وادی نیلم کا شمار آزادکشمیر کے ان علاقوں میں ہوتا ہے جنہیں شعوری طور پر پس ماندہ رکھا گیا ہے ۔اس میں وہاں کے مقامی سیاست دان ، ریاستی حکومتیں اور دیگر طاقتور اور فیصلہ سازحلقے برابر کے شریک ہیں۔وادی نیلم میں دو لاکھ کے قریب لوگ بستے ہیں ۔ دریائے نیلم کے اُس پار بھارتی مقبوضہ کشمیر ہے ۔ متحارب فوجوں کی کراس بارڈر فائرنگ اور گولہ باری کا نشانہ لائن آگ کنٹرول پر بسنے والے یہ کشمیری بنتے ہیں ۔ نوے کی دہائی میں باردڑ پر مسلسل آر پار فائرنگ کے نتیجے میں وادی نیلم ایک بار برباد ہو چکی ۔یہاں کے بازار راکھ کا ڈھیر بنے اور لوگوں غاروں کے دور میں چلے گئے، اسکول تباہ ہوگئے ،بہت سے لوگ اس بے چہرہ جنگ کا رزق بھی بنے، بہت سے عمر بھر کے لیے اپاہج ہوئے ۔
کچھ عرصہ بعد جب سیزفائر ہوا تو لوگوں نے ایک بار پھر اسباب زیست مرتب کرنے شروع کیے ۔ نیلم میں زندگی کسی حد تک مسکرانے لگی۔پھر طویل عرصے بعد نیلم کو الگ ضلع قرار دیا گیا ۔توقع تھی کہ ضلع بننے کے بعد اس علاقے کے انفرااسٹرکچر میں بہتری آئے گی ، سرکاری اداروں ، اسکولوں اور ہسپتالوں کو اپ گریڈ اور ایکٹو کیا جائے گا لیکن ابھی تک صورت حال امید افزاء نہیں ہے۔ہسپتالوں کو برا حال ہے ، اسکولوں کی عمارات نہ ہونے کی برابر ہیں ۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ کی سروس انتہائی ناقص ہے ۔
آج (3جنوری 2019 کو)وادی نیلم کے ضلعی ہیڈ کوارٹر میں سینکڑوں شہریوں نے احتجاج کیا اور ان کا مطالبہ عجیب تھا ۔ وہ بنیادی طور پر علاقے میں امن کے قیام کا مطالبہ کر رہے تھے لیکن اس کے ساتھ مقامی ہسپتال کی ناگفتہ نہ صورت حال پر بھی وہ سیخ پاتھے۔ وہ ’’گائناکالوجسٹ‘‘ کی مانگ کر رہے تھے ۔ جی ہاں ، ڈی ایچ کیو نیلم میں کوئی گائناکالوجسٹ نہ ہونے کی وجہ سے کئی خواتین زچگی کے دوران جان سے گزر جاتی ہیں۔چند ان قبل ایک خاتون اسی وجہ سے بے وقت موت کا شکار ہوئی۔ مظاہرین ان اموات کو قتل قرار دیتے ہیں اور ریاست کو اس کا ذمہ دار گردانتے ہیں ۔ اس مظاہرے کے ایک مقرر نے یہ انکشاف بھی کیا کہ سحرش نامی لیڈی گائنالوجسٹ کی تعیناتی تو ڈی ایچ کیو نیلم میں ہوئی لیکن اسے خدمات کے لیے آزادکشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں قائم ایمز ہسپتال(امبور)بلا لیا گیا۔
ابھی 31دسمبر کو انڈین فوج کی فائرنگ سے اس علاقے میں ایک خاتون جاں بحق جبکہ اسکول کے بچوں سمیت دس افراد شدید زخمی ہو گئے تھے ۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ یہاں کے ہسپتال میں فرسٹ ایڈ کا سامان تک میسر نہیں ہوتا ۔اس ہسپتال سے تنخواہ پانے والے ڈاکٹر مظفرآباد میں رہنا پسند کرتے ہیں اور یہاں کے مریضوں کو معمولی سی بیماری میں علاج کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے مظفرآباد ، ایبٹ آباد یا اسلام آباد ریفر کیا جاتا ہے ، جس پر ناصرف یہ کہ اخراجات زیادہ اٹھتے ہیں بلکہ کئی مریض راستے میں دم توڑ جاتے ہیں۔
یہ مظاہرہ دیکھ کر میں نے محسوس کیا کہ وادی نیلم کے لوگ ڈپٹی کمشنر شاہد محمودسے بہت ناراض ہیں ۔ مظاہرے کے ایک مقرر نے ڈپٹی کمشنر پریہ الزام بھی لگایا کہ وہ لوگوں کو بلیک میل کر کے مالی مفادات سمیٹتا ہے۔اس سے زیادہ قابل غور بات یہ ہے کہ جب وادی نیلم کے نوجوانوں نے امن کی بحالی اور طبی سہولیات کی فراہمی کے لیے احتجاج کا اعلان کیا تو ڈپٹی کمشنر نے ان کے ساتھ ہتک آمیز رویہ اختیار کیا اور مظاہرین کے بقول ڈی سی نے ’’وادی نیلم کے لوگوں کے خون کی کوئی قیمت نہیں‘‘ کے الفاظ ادا کیے ۔ڈپٹی کمشنر کوایسے رعونت آمیز لہجے میں بات نہیں کرنی چاہیے ۔
اس مظاہرے میں تقریر کرنے والے ایک نوجوان کے الفاظ کچھ یوں تھے:’’ایک طرف تو ہمیں دشمن مار رہا ہے لیکن سب سے خطرناک یہ سانپ ہیں ، جنہیں ہم دودھ پلاتے ہیں اور یہ ہمیں کو ڈستے ہیں‘‘ ۔ ایک اور اہم بات یہ ہوئی کہ مظاہرین نے شہدائے بنتل چوک پر اقوام متحدہ کے مبصر مشن کی گاڑیوں کو بھی روکا اور ان سے پوچھتے رہے کہ’’ اقوام متحدہ کنٹرول لائن پر گولہ باری رکوانے میں ناکام کیوں ہے اور کیوں ہمیں امن کی زندگی نہیں جینے دی جاتی۔‘‘ یہ سب باتیں قابل غور ہیں۔
ارباب اختیار کو سمجھنا چاہیے کہ اصل قوت عوام کی قوت ہوتی ہے ۔ جب عوام اپنی طاقت کے اظہار میں سنجیدہ ہو جائیں تو کوئی دفعہ 144کارگر نہیں ہوتا۔یہی آج (3جنوری کو) ہوا، ڈسی سی نے عوام کے ساتھ بداخلاقی کے بعد دفعہ 144تونافذ کردیالیکن خود وہ وادی نیلم سے غائب ہو گیا ۔لوگوں نے دفعہ 144کی پروا نہ کرتے ہوئے ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسائل کس قدر گھمبیر ہیں۔ ان مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے انتظامی افسروں کے تقرر اور تبادلے کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ کسی اہل شخص کوضلع کا انتظام دیں۔لوگوں کے ساتھ بدتمیزی کرنے والوں کی تادیب ضروری ہے۔وادی نیلم سے الیکشن جیت کر قانون ساز اسمبلی میں بطور اسپیکر براجمان شاہ غلام قادر کو چاہیے کہ وہ لوگوں کے مسائل حل کریں نہ کہ ان پر ’’جلاد‘‘ قسم کے انتظامی افسر مسلط کریں ۔صرف اسمبلی میں اپنے من پسند افراد کو بھرتی کرتے رہناعوام کی خدمت نہیں ہے۔کرنے کے جو اصل کام ہیں ، وہ کریں۔
وادی نیلم میں ہوئے مظاہرے کے مقررین کی گفتگو اور شرکاء کے نعروں کا سبب یہ مسائل تھے:
1 ۔ بارڈر پر گولہ باری کے نتیجے میں بے گناہوں کی اموات اور وادی نیلم کے باسیوں پر تنی مستقل خوف کی چادر(امن کا مطالبہ)
2 ۔ وادی نیلم ہسپتالوں میں بنیادی طبی سہولیات اور عملے کا نہ ہونا(گائناکالوجسٹ ، جنرل فزیشن کی تعیناتی و اس کی یقینی حاضری )
3 ۔ وادی نیلم میں ٹیلی کمیونیکشن کمپنیوں کو رسائی نہ ملنا اور انٹرنیٹ سروس کی مناسب سہولت نہ ہونا (موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس )
4 ۔ عوام کے مسائل حل کرنے والے انتظامی افسروں(ڈی سی ، اے سی) کی تعیناتی ( موجودہ ڈی سی کو ہٹانے کا مطالبہ)
نہیں کہا جا سکتا کہ ان میں کوئی بھی مطالبہ غلط ہے ۔ حکومت اور ضلع نیلم کے دیگر ارباب بست وکشاد کو ان مسائل کے حل کی جانب توجہ دینی چاہیے ۔ بغاوت اور غداری کے الزامات لگا کر لوگوں کا منہ بند کرنے کی پالیسی تباہ کن نتائج کا سبب بنے گی ۔ درست وقت پر صحیح فیصلے ہی صورت حال میں سدھار لا سکتے ہیں۔