پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال نے بنایا تھا ۔ اس ملک میں کیسا نظام ہونا چاہیے ، یہ بات قائد اعظم اور علامہ اقبال کے افکار کی روشنی میں طے ہونی چاہیے نا کہ ان لوگوں کے خیالات کے مطابق جو قیام پاکستان کے مخالفین میں شامل تھے ۔
مجھے قیام پاکستان کے مخالفین کے نکتہ نظر سے بھی کوئی مسئلہ نہیں اور کچھ تامل کے ساتھ اسے درست بھی سمجھتا ہوں لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان کیوں حاصل کیا گیا تھا ؟
کچھ دانشور مجھے سلیقے کے ساتھ یہ سمجھاتے ہیں کہ قائد اعظم نے کہا تھا کہ یہ ملک اسلام کی تجربہ گاہ ہوگا لیکن مجھ ناقص العقل کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ یہ ملک اسلام کی تجربہ گاہ کے لیے حاصل کیا گیا تھا کہ انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کی چراگاہ بنانے کے لیے ،،،
میرے خیال میں پاکستان کے ساتھ شروع سے ہی ایک مسئلہ ہوگیا اور وہ یہ کہ اس ریاست نے ایک جدید اور سیکولر تعبیر کے تحت اپنا وجود حاصل کیا . اس کے قائدین میں جدید ذہن اور سوچ رکھنے والے لوگ تھے . وہ مسلمانوں کے لیے ایک ایسی ریاست حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں مسلمانوں سمیت برصغیر کی تمام اقلیتیں مکمل سماجی ،ثقافتی ، معاشی اور مذہبی آزادی اور ترجیحات کے ساتھ آگے بڑھ سکیں .
پاکستان کے ساتھ حادثہ یہ ہوا کہ قائد اعظم کی جلد ہی وفات ہوگئی اور اس ملک پر انتہا پسند اور دہشت گرد تعبیر دین رکھنے والے گروہوں کا قبضہ ہو گیا ۔ ریاستی اداروں نے بھی اس ذہن کے آگے شروع دن سے ہی گھٹنے ٹیک دیے اور بعد میں اس ذہن کی آبیاری ، افزائش اور پرورش کے لیے اپنے سارے وسائل بھی جھونک دیے .
قیام پاکستان کے حامی اور مخالف دونوں کی رائے اپنی اپنی جگہ وزن رکھتی ہے . ہمیں ان کی نیتوں پر بھی کوئی شک نہیں . وہ جسے بہتر سمجھتے تھے اس کا انہوں نے اظہار بھی کیا . تاہم اس وقت ہم ایک ایسی صورتحال سے گزر رہے ہیں جہاں ہم ہمہ وقت ترقی اور فکر کے بجائے قتل و قتال ، اقدام و دفاع اور تکفیر کے نعروں میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ ہماری دیواریں اور لٹریچر تکفیر و تقتیل کے نعروں سے بھرا پڑا ہے . ہم فرقہ وارانہ کشمکش کے آتش فشاں پر بیٹھے ہیں جس کا لاوا وقتا فوقتا تباہی پھیلاتا رہتا ہے .
اس صورتحال سے نکلنے کے لیے ہمیں یورپ کی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے جہاں چار سو برس جنگیں ہوئیں ۔ کروڑوں لوگ قتل ہوئے اور بالآخر یورپ کے بڑے دماغوں نے یہ سوچا کہ یہ جنگ کب تک جاری رہے گی ؟ انہوں نے اس فسادی اور فسطائی ذہنیت کو چرچ میں ہی بند کیا اور آگے سے یہ کہہ کر تالا لگا دیاکہ مذہب انسان اور خدا کا ذاتی معاملہ ہے ۔ ہمیں پادری کی کوئی ضرورت نہیں ،ہم اپنے معاملات اپنے خدا سے خود کر لیں گے ۔ خدا ہمارا بھی اتنا ہی ہے جتنا پادری کا . خاص جبے ، لباس اور وضع قطع سے کوئی خدا کا مقرب نہیں بن جاتا . ہمیں تمھاری تعبیر ، تفسیر اور تشریح کی چنداں ضرورت نہیں ۔
اسی طرح انہوں نے بادشاہ سے کہا کہ ہم تمھیں لگان (ٹیکس ) نہیں دیں گے جب تک ہماری کاروبار مملکت میں نمائندگی نہیں ہوگی ۔چرچ اور بادشاہت کی بدمعاشی کو ان دو تصورات نے ختم کر دیا .
ایک سیکولر ازم،،،، یعنی مذہب انسان اور خدا کا اپنا معاملہ ہے . ریاست کا کوئی مذہب ، فرقہ ، تعبیر یا تشریح نہیں ہوگی ،البتہ ریاست میں بسنے والے لوگوں کو ان کے عقائد اور ضروریات کے مطابق ریاست سہولیات مہیا کرے .
دوسرا جمہوریت،،، یعنی کوئی طاقت کے زور پر اقتدار حاصل نہیں کر سکے گا ، کوئی آمریت ، مطلق العنانیت یا بادشاہت نہیں چلے گی بلکہ ووٹ کی پرچی فیصلہ کرے گی کہ کس کو اقتدار دیا جائے گا . ملک کسی کی مرضی اور حکم کے ذریعے نہیں بلکہ آئین کے مطابق چلے گا اور آئین عوام کے منتخب نمائندے بنائیں گے . آئین فرد کی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی کا مکمل تحفظ اور دفاع کرے گا . ریاست کے تمام شہری آئین کے مطابق برابر ہوں گے اور ان پر جنس ، رنگ ، نسل ، مذہب ، عقیدے ، فرقے یا شناخت کی بنیاد پر کسی قسم کی کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکے گی .
اس بحث سے قطع نظر کہ کیا جمہوریت کے مندرجہ بالا مقاصد حاصل ہو سکے یا نہیں تاہم یہ بات واضح ہے مغرب میں اس کے بعد افکار میں ترقی ہوئی . تجربے اور مشاہدے کے تحت علم نے ان میں تحقیق اور تجسس کے نئے رحجانات کو جنم دیا . انسان نے ملوکیت کے سائے سے نکل کر ذہن و فکر کی وہ انگڑائی لی اور آج ہمارے سامنے علم ، ادب ، سائینس اور ٹیکنالوجی میں یورپ اور ان خصوصیات والے دیگر ممالک مشعل راہ ہیں .
ایسا ذہن ہمارے ہاں بھی موجود ہے تاہم یہاں ذہنوں پر خوف اور عقیدوں کے گہرے سائے ہیں . وہ ان سایوں کی موجودگی میں چاہنے کے باوجود بھی سائے سے بڑے نہیں ہو سکتے . عقیدت اور تقدس کے جامے اور عمامے اتنے بلند ہیں کہ بڑے بڑے ذہن ان کے بوجھ تلے دب گئے .
یورپ چار سو سال لڑجھگڑ کر اب سمجھ گیا ہے تاہم ہم چودہ سو برس سے نہیں سمجھ سکے کیونکہ ہم میں اس سطح کا بڑا دماغ پیدا ہی نہیں ہو سکا جو ہمیں تاریخ کی گھٹا ٹوپ اندھیری اور گنجلک وادیوں سے نکال کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرتا . یورپ نے مشترکا کرنسی یورو، مشترکا ویزہ شنجن ، مشترکا فوج ناٹو بنا لی . سرحدیں کھول دیں . ایک دوسرے کے علم سے استفادہ کیا لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اس علم کو ہاتھ لگایا تو ہم ناپاک ہو جائیں گے . ہم غلامی اور ذہنی و فکری پسماندگی کے گٹر میں ہنسی خوشی زندہ تھے لیکن اس گٹر نے اب ابلنا شروع ہو گیا.
احمد جاوید صاحب نے ایک بار کہا تھا کہ "دنیا بھر میں سب سے زیادہ پسماندہ ذہن مذہبی ذہن ہے اور سب سے زیادہ سخت دل مذہبی دل ہے ۔ اس ذہن کا معیار اتنا پست ہے کہ انہیں یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ بات کیا ہورہی ہے . ان میں نیا لفظ ، نئی فکر سیکھنے کی طلب ہی نہیں ہوتی اور یہ ذہن اور فکر میں ترقی کو دینی تقاضہ ہی نہیں سمجھتا ”
پاکستان کو اگر ہم ایک ترقی یافتہ ملک بنانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ریاست کی الجھی زلفوں کو ایک بار پھر سنوارنے کی ضرورت ہے . اس کی جڑوں میں اتنی جوئیں پڑ چکی ہیں کہ سارا صاف خون نچوڑ لے گئی ہیں . اسے اب نئے خون کی ضرورت ہے . اسے حالات کی گردش میں تیار شدہ بیانیوں کی نہیں بلکہ تحقیق اور علم کی روشنی میں اپنا مستقبل طے کرنے کی ضرورت ہے .
میرے سامنے کئی صفحات کھلے ہیں . فوج اور حکومت کو ایک پیج پر دیکھتا ہوں تو بہت خوشی ہوتی ہے . مدارس اور مذہبی جماعتوں کو ایک پیج پر دیکھتا ہوں تو روحانی خوشی ہوتی ہے .مختلف ممالک اور ان کی لابیز کو ایک پیج پر دیکھتا ہوں تو مفاداتی خوشی ہوتی ہے لیکن وہ پیج جس نے اس ملک کا مستقبل طے کرنا ہے ، جس نے اس بات کا تعین کرنا ہے کہ کیا اس طرح ہم آگے بڑھ سکتے ہیں . بہت افسردہ ہو جاتا ہوں جب دیکھتا ہوں کہ کتاب کا یہ اہم ترین صفحہ خالی ہے اور کوئی اس پر بات بھی نہیں کرتا .
[pullquote]بشکریہ تجزیات آن لائین[/pullquote]