2012ء میں ایک وڈیو کلپ منظر عام پر آیا، یہ وڈیو کوہستان کے ایک دور افتادہ گاؤں سرتائی میں ہونے والی کسی شادی کی تقریب کی تھی، اس کلپ میں پانچ لڑکیاں نظر آرہی تھیں جنہوں نے سروں پر چادریں اوڑھ رکھی تھیں جبکہ دو لڑکے روایتی موسیقی پر رقص کر رہے تھے اور یہ لڑکیاں انہیں دیکھ کر تالیاں بجا رہی تھیں۔ آٹھواں شخص ایک لڑکا تھا جس نے یہ وڈیو بنائی۔ سرتائی گاؤں قراقرم ہائی وے سے دو دن کی ’’واک‘‘ پر واقع ہے اور شادی کی ’’تقریب‘‘ کی وڈیو دیکھ کر اس کی پسماندگی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ بدقسمتی سے یہ کلپ اُس گاؤں میں پھیل گیا جس کے فوری بعد جرگہ بلایا گیا جس میں چالیس سے پچاس افراد شریک ہوئے، قبیلے کی غیرت پر ماتم وغیرہ کیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ لڑکیوں کو تالیاں بجانے کی بے غیرتی کی سزا کے طور پر قتل کر دیا جائے۔ ایسا ہی ہوا۔ 30مئی 2012ء کو پانچوں لڑکیوں کو قتل کرکے دفنا دیا گیا۔ یہ بات مزید پھیل کر میڈیا میں آ گئی، اُس وقت کی عدالت عظمیٰ نے اِس واقعے کا ازخود نوٹس لیا اور کے پی انتظامیہ سے رپورٹ طلب کر لی، جواب میں پوری صوبائی انتظامیہ بشمول چیف سیکریٹری، ڈی آئی جی، کمشنر سب طرم خان، عدالت میں پیش ہوئے اور یک زبان ہوکر بیان دیا کہ انہیں لڑکیوں کے قتل ہونے کے کوئی ’’شواہد نہیں ملے‘‘۔
معزز ججوں نے بار بار اُن سے پوچھا کہ کیا اُن کی لڑکیوں سے بات ہوئی، کیا اِس بات کا ثبوت موجود ہے کہ لڑکیاں زندہ ہیں مگر جواب میں سب خاموش کھڑے رہے، ڈی آئی جی صاحب نے ایک بیورو کریٹک قسم کا جواب دیا کہ ہم نے اس واقعے کی مکمل تحقیقات کیں، مقامی افراد سے ملاقات کی، قبرستان بھی گئے مگر کوئی بندہ بھی سامنے نہیں آیا جو یہ کہہ سکے کہ قتل کا کوئی واقعہ ہوا ہے، ہم اُس مذہبی عالم سے بھی ملے جس نے مبینہ طور پر لڑکیوں کے قتل کا فتویٰ دیا مگر اُس نے ایسے کسی بھی فتوے کی تردید کی۔ ایسے میں جب یہ تمام پھنے خان افسر عدالت میں کھڑے ہو کر ہومیو پیتھک بیان دے رہے تھے، قتل ہونے والے لڑکوں میں سے ایک کا بھائی افضل کوہستانی سامنے آیا اور عدالت کو بتایا کہ پانچوں لڑکیاں قتل ہو چکی ہیں، اُس نے تمام کے نام بھی بتائے اور یہ بھی بتایا کہ کن چار گواہوں کی موجودگی میں انہیں قتل کیا گیا۔
بعد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے افضل کوہستانی نے بتایا کہ مقامی انتظامیہ اور جرگے کے لوگ اس معاملے پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں، اُن کے خاندان کے سو کے قریب لوگ اپنی زمین چھوڑ کر جا چکے ہیں کیونکہ اُن کی جان کو خطرہ ہے اور خود وہ بھی اسلام آباد اسی لئے آئے ہیں کہ جرگے کے لوگ اُنہیں بھی قتل کرنا چاہتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے ایک جوڈیشل کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ حاصل کرنے کے بعد کیس داخل دفتر کر دیا۔ افضل کوہستانی نے مگر ہمت نہیں ہاری، اُس نے جرگے کے بے رحم فیصلے اور قبیلے کی فرسودہ روایات کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھی اور جنوری 2013میں سپریم کورٹ میں ایک تازہ درخواست ڈال دی کہ کیس کو دوبارہ کھولا جائے، اس جرم کی پاداش میں اُس کے تین بھائیوں کو، جن میں سے دو اُس وڈیو میں شامل تھے، قتل کر دیا گیا۔
اس پورے عرصے میں پولیس یہی موقف اختیار کرتی رہی کہ لڑکیاں زندہ ہیں مگر اپنی روایات کی وجہ سے عدالت میں پیش نہیں ہو سکتیں، ایک موقع پر دو لڑکیوں کو پیش بھی کیا گیا مگر پتا چلا کہ یہ اور ہیں، وہ نہیں جو وڈیو میں تھیں، خیر یہ ڈرامہ یونہی چلتا رہا اور بالآخر اگست 2018میں کوہستانی پولیس نے رو پیٹ کر اس واقعے کی ایف آئی آر درج کرلی، تین ملزمان کو اس بہیمانہ قتل کے جرم میں گرفتار کیا گیا جنہوں نے اقرارِ جرم بھی کر لیا۔ افضل کوہستانی کو تمام عرصے میں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جاتی رہیں، اُس نے پولیس اور انتظامیہ کو اس سے آگاہ بھی کیا مگر اپنی جدوجہد نہ چھوڑی، اُس کا عزم تھا کہ مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے، کوہستانی نے یہ بھی کہا کہ اگر اُس کی جان کو کچھ ہوا تو اس کی ذمہ دار ہزاہ پولیس ہو گی، اس بیچارے کا خیال تھا کہ اکیس کروڑ کے ملک میں جہاں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی، اُس کی فریاد شاید کوئی اللہ لوک افسر سُن لے، مگر اس غریب کو شاید علم نہ تھا کہ افسر لوگ صرف ریٹائرمنٹ کے بعد ہی اللہ لوک بنتے ہیں اُس سے پہلے وہ صرف افسر ہوتے ہیں۔ سو، گزشتہ جمعرات 7مارچ 2019ء کو افضل کوہستانی کو ایبٹ آباد میں ’’نامعلوم افراد‘‘ نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔
سات برس پر پھیلی ظلم کی یہ داستان شاید ہی ہم میں سے کسی کا دل دہلائے، ایک ایسے ملک میں جہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہو کہ لیڈر کس زبان میں تقریر کرے، وہاں کسی افضل کوہستانی کے قتل کی خبر کیا معنی رکھتی ہے! اس قتل کی سنگل کالمی خبر اردو اخبار میں شائع ہوئی اور ماسوائے ایک انگریزی اخبار کے کسی نے اس پر اداریہ لکھنے کی زحمت نہیں کی۔ ضرورت بھی کیا تھی، افضل کوہستانی کیا بیچتا تھا جو اُس پر اداریے لکھے جاتے۔ وہ انسانی حقوق اور انصاف مانگتا تھا ایک ایسے معاشرے میں جہاں اچھے خاصے پڑھے لکھے اور بظاہر مہذب نظر آنے والے بھی اندر سے اسی طرح ’’غیرت مند‘‘ ہیں جیسے وہ جرگہ جس نے اُن پانچ لڑکیوں کے قتل کا فیصلہ سنایا۔ افضل کوہستانی نے اُن قتل ہونے والی لڑکیوں کا مقدمہ لڑنے کا غلط فیصلہ کیا، اُس کا یہی انجام ہونا تھا۔ اس کے بجائے اگر وڈیو منظر عام پر آنے کے بعد وہ سیدھا کسی مغربی ملک کے سفارت خانے کا در کھٹکھٹاتا اور کہتا کہ اُس کے خاندان کی جان کو خطرہ ہے، اپنے ملک میں پناہ دیدو، تو آج وہ اپنے بھائیوں سمیت زندہ سلامت یورپ کی آزاد فضا میں سانس لے رہا ہوتا، وہاں اسے کسی جرگے کی پروا ہوتی اور نہ قبیلے کی فرسودہ روایات کا خوف۔ افسوس کہ اُس نے اپنے ملک کے اداروں کو آزمانے کا فیصلہ کیا، اس کے قتل کے ساتھ اُس کی اپنی خوش فہمی بھی دفن ہو گئی اور ساتھ ہی اُن لوگوں کی بھی جو اسی کی طرح خوش گمانی رکھتے تھے۔
یہ ہم لوگ جو ایک دوسرے سے اٹھے بیٹھے پوچھتے رہتے ہیں کہ اس ملک کا مسئلہ کیا ہے تو آج ایسے تمام لوگ نوٹ فرما لیں کہ اس ملک کا مسئلہ آئین میں دئیے گئے بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی میں ناکامی ہے، یہ آئین ہی ہے جو تمام شہریوں کو قانون کی نظر میں برابر کہتا ہے، جان اور مال کا تحفظ فراہم کرنے کا یقین دلاتا ہے، آزادیِ اظہار کی ضمانت دیتا ہے، اپنے مذہب اور مسلک کے مطابق زندگی گزارنے اور عبادت کرنے کی آزادی دیتا ہے، انصاف کی فراہمی کا وعدہ کرتا ہے اور اس ملک میں بسنے والی عورتوں کو بھی اتنے ہی حقوق دیتا ہے جتنے کسی مرد کو۔ آئین تو یہ تمام حقوق دیتا ہے مگر ہم ایک دوسرے کو یہ حقوق دینے کے لئے تیار نہیں، کچھ مرد عورت کو آج بھی ناقص العقل سمجھتے ہیں جبکہ بعض مردوں کے خیال میں عورت محض گھر گرہستی کرے تو ٹھیک، اس سے زیادہ اُس کا کوئی مصرف نہیں۔ جس روز افضل کوہستانی قتل ہوا اُس سے اگلے روز قوم نے ٹویٹر پر عورتوں کا عالمی دن منایا، کیا ہی اچھا ہو اگر کے پی حکومت قتل ہونے والی پانچ لڑکیوں، تین لڑکوں اور افضل کوہستانی کے نام ایک ایک سکول کر دے، انہیں انصاف تو ہم نہیں دلا سکے، کم ازکم یہ کام تو کر ہی سکتے ہیں۔