سانحہ کربلا میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے موقف اور کردار سے متعلق بنیادی طور پر تین نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں۔
[pullquote]پہلا نقطہ نظر[/pullquote]
پہلا نقطہ نظر یہ ہے کہ سیدنا حسین کو دین کی اساسات کے مٹا دیے جانے جیسی صورت حال کا سامنا تھا جو ان سے، ایک دینی فریضے کے طور پر، جہاد کا تقاضا کر رہی تھی۔ انھوں نے، اور صرف انھوں نے، عزیمت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اس دینی تقاضے پر لبیک کہا اور اپنی اور اپنے خانوادے کی قربانی پیش کر دی۔ باقی تمام امت، بشمول اکابر صحابہ، پست ہمتی، رخصت اور مصلحت وغیرہ کے تحت ان کا ساتھ نہ دے سکی اور ایک عظیم کوتاہی کے مرتکب ہوئی۔
یہ اصلا اہل تشیع کا موقف ہے اور تعبیرات والفاظ کی کسی قدر احتیاط کے ساتھ ہمارے ہاں مولانا مودودی وغیرہ نے اسی کی ترجمانی کی ہے۔ چنانچہ مولانا سے منسوب ایک روایت کے مطابق ان سے پوچھا گیا کہ جب جمہور صحابہ نے خروج نہیں کیا تو سیدنا حسین نے کیوں کیا؟ مولانا نے فرمایا کہ یہ غلط سوال ہے۔ درست سوال یہ ہے کہ جب سیدنا حسین نے خروج کیا تو باقی صحابہ نے کیوں ان کا ساتھ نہیں دیا؟
ہمارے نزدیک یہ موقف واقعاتی اعتبار سے بھی غلط ہے اور اس میں جمہور صحابہ کے نقطہ نظر کی بھی بالکل غلط توجیہ کی گئی ہے، بلکہ سرے سے اس کو سمجھنے ہی کی کوشش نہیں کی گئی۔ یہ اہل تشیع کے تاریخی بیانیے میں تو بالکل فٹ بیٹھتا ہے، لیکن اہل سنت کے مجموعی موقف اور مزاج سے ہرگز مناسبت نہیں رکھتا۔
[pullquote]دوسرا نقطہ نظر[/pullquote]
دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ سیدنا حسین نے خروج کا راستہ اختیار کر کے ایک غلط اقدام کیا جو دین وشریعت کی ہدایات کے برعکس تھا اور نتیجے کے اعتبار سے امت میں خوں ریزی، فساد اور تفرقے کو بڑھانے کا موجب بنا۔ اسی وجہ سے جمہور صحابہ نے ان کا ساتھ نہیں دیا، بلکہ انھیں روکنے کی کوشش کی۔
اس موقف کے بعض versions میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے فیصلے کو اصولا ان شرعی وعیدات کا محل قرار دیا جاتا ہے جو احادیث میں بیان ہوئی ہیں اور صرف ان کی شخصیت اور نسبت کا لحاظ رکھتے ہوئے ایک ’’اجتہادی’’ گنجائش تسلیم کی جاتی ہے، جبکہ بعض دوسرے versions میں اس پہلو کو بھی کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی۔
ہمارے نزدیک یہ تجزیہ بھی اس دور کی تاریخی صورت حال کے یک رخے مطالعے پر مبنی ہے اور اس میں شرعی اصولوں کا بھی زیادہ گہرا فہم نہیں پایا جاتا۔ اس میں starting point یزید کے اقتدار کو بالکل برحق اور اختلاف ونزاع سے ماورا اور شرعی وسیاسی اعتبار سے گویا ایک settled issue فرض کرنا ہے اور سیدنا حسین کے موقف کی تکییف کرتے ہوئے صورت حال کی پیچیدگی اور پس منظر کے واقعات کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ فکری محرک کے لحاظ سے اس موقف میں اہل تشیع کے version کا رد عمل نمایاں ہے، اور جمہور صحابہ کے موقف کی بنیادوں کو پورا وزن دیتے ہوئے معاملے کے ان پہلووں کو وقعت نہیں دی گئی جو سیدنا حسین کے موقف اور اس کی بنیاد کی تفہیم میں مدد دیتے ہیں۔
[pullquote]
تیسرے موقف کی وضاحت[/pullquote]
تیسرے موقف کی وضاحت کے لیے، جو ہماری رائے میں مبنی بر اعتدال اور درست موقف ہے، ضروری ہے کہ اس معاملے کے تینوں فریقوں کی پوزیشن کو ان کے اپنے زاویہ نظر سے سمجھا جائے اور پھر دیکھا جائے کہ کس کی بات میں کتنا وزن تھا اور اس پورے تناظر میں، سیدنا حسین کے اقدام کی تکییف کیا بنتی ہے ۔ یہ تین فریق حسب ذیل ہیں۔
جمہور صحابہ وتابعین، جو بنو امیہ کے خلاف خروج کے حامی نہیں تھے
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ، جنھوں نے خروج کا فیصلہ کیا
اور بنو امیہ، جو اس وقت حکمران تھے۔
آئیے، اسی ترتیب سے ان تینوں کی پوزیشن کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
[pullquote]جمہور صحابہ وتابعین کا موقف[/pullquote]
جمہور صحابہ وتابعین نے سیدنا حسین کا ساتھ نہیں دیا، بلکہ انھیں اس سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ ان کی پوزیشن کسی خوف یا مداہنت یا مصلحت کوشی پر نہیں، بلکہ صورت حال کی ایک بڑی واضح assessment پر مبنی تھی۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ امت مسلمہ یعنی ’الجماعۃ’ کی سیاسی قیادت کے لیے قریش کے دو بڑے خاندانوں یعنی بنو ہاشم اور بنو امیہ میں جو کشمکش سیدنا عثمان کے دور میں شروع ہوئی تھی، اس میں اس وقت تک (یعنی سیدنا معاویہ کی وفات کے بعد تک) کی پیش رفت میں سیاسی طاقت کا پلڑا بنو امیہ کے حق میں فیصلہ کن انداز میں جھک چکا ہے۔ الجماعۃ کی قیادت اور امت کی اجتماعی وحدت اور استحکام کے لیے حکمران طبقے میں جو سیاسی عصبیت اور انتظامی صلاحیت بنیادی شرط کی حیثیت رکھتی ہے، وہ بنو امیہ نہ صرف بہم پہنچا چکے ہیں بلکہ عملا اس کا ثبوت بھی دے چکے ہیں اور سیدنا حسن کا، سیدنا معاویہ کے حق میں خلافت سے دستبردار ہو جانا اس پر آخری مہر تصدیق ثبت کر چکا ہے۔ یہاں سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کے طرز سیاست کا تقابل کسی بھی رنگ میں زیر بحث نہیں اور نہ دونوں کو میسر موافق یا مخالف عوامل کا تجزیہ مقصود ہے۔ مقصد اس واقعی صورت حال کی طرف متوجہ کرنا ہے جو اس سارے تاریخی عمل کے نتیجے میں بالفعل پیدا ہو چکی تھی۔ پھر یہ کہ سیدنا عثمان کی شہادت کے بعد اٹھنے والے دور فتن کے اثرات ابھی تک مسلمان جماعت کے ذہنوں اور نفسیات میں تازہ تھے۔ ہماری رائے میں یہ دو بنیادی عوامل (یعنی بنو امیہ کو حاصل سیاسی عصبیت اور خروج کی صورت میں امت میں دوبارہ افتراق کا خوف) تھے جن کی روشنی میں جمہور صحابہ وتابعین نے ایک بڑا واضح اور دوٹوک سیاسی موقف اختیار کیا اور بنو امیہ کے طرز سیاست سے متعلق ہر قسم کے تحفظات کے باجود سیاسی اصولوں، شرعی مصالح اور امت کے اجتماعی مفاد کی بنیاد پر بنو امیہ کے اقتدار کو چیلنج کرنے کے فیصلے سے خود کو بالکل الگ رکھا۔
[pullquote]سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا موقف[/pullquote]
سیدنا حسین اس تنازع کے اہم ترین فریق ہیں اور دراصل انھی کا موقف ہے جس کی درست تفہیم کے لیے حد سے زیادہ احتیاط اور باریک ترین نزاکتوں کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے جن پر توجہ نہ دینے سے ان کے موقف کی تکییف میں عموما افراط یا تفریط کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔
اس ضمن میں سب سے اہم پہلو جسے کسی بھی وجہ سے، عموما نظرانداز کیا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ ان کے موقف کا باعث استخلاف یزید کے وقت یا سیدنا معاویہ کی وفات کے بعد پیدا ہونے والی، صورت حال کی کوئی تبدیلی (مثلا یزید کا فسق وفجور یا غیرشرعی انداز حکومت وغیرہ) نہیں تھی، بلکہ وہ بہت پیچھے سے چلی آنے والی ایک unresolved tension کا تسلسل تھا۔ اس کا سبب اس وقتی نوعیت کی کسی وجہ کو قرار دینا تاریخی لحاظ سے بھی ان کے موقف کی غلط ترجمانی ہے اور ازروئے عقل ومنطق بھی، ان کے موقف کا وزن واضح کرنے کے بجائے اسے کمزور بناتا ہے، خاص طور پر اہل سنت کے زاویہ نظر سے جمہور صحابہ کی اس پہلو سے بے خبری یا بے توجہی فرض کرنا بہت مشکل ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مسلمانوں کی سیاسی قیادت کا داعیہ اور خواہش رکھنے والوں میں جہاں مہاجرین کے علاوہ انصار شامل تھے، وہاں خود مہاجرین میں اہل بیت بھی اپنے لیے سیاست واقتدار میں ایک خصوصی کردار اور استحقاق کا تصور رکھتے تھے۔ (سردست اس بحث سے صرف نظر کر لیجیے کہ وہ اسے شرعی طور پر کوئی منصوص حق سمجھتے تھے یا اس کی بنیاد اہلیت وصلاحیت، اسلام کے لیے قربانیوں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نسبت جیسے اوصاف پر تھی)۔ خلفائے ثلاثہ، اور خاص طور پر خلیفہ اول وثانی کے مقابلے میں، اہل بیت نے اپنے حق کو assert نہیں کیا بلکہ ان کے شخصی احترام اور مقام ومرتبہ کے اعتراف کے ساتھ ہر اعتبار سے ان کی موافقت ومعاونت کا طریقہ اختیار کیا، لیکن سیدنا عثمان کے بعد امیر معاویہ کے مقابلے میں سیدنا علی کے سیاسی موقف میں اس کا بالکل واضح اظہار ملتا ہے، اور وہ خاص طور پر عہد نبوی میں اسلام اور کفر کی کشمکش میں بنو امیہ کے تاریخی کردار کا حوالہ دیتے ہوئے ان کے مقابلے میں اپنے ’احق بالامر’ (یعنی حکومت کا زیادہ حق دار) ہونے کا بار بار حوالہ دیتے ہیں۔
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے اس کشمکش کے سارے مرحلے اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے اور گو سیدنا علی اور سیدنا حسن کی موجودگی میں وہ کوئی بنیادی کردار ادا نہیں کر سکتے تھے، لیکن بنو امیہ کے اقتدار سے متعلق ان کی بے لچک پوزیشن ہر ہر مرحلے پر تاریخ کی کتابوں میں منقول ہے۔ یہاں تک کہ سیدنا معاویہ کے مقابلے میں خلافت سے دستبرداری کے فیصلے پر بھی انھوں نے سیدنا حسن کے سامنے سخت ری ایکشن ظاہر کیا تھا اور سیدنا حسن نے اس فیصلے کو ان کی ناراضی مول لے کر بلکہ بڑے بھائی کی حیثیت سے انھیں بہت سخت سست کہہ کر عملی جامہ پہنایا تھا۔
اس کے ساتھ اس مزید پیش رفت کو سامنے رکھیے جو استخلاف یزید کی صورت میں ہوئی۔ سیدنا حسن کے سااتھ معاہدہ صلح میں واضح طور پر فریقین میں یہ طے پایا تھا کہ سیدنا معاویہ کے حق میں دستبرداری صرف ان کی شخصیت تک اور ان کی زندگی تک محدود ہے۔ اس کے بعد مسلمانوں کو ازسرنو یہ طے کرنے کا اختیار ہوگا کہ وہ کس کو اپنا حکمران بنانا چاہتے ہیں۔ تاہم سیدنا معاویہ نے آخری عمر میں، یزید کو ولی عہد مقرر کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کا محرک پدری محبت کو مانا جائے، یا خاندانی اقتدار کا تسلسل قائم رکھنے کی خواہش کو یا امت کی وحدت کو محفوظ کرنے کے جذبے کو یا ان تینوں کو، اہل بیت کے نقطہ نظر سے یہ بہرحال معاہدے سے انحراف تھا اور اس کے لیے پیدا کیے جانے والے سیاسی اتفاق رائے کو، امت کے ایک جینوئن اتفاق رائے کے طور پر تسلیم کرنا ان کے لیے ناممکن تھا۔ چنانچہ چند دیگر سرکردہ افراد کے علاوہ سیدنا حسین نے اس فیصلے کو قبول نہیں کیا اور یزید کی بیعت نہیں کی۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ اس سارے عمل کی شرعی، اخلاقی یا قانونی validity کو قبول نہیں کرتے تھے۔
یہ وہ پس منظر ہے جس میں ہمارے نزدیک سیدنا حسین کے اس طرز فکر کو سمجھنے کی ضرورت ہے جس کا اظہار ان کے ہاں سیدنا معاویہ کی وفات کے بعد ہوتا ہے۔ ان کے زاویہ نظر سے ان کا سامنا ایک ایسی حکومت سے تھا جو سیاسی معاہدے سے انحراف کے بعد جبر کے زور پر قائم تھی اور اس کے ساتھ ساتھ وہ حکومت واقتدار کی شرعی اخلاقیات کی بھی پابند نہیں تھی۔ مزید یہ کہ حکومت کی طرف سے سیدنا حسین پر مسلسل دباو ڈالا جا رہا تھا کہ وہ یزید کی بیعت کر لیں، ورنہ داروگیر کے لیے تیار رہیں۔ گویا انھیں اپنے سیاسی اختلاف کو برقرار رکھتے ہوئے زندگی گزارنے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی۔ اس سب کے ساتھ جب سیدنا حسین کو اہل کوفہ کی طرف سے مسلسل اور پراصرار دعوت ملنے لگی کہ وہ وہاں جا کر اپنی حکومت قائم کر لیں تو ان کا اس دعوت کو قبول کرنے کے لیے آمادہ ہو جانا عین فطری تھا۔ معلوم نہیں کہ حکومت کی طرف سے بیعت کا دباو نہ ڈالے جانے پر یا اہل کوفہ کی طرف سے دعوت نہ ملنے پر وہ کیا روش اختیار کرتے، لیکن تاریخی واقعہ یہی ہے کہ انھوں نے خروج کا فیصلہ اسی تناظر میں کیا۔ گویا حالات وواقعات کی عملی صورت نے ان کے برسوں سے چلے آنے والے سیاسی موقف کے ساتھ مل کر وہ ماحول پیدا کر دیا جس میں انھیں ایک طرح سے حالات کے جبر کے تحت یہ قدم اٹھانا پڑا اور اس کے نتیجے میں وہ سانحہ رونما ہو گیا جو آج تک امت کی فکر، نفسیات اور جذبات کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے۔
[pullquote]اموی حکومت کی پوزیشن[/pullquote]
حکمران اموی خاندان اس بحث کا تیسرا بنیادی فریق ہے اور اس کی پوزیشن پر بات کیے بغیر، بات مکمل نہیں ہو سکتی۔ہمارے نزدیک زیر بحث صورت حال میں ان کی بنیادی غلطیاں دو ہیں۔ ایک، سیدنا حسین کی نسبت کے احترام کو پیش نظر نہ رکھنا، اور دوسرے، سیاسی لچک اور حکمت کو بالائے طاق رکھ دینا جو اس سے پہلے سیدنا معاویہ کے طرز حکومت کا طرہ امتیاز تصور کی جاتی تھی۔
حق حکومت سے متعلق اصولی ونظریاتی بحثوں اور اقتدار کی کشمکش میں گزشتہ تاریخی مراحل سے صرف نظر کر لیا جائے تو بطور ایک واقعی حقیقت کے، یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ بنو امیہ مضبوط سیاسی عصبیت کو منظم کر لینے کی بدولت اقتدار کی کشمکش میں سب سے طاقتور فریق بن چکے تھے اور سیدنا معاویہ نے اپنے طویل دور اقتدار کی بدولت تمام ممکنہ مخالفین کو عملا میدان سے باہر کر دیا تھا۔ یزید کی ولی عہدی کے لیے بھی political pragmatism کے اصولوں کے تحت پورا جواز نکلتا ہے، بلکہ ابن خلدون جیسا مورخ اس سارے معاملے کو بجا طور پر سیاسی عصبیت کی تشکیل وحفاظت ہی کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ مضبوط سیاسی عصبیت رکھنے والا حکمران طبقہ خود امت کی ضرورت تھا، اس لیے استخلاف یزید میں سیدنا معاویہ کی پدری محبت کو کارفرما مانتے ہوئے بھی اسے اجتماعی سیاسی مصلحت سے ہم آہنگ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اتنے بڑے حجم کی سلطنت میں سیاسی استحکام کا تسلسل قائم رکھنے کی کوئی اور صورت اس تمدن میں، ملوکیت کے علاوہ متصور نہیں تھی اور خلافت سے ملوکیت کی طرف انتقال اصلا کسی سیاسی انحراف کا ظہور نہیں تھا (جیسا کہ مولانا مودودی کا انتہائی کمزور اور rhetorical قسم کا تھیسس ہے) بلکہ اس دور کی تمدنی وسیاسی حرکیات کا رو بہ عمل ہونا تھا اور جلد یا بدیر حالات کو اسی رخ پر جانا تھا۔ سیدنا حسن کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی پر بھی ایک تاویل بنو امیہ کے حق میں کی جا سکتی ہے کہ وہ اس معاہدے کو سیدنا حسن کی ذات تک محدود سمجھتے تھے، اور ان کی وفات کے بعد ایک فریق کے موجود نہ رہنے کی وجہ سے معاہدے کو کالعدم تصور کرتے تھے۔
یہ سب باتیں درست ہو سکتی ہیں، لیکن یہ پہلو کسی حال میں نظر انداز کیے جانے کے قابل نہیں تھا کہ مخالف فریق کون ہے اور اس کی شخصی وجاہت اور خاندانی نسبت کس درجے کی ہے۔ سیدنا حسین کو بیعت کے لیے مجبور کرنے کی سیاسی طور پر کوئی ضرورت نہیں تھی، اور ان کی سرگرمیوں کو محدود کر دینا اور اہل کوفہ کے ساتھ روابط پر نظر رکھنا کافی تھا۔ یہ محض حکمران خاندان کی نفسیاتی کمزوری کا اظہار تھا کہ سیدنا حسین کی شخصیت سے خوف محسوس کیا گیا اور انھیں عدم تحفظ کا احساس دلا کر ایک طرح سے مجبور کر دیا گیا کہ وہ لازمی طور پر کسی غیر معمولی اقدام کے بارے میں سوچیں۔ پھر کوفے کی صورت حال واضح ہونے پر جب انھوں نے اپنے اقدام سے رجوع کا ارادہ کر لیا تو اب تو ایک فی صد بھی اس سخت گیر پالیسی کا جواز نہیں تھا جو موقع پر موجود کارپردازان نے اختیار کی اور سنگ دلی اور بے رحمی کے اس آخری درجے کا اظہار کر دیا جو انسانی تصور میں آ سکتی ہے۔ تف ہے ان بدبختوں کی نام نہاد طاقت پر، اور کروڑوں سلام خانوادہ نبوت کی ناتوانی پر جس نے اپنے سیاسی موقف میں جائز حد تک لچک دکھانے کے بعد شخصی وخاندانی تذلیل قبول نہیں کی اور اپنی آبرو پر اپنی جانیں قربان کر دینے کو ترجیح دی۔
اللھم صل علی محمد النبی الامی وعلی آلہ واھل بیتہ واصحابہ واتباعہ اجمعین