‘پہلی گولی’کا جشن اورمقبول بٹ کی اجنبی روح

اے قلب شناسا ماتم کر اے چشم بینا سوگ منا
جو روشنی بانٹنے آیا تھا وہ چاند وہ سورج ڈوب گیا

تاریخ انسانی کے پنوں پر جمی گرد جھاڑ کر بغور مطالعہ کیا جائے تو کئی پرتیں کھل جائیں گی کہ کوئی بھی شخصیت اقتدار و مال کے انبار سے زندہ نہیں رہتی بلکہ افکار و کردار ہی اسے حیات جاوداں بخشتی ہے، تاریخ انسانی میں خود کو زندہ رکھنے کے لیے قربانی دینی پڑتی ہے،یوں تو تاریخ کے صفحات قربانیوں سے بھرے پڑے ہیں مگر ہر قربانی یاد نہیں رہتی، قربانی دینے والا ہر شخص امر نہیں ہوتا، مگر کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کی قربانی آفاقی ہو جاتی ہے ان کا امر ہونا اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ان میں اور ایک عام شخص میں انفرادیت کا ایک طویل سفر ہے

ایسی ہی ایک شخصیت 11فروری 1984 کو وطن کی محبت میں تختہ دار پر چڑھ کر یقین کی آخری منزل پالیتی ہے اور ملت کشمیر کو زندہ و جاوید کر جاتی ہے یہ وہ شخصیت ہے جس کے کردار کی گواہی نہ صرف ارض پاک کا ہر فرد بلکہ اقوام عالم کا ہر شخص دیتا ہے.اور اس کی جرأت و بہادری اور وطن سے محبت پر اپنے جذبات قرطاس پر لفظوں کی شکل دیتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں ۔

شہید کشمیر مقبول بٹ کے افکار و کردار پر کچھ روشنی ڈالنے کی سعی میرا قلم نہیں کر سکتا کیونکہ دنیا یہ کام بڑی عرق ریزی سے کر رہی ہے، میں نے قلم کو جنبش آزادی کے بیس کیمپ میں برسراقتدار آنے والی حکومتوں سے چیدہ چیدہ سوالات کے لیے دی ہے

آزادی کے بیس کیمپ(آزادکشمیر) میں برسراقتدار آنے والی حکومتیں جو شہید حریت کی قربانی کو 35 سالوں سے جان بوجھ کے نظر انداز کر رہی ہےاور بعض لوگوں کے چھوٹے چھوٹے کارناموں کو اس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے کہ جیسے وہ چنگیز خان یا ہلاکو خان کی اولاد ہو یا کشمیر کے گلاب سنگھ کا نیاز حاصل کر آئے ہوں،ان کے مبینہ کارناموں کو سرکاری مفادات کے پیش نظر سرکاری سطح پر بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے. یہ وہ سیاسی شخصیات تھیں جنہوں نے محض پہلی گولی چلانے پر اس عظمت کو چُھو لیا تھا۔

حیران ہوں کہ اس یاد کو بڑے طمطراق کے ساتھ ہر سال سرکاری سطح پر منایا جاتا ہے یعنی اس گولی کی حیثیت ایک انسان کی طویل جدوجہد، اس کی قربانی سے زیادہ گراں قدر ہے ، یہ الگ بات ہے کہ اس پہلی گولی کی کوئی ثقہ شہادت بھی نہیں ہے. اگر 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منایا جاسکتا ہے تو 11 فروری مقبول بٹ کا یوم شہادت کیوں نہیں منایا جا سکتا؟ آزاد کشمیر حکومت پانچ فروری کو بناؤ سنگھار کرکے عام تعطیل کا اعلان کرکے فوٹو سیشن کر سکتی ہے تو 11 فروری کو عام تعطیل کیوں نہیں؟

23 مارچ ،1 مئی، 13 جولائی، 19 جولائی، 31جولائی، 8اکتوبر، 6 نومبر، 18 دسمبر، 25 دسمبر کو عام تعطیل ہو سکتی ہے تو 11 فروری کو کیوں نہیں؟ کیا مقبول بٹ کشمیری نہیں تھے؟ کیا ان کی شہادت مادر وطن کے لیے نہیں تھی؟ مقبول بٹ اگر کشمیری تھے اور مادر وطن کے لیے قربانی دی تو یہ منافقانہ روش کیوں؟

قارئین! ہمیں بحثیت فرد و قوم ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر سوچنا ہے کہ آیا مقبول بٹ کی افکار و نظریات اور مادر وطن کے لیے کی جانے والی جدوجہد بھلائے جانے کے قابل ہے؟ برسر اقتدار طبقہ کرسی کی محبت میں یا پھر مقتدر حلقوں کے خوف سے مقبول بٹ کی قربانی کو پس پشت ڈال کر انہیں اس حق سے محروم کر رہے ہیں جو بیس کیمپ کے اصل حق دار کو ملنا چاہیے .

مقبول بٹ شہید کی لازوال قربانیاں ہمارے لیے زاد راہ ہیں. یہ وہ مرد مجاہد ہے جس نے ساری زندگی جرأت و استقامت کے ساتھ دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گزاری.انہوں نے اہل و عیال کی فکر کی اور نہ ہی مال و دولت جمع کیا، انہوں نے جو جہد کیا کشمیری قوم کے لیے کیا ، وہ ریاست جموں و کشمیر کے عوام کے لیے افکار و کردار کا ایک ایسا روشن ستارہ بن کر چشم فلک پر طلوع ہوا جو رہتی دنیا تک چمکتا رہے گا.

مقبول بٹ نے مظلوم و محکوم قوم کے تاریک ذہنوں کو منور کر دیا تاکہ وہ غلامی کے تصور سے نجات حاصل کر سکیں۔کیا یہ ہماری منافقت نہیں کہ ہم 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر مناتے ہیں ،سرکاری سطح پر چھٹی کرکے کشمیری سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں جس دن کی کوئی تاریخی حیثیت نہیں، اس دن کی داغ بیل جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد کے مشورے پر ڈالی گئی تھی ۔ بس اتنی سی بات ہے.

خدا لگتی کہی جائے تو 11 فروری کا دن جس دن کو ایک جری لیڈرکو بھارت کی جیل میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا۔اس دن کو بھی سرکاری سطح پر شان و شوکت منایا جانا چاہیے جس شان سے اس نے تختہ دار قبول کر کے تحریک آزادی میں نئی روح پھونک دی تھی لیکن یہاں ہمیں جزوی تنازعات کی بدولت یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ہماری حیثیت روئے زمین پر تنکے کی سی ہے. دوسرا کشمیری حکمرانوں کی موجودہ جدوجہد اور پاکستان میں جاری جمہوری عمل کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے، ان ایوانوں میں بالادست طبقے کا اصل منشور آزاد اور متحدہ کشمیر کے لیے کشمیریوں کی جدوجہد کا بھی دشمن ہے.

مقبول بٹ نے مظلوم و محکوم قوم کے تاریک ذہنوں کو منور کر دیا

آج سیاست کی قبا شہرت پرستی ، انا پرستی ، جھوٹ مکرو فریب، بد عہدی ، بے ضمیری ، تن پرستی ، بداخلاقی اور بےقاعدگی کی آلودگی سے لتھڑی ہوئی ہے جسے ”پہلی گولی” کی بازگشت تو سنائی دیتی ہے،5 فروری کی فریب میں لپٹی یکجہتی تو دکھائی دیتی ہے لیکن عظمت رفتہ کے سینے سے نکلنے والی خون آلود روح دکھائی نہیں دیتی جسے اگر باشعور قوم پالے تو خوشی سے پھولے نہ سمائے .

ایک فرد کی موت سے ایک خاندان متاثر ہوتا ہے اور ایک رہنما کی موت سے پوری ملت متاثر ہوتی ہے ۔ مقبول بٹ نہ صرف ایک محب وطن شہری تھا بلکہ کشمیری قوم کا عظیم لیڈر بھی تھا .ان 71 سالوں میں کسی ماں کی کوکھ نے اس جیسا لیڈر کوئی اور پیدا نہیں کیا۔

انسان آتے جاتے رہتے ہیں مگر افکار و نظریات ہمیشہ زندہ رہتے ہیں .جو لوگ اصولوں کی خاطر زندہ رہتے ہیں وہ ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتے ہیں .

عظیم قومیں اپنے محسنوں کو کبھی نہیں بھلاتی ، قابل صد افسوس یا پھر بدقسمتی کہہ لیجیے ہمارے محسن کی قربانی کو اتنی اہمیت بھی نہیں دی گئی کہ سرکار جرأت کا مظاہرہ کرکے ان کے جسد خاکی کو جابر حکومت بھارت سے مانگ کر اپنی سرزمین میں دفن کر کے عزت بخشے اور نہ ہی ان کی لازوال جدوجہد کو سرکاری طور پر کوئی حثیت دینے کی جرأت کی گئی، نہ ہمارے حکمرانوں میں اتنا دم ہے کہ وہ مقبول بٹ شہید کو 35 سالوں میں ایک بار بھی ان کی جرأت و استقامت پر انہیں خراج تحسین پیش کر سکیں. بدقسمتی ہے جو بحثیت قوم ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہم عام شخصیت کے چھوٹے چھوٹے کارناموں کو نجی مفادات کے پیش نظر اہمیت دیتے جاتے ہیں اور قومی مفادات کے بڑے کارنامے کو یکسر نظر انداز کرکے غلامی کا پٹہ گلے میں بخوشی ڈال کر چلنے میں عافیت سمجھتے ہیں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے