سعودی عرب:7 ماہ کی تنخواہوں سے محروم مزدوروں کا پُرتشدد احتجاج، پولیس فائرنگ سے آٹھ زخمی، سیکڑوں گرفتار

سعودی عرب میں سات ماہ کی تنخواہوں سے محروم محنت کشوں کے احتجاج پر پولیس اور سیکورٹی فورسز کے تشدد اور فائرنگ کے باعث آٹھ محنت کش زخمی جبکہ سیکڑوں گرفتار کر لیے گئے ہیں۔

سعودی عرب کے مشرقی صوبے کے شہر دمام کے نواح میں واقع دہران سائٹ پر سرکاری آئل کمپنی سعودی آرامکو کے تعمیراتی منصوبہ کی کنٹریکٹنگ کمپنی ”ازمیل کنٹریکٹنگ کمپنی” کےلئے کام کرنے والے محنت کشوں کی یہ تیسری بڑی ہڑتال تھی۔ 22 جنوری 2019ءکو ہونے والی اس ہڑتال میں ہزاروں محنت کشوں نے شرکت کی اور پرتشدد احتجاج کرتے ہوئے کمپنی کی متعدد گاڑیوں کو نذر آتش کیا اور توڑ پھوڑ بھی کی۔

کنٹریکٹنگ کمپنی ”ازمیل کنٹریکٹنگ کمپنی” کےلئے کام کرنے والے محنت کشوں کی یہ تیسری بڑی ہڑتال تھی

سعودی پولیس اور سیکورٹی فورسز نے مظاہرین پر فائرنگ کرتے ہوئے مظاہرین کو منتشر کیا اور پندرہ سے اٹھارہ بسیں بھر کر مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ کے باعث آٹھ محنت کش زخمی ہوئے جنہیں ٹانگوں میں گولیاں لگی ہیں۔

سعودی عرب میں ذرائع ابلاغ پر سخت حکومتی کنٹرول کی وجہ سے مکمل تفصیلات حاصل نہیں کی جا سکتیں زخمیوں اور گرفتار شدگان کی تعداد اس سے زیادہ ہو سکتی ہے۔

عینی شاہدین کا موقف

احتجاج کرنے والے محنت کشوں میں سے پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے پونچھ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے ایک محنت کش اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ ”اس تعمیراتی منصوبے پر کام کرنے والے 20 ہزار کے قریب پاکستانی مزدورگزشتہ سات ماہ سے تنخواہوں سے محروم ہیں، دو سال سے یہی صورتحال چل رہی ہے”

عینی شاہد کے بقول ”فلپائنی محنت کشوں کی ان کے سفارت خانے نے مدد کی جبکہ انڈین محنت کشوں کے سفارتخانے نے بھی ان سے مستقل رابطہ رکھا ہوا ہے اور وہ ان کی مدد کر رہا ہے لیکن پاکستانی سفارت خانے میں محنت کشوں کوئی شنوائی نہیں ہو رہی، کچھ محنت کشوں کے عزیز و اقارب میں فوتیدگیاں بھی ہوئیں لیکن سفارت خانے نے ان کی واپسی کےلئے کوئی مدد نہیں کی۔”

عینی شاہد کا کہنا ہے کہ ” چھٹی جانے والوں کو بھی کوئی حساب نہیں دیا جاتا، نہ ہی بقایا رقوم دی جاتی ہیں، خروج لگوانے کےلئے چھ ، چھ ماہ سے لوگ انتظار کر رہے ہیں لیکن کوئی سفارت خانہ تعاون نہیں کر رہا ۔ 22 جنوری کی ہڑتال کے دوران سعودی پولیس نے احتجاج کرنے والوں پر شدید فائرنگ کی، متعدد لوگ زخمی ہوئے، فوجی آئے تو انہوں نے لوگوں کو گرفتار کیا۔”

ہڑتال کے دوران سعودی پولیس نے احتجاج کرنے والوں پر شدید فائرنگ کی، متعدد لوگ زخمی ہوئے

” ہزاروں محنت کش اس وقت کیمپوں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں . تین ، چار ماہ کے بعد کچھ رقم دی جاتی ہے جس سے کھانے پینے کا نظام چلا رہے ہیں، گھر والے امید لگائے بیٹھے ہیں کہ انہیں بھی خرچ کے لئے رقم بھیجی جائے لیکن ہم خود کس کیفیت میں ہیں یہ انہیں بتا نہیں سکتے۔ دیار غیر میں قرض اٹھا کر لوگ محنت بیچنے اور اپنے حالات آسودہ کرنے کے خواب لے کر آئے تھے لیکن وہ خواب ہمارے لئے ڈراﺅنے خواب ثابت ہو رہے ہیں۔ میڈیکل کےلئے سہولیات سرے سے موجود نہیں ہیں۔ اگر کسی محنت کش کی موت واقع ہو جائے تب بھی سفارتخانہ کوئی مدد نہیں کرتا”

ازمیل کنٹریکٹنگ کمپنی نے سات ماہ سے محنت کشوں کو تنخواہیں نہیں ادا کیں

”گرفتار ہونے والوں کی کوئی معلومات نہیں دی گئی۔ سینکڑوں محنت کش ایسے ہیں‌جن کے اقامے ختم ہو چکے ہیں، اقامے کی تجدید کےلئے کوئی اقدامات نہیں ہو رہے ، اقامے کے بغیر ہم کیمپ سے باہر نہیں جا سکتے، اگر کوئی محنت کش مجبوری کی صورت میں اقامے کے بغیر کیمپ سے باہر چلا جائے تو اسے گرفتار کر لیا جاتا ہے اور اس کی معلومات کوئی بھی حاصل نہیں کر سکتا۔ اس ساری صورتحال میں ہم بس وزیراعظم پاکستان، پاکستانی سفارت خانے کے ذمہ داران سے ہماری التجا ہے کہ ہم پر رحم کیا جائے اور خاندان کی کفالت کے خواب لے کر بیرون ملک آنے والے محنت کشوں کو اس خوفناک صورتحال سے انہیں باہر نکالا جائے، ہماری تنخواہیں واگزار کروائیں جائیں اور پاسپورٹ واپس دلوا کر ہمیں اس جہنم سے واپس لایا جائے۔

سعودی کپمنی آرامکو کے اہداف کیا ہیں؟

سعودی عرب میں ‘ویژن 2025’ کے تحت کی جانے والی وسیع تعمیرات کے سلسلے میں سعودی آرامکو کے پاس تقریباً 8500ویلاز(ہاﺅسنگ یونٹس) کی تعمیر کا ٹھیکہ ازمیل کنٹریکٹنگ کمپنی کے پاس ہے، منصوبہ پر کمپنی نے تقریباً50 ہزار محنت کشوں کو بیرون ملک سے ہائیر کیا ہے، جن میں پاکستانی، انڈین اور فلپائنی محنت کشوں کی بڑی اکثریت شامل ہے۔ مذکورہ کمپنی کے محنت کشوں کی یہ تیسری بڑی ہڑتال تھی، ماضی میں اگست 2016ء اور اکتوبر2018ءمیں بھی پرتشدد ہڑتالیں ہو چکی ہیں۔ ماضی کی ہڑتالوں کے باعث فلپائن کے سفارتخانے نے مداخلت کرتے ہوئے اپنے ملک سے آئے محنت کشوں کی واپسی کےلئے انتظامات مکمل کر لیے تھے جبکہ بھارتی سفارتخانے نے بھی مشکل میں پھنسے تارکین وطن محنت کشوں کی مدد کے لیے ان کے ساتھ رابطہ قائم رکھا ہوا ہے اور انہیں میڈیکل سمیت دیگر سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ دوسری جانب پاکستانی محنت کشوں کی ایک بڑی تعداد وہاں بے یار و مدد گار پھنسی ہوئی ہے جنہیں اپنے سفارتخانے کے منفی رویہ اور حکومتی عدم توجہی سے شدید شکایات ہیں۔

حکومت پاکستان کی پراسرار خاموشی

پاکستان میں گزشتہ برس اقتدار میں آنے والی تحریک انصاف کی حکومت نے تارکین وطن محنت کشوں کی سہولیات کےلئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرنے کے اعلانات کیے تھے اور بیرون ملک جیلوں میں قید تارکین وطن کی رہائی کے لیے اقدامات کرنے کی بات بھی کی گئی تھی لیکن سرکاری دستاویزات کے مطابق صرف سعودی عرب میں ہی 7 ہزار سے زائد افراد مختلف مقدمات میں جیلوں میں قید ہیں، کئی ایک سزائیں بھی پوری کر چکے ہیں اور اکثریت صرف اقامہ ختم ہونے کی وجہ سے گرفتار ہونے والوں کی ہے۔ لیکن تاحال ان تارکین وطن کی رہائی اور وطن واپسی کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جا سکے ہیں۔

واضح رہے کہ پاکستان سعودی عرب کے اتحادی ممالک میں سے اہم اتحادی ہے، یہی وجہ ہے کہ شدید مالی بحران کا شکار ہونے کے باوجود سعودی عرب نے حال ہی میں پاکستانی معیشت کو سہارا دینے کےلیے تین ارب ڈالر کی خطیر رقم بطور امداد فراہم کی ہے۔ سعودی عرب میں شدید مشکلات کے شکار پاکستانی تارکین وطن کے معاملے میں حکومت پاکستان کی طرف سے مکمل خاموشی ہے ۔

خبر کو مقامی اور عالمی ذرائع ابلاغ کی بہت کم توجہ ملی

سعودی عرب میں 20 ہزار سے زائد پاکستانی تارکین وطن محنت کشوں کے احتجاج اور گرفتاریوں کی خبر کو پاکستان سمیت دنیا بھر کے کسی بھی میڈیا نے نمایاں طور پر کوریج نہیں دی ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی حکومت کا میڈیا پر کنٹرول کس قدر گہرا ہے۔ اس کے بر عکس ماضی میں سعودی عرب میں ہونے والے متعدد واقعات کو عالمی میڈیا نے بھرپور کوریج دی اور سعودی حکومت پر دباﺅ بھی ڈالا گیا۔

سعودی عرب کا مالیاتی بحران تارکین وطن محنت کشوں کی مشکلات میں اضافے کا باعث

سعودی فرمانروا نے عالمی مالیاتی بحران اور تیل کی قیمتوں میں کمی کے باعث دم توڑتی سعودی معیشت کو سہارا دینے کےلئے ویژن 2025ء کے تحت نئے قوانین کے نفاذ کے علاوہ نئے تعمیراتی منصوبوں اور معیشت کے پھیلاﺅ کےلیے انڈسٹریل زونز کی تعمیر کا آغاز کر رکھا ہے۔ نئے قوانین کے تحت تارکین وطن محنت کشوں پر سخت ٹیکسز کا نظام نافذ کرنے کے علاوہ تارکین وطن مزدوروں کو اپنے ملکوں میں واپس بھیجنے کے سلسلہ کا بھی آغاز کیا گیا ہے۔ لیکن تاحال تارکین وطن مزدوروں کی ایک بڑی تعداد تعمیراتی منصوبوں پر کام کر رہی ہے، جن پر ٹیکسز کے بوجھ کے علاوہ کام کا بوجھ بھی اضافی کر دیا گیا ہے. محنت کشوں کو کمپنیوں کی طرف سے دی جانے والی تمام سہولیات کو چھینا جا رہا ہے۔

ہڑتال کے دوران کچھ محنت کشوں‌ویڈیوز بنا کر فیس بک پر پوسٹ کیں جس کے بعد ان کے آبائی علاقوں میں موجود عزیزوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی

سعودی عرب میں کفیل ہی محنت کش کے مقدر کا مالک ہوتا ہے

پاکستان، بھارت، فلپائن، بنگلہ دیش سمیت تیسری دنیاکے دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے لاکھوں محنت کش اب بھی سعودی عرب میں اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں. سعودی حکومت کے سخت قوانین کے باعث محنت کشوں کو اقامے کے لیے کفیل(سعودی شہری) کے ماتحت رہنا پڑتا ہے اور کفیل ہی اس محنت کش کے مقدر کا مالک ہوتا ہے۔ مختلف منصوبہ جات پر کام کرنے والی کمپنیوں پر پابندی عائد کی گئی ہے کہ انہیں سعودی شہریوں کی ایک خاص تعداد کو ملازمتیں لازمی طور پر دینا ہوں گی، تارکین وطن محنت کشوں کی شکایت ہے کہ مذکورہ سعودی شہریوں کی تنخواہیں اور ان کی جگہ کام کا بوجھ بھی تارکین وطن محنت کشوں پر ڈالا جاتا ہے جبکہ معاشی بحران کے باعث تعمیراتی کمپنیاں بھی شدید مالیاتی بحران کا شکار ہیں جس کا تمام تر بوجھ تارکین وطن محنت کشوں کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ لیبر قوانین کا اطلاق بھی صرف مقامی شہریوں تک ہی محدود کر دیا گیا ہے۔ سعودی میڈیا پر سخت حکومتی نگرانی کے باعث سعودی عرب میں کام کرنے والے محنت کشوں سے ہونے والے زیادتیوں کی رپورٹنگ مشکل بنا دی گئی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے