چائے خانے میں دوبارہ نظر نہ آیا اور کائونٹر والا بھی ’’اے میرے دل ناداں‘‘ کو بھول بھال گیا۔ میں اس گیت کو مگر نہیں بھول پایا ہوں۔ عید کی چھٹیوں میں بھی اکثر مجھے Haunt کرتا رہا۔ بالآخر تنگ آکر میں نے خود کو سمجھانا چاہا کہ ایک تو میرا دل اتنا ناداں نہیں ہے۔ اس کا ’’افسانہ‘‘ بھی کوئی نہیں اور دُنیا کو واقعتاً اسے سمجھنے کی کوئی فرصت نہیں ہے۔ دل ہی دل میں اپنا مذاق اُڑانے کے باوجود میں مطمئن اگرچہ نہیں ہوا۔ میرے دل ودماغ کے کسی کونے میں اداسی یقینا بال کھولے بیٹھ چکی ہے۔
ذرا غور کیا تو دریافت یہ بھی ہوا کہ وجہ اس اداسی کی ذاتی ہرگز نہیں، ڈھیٹ ہڈی ہوں… ہر حال میں مست… پریشان کردیا ہے اخباروں میں لکھے کالموں اور جی دار اینکروں کے بنائے ہوئے ماحول نے۔ سیاستدانوں کی ’’لوٹ مار‘‘ پر سیاپا اب ڈرامے کو اپنے اختتام کی طرف دھکیلتا ہوا نظر آرہا ہے۔
بدعنوانی کے خلاف ’’ڈنڈے‘‘ کا بھرپور استعمال میں نے سکول پہنچتے ہی دیکھ لیا تھا۔ کالج پہنچا تو ’’ڈنڈا‘‘ اتنے زور کا لگاکہ پاکستان ہی دولخت ہو گیا۔ پھر آیا ’’جہاد‘‘ کا زمانہ اور بعدازاں اس جہاد سے تنگ آکر لگا ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ… بدلا مگر کچھ بھی نہیں!
میرے بچپن میں سائیکلوں پر بہت اہتمام سے بتی لگائی جاتی تھی۔ کل رات اسلام آباد کی مارگلہ روڈ پر ایک جیپ دیکھی جس کی صرف بائیں طرف والی ہیڈ لائٹ جل رہی تھی اور اسے نیول کالونی سے ذرا پہلے لگے ناکے پر موجود پولیس والوں نے روکنے کا تردد ہی نہیں کیا۔
گزشتہ کئی برس سے باقاعدگی کے ساتھ اپنے ٹیکس ریٹرن جمع کروا رہا ہوں۔ 30 ستمبر اس دفعہ گوشوارے جمع کروانے کی آخری تاریخ ہے مگر دل ہے کہ مائل ہی نہیں ہو رہا۔ سوچ رہا ہوں کہ تنخواہ میرے بینک اکائونٹ میں ٹیکس کاٹنے کے بعد جمع ہوتی ہے۔ اس کے باوجود جرائم پیشہ افراد کی طرح حساب کیوں دوں۔ ’’قانون کی بالادستی‘‘ معاشرے کے تمام طبقات کے لئے ہونا چاہئے۔ آئین توڑ کر ’’قانون کا نفاذ‘‘ کرنا تو میری سمجھ میں کبھی نہیں آسکا۔ ایک ہوتا ہے ’’ڈنڈا‘‘… انگریزی میں جسے کہتے ہیں Stick اور ایک ہوتی ہے جادو کی چھڑی جسے Magic Wand کہتے ہیں… سمجھ نہیں پارہا کہ ہم ڈنڈے کے منتظر ہیں یا جادو کی چھڑی کے؟ اگرچہ سوال یہ بھی ذہن میں اُمڈ آتا ہے کہ ’’مرکے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے‘‘۔
میری مرحومہ ماں اکثر کہا کرتی تھیں ’’بڑا بول‘‘ آپ کو مشکلوں میں ڈال دیتا ہے۔ چند دنوں سے اپنی اداسی کی وجوہات ڈھونڈتے ہوئے گماں ہو رہا ہے کہ شاید مجھے اس نوجوان کی بددعا لگ گئی ہے جس کا ’’اے میرے دل ناداں‘‘ کی وجہ سے میں نے مذاق اڑایا تھا۔ وہ کبھی مل جائے تو اس سے خلوصِ دل کے ساتھ معافی مانگوں کا اگرچہ اس اصرار کے ساتھ کہ دُنیا بہت بڑی ہے، اسے ’’میرا افسانہ‘‘ سمجھنے کی ہرگز ضرورت اور فرصت نہیں!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے