وہ 1998میں برطانیہ میں جلاوطنی کے دوران گمنامی کی موت مرا لیکن ٹھیک20 سال بعد20 مارچ2019 کو اسکی شبیہ اسلام آباد میں نیب کی عمارت کے سامنے موجود تھی۔۔ 60 کی دہائی میں گارڈن کالج کا طالبعلم تھا۔ وہیں سے اسکا نام صفدر ہمدانی سے چاچا صفدر ہمدانی پڑا جو مرتے دم تک اسکی شناخت رہا۔ گارڈن کالج کے بعد اسکا رخ قائد اعظم یونیورسٹی تھا۔ ابتدا میں اسکا زیادہ تعلق سیاست کی بجائے سماج سے تھا رجحان مگر پیپلزپارٹی کی جانب تھا۔ وہ نئے پرانے طالبعلموں کا "چاچا” تھا۔ جب بھٹو کااقتدار آخری دنوں میں بحرانوں کے بھنور میں پھنساتو چاچا صفدر ہمدانی کمر باندھ کر بھٹو کے دفاع میں میدان میں اترا۔ جب جنرل ضیا الحق نےاقتدار پر قبضہ کیا تو صفدرہمدانی بھٹو خاندان کے مزیدقریب ہوگیا۔
کتابوں اور انقلاب کے نعرے سے مسحورآدرشوں کا پیچھا کرتا یہ نوجوان جلد ہی اپنی متحرک شخصیت کے باعث پیپلزپارٹی کے برے دنوں میں ایک اچھی شناخت بن گیا۔ ضیا الحق سے بدلہ لینے کے لیے مرتضی بھٹو نے الذوالفقار نامی تنظیم بنائی جس کا مقصد ہر قانونی و غیر قانونی طریقے سے بھٹو کی رہائی تھا۔ اس تنظیم سے وابستہ کراچی یونیورسٹی کے ایک طالبعلم ٹیپو نے کراچی سے پی آئی اے کا طیارہ اغوا کیا اور اسے افغانستان لے گیا۔ اس واقعے کے بعد جنرل ضیا کی حکومت نے پاکستان میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی پکڑدھکڑ شروع کی تو نوجوان صفدر ہمدانی چپکے سے افغانستان چلا گیا۔ وہاں کچھ عرصہ قیام کے بعد اس نے برطانیہ کا رخ کیا اورپھر لندن کو اپنا مسکن بنا لیا۔
لندن میں ینگ مین کرسچن ہاسٹل چاچا صفدر ہمدانی کی قیام گاہ بنا۔ ان دنوں نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو بھی برطانیہ پہنچ چکی تھیں یہاں ان کی چاچا صفدر ہمدانی سے قربت ذاتی دوستی اور تعلق میں بدل گئی۔ لندن میں پاکستان سے سیاسی بنیادوں پر نکلے اکثر کارکن چاچا صفدر ہمدانی کے مہمان ہوتے۔ بے نظیر بھٹو اقتدار میں آئیں تو چاچا صفدر ان سے دور ہوگئے۔ ان کے خیال میں بے نظیر نے "کمپرومائز” کرلیا تھا۔ چاچا صفدر جلاوطن ہوکر لندن گئے تھے مگر اب انکا دل پاکستان سے اچاٹ ہوگیا تھا۔ وہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔
یہ1996 کی بات ہے کہ سابق اسپیکر قومی اسمبلی حاجی نواز کھوکھر نے اپنے نوجوان کھلنڈرے بیٹے مصطفی کو برطانیہ جانے کا حکم دیا اور بتایا کہ اب تعلیم کا سلسلہ وہیں سے شروع ہوگا۔ مصطفی کو بتایا گیا کہ ائیرپورٹ پر اسے ایک شخص ملے گا جو اسکی رہائش اور داخلے کے تمام انتظامات کرے گا۔ نوجوان لڑکا لندن اترا تو ائیرپورٹ پر ایک ادھیڑ عمر شخص اسکا استقبال کررہاتھا۔ یہ شخص چاچا صفدر تھا۔ وہی چاچا صفدر جو طالبعلم سیاست سے ، روپوشی اور جلاوطنی میں رہ کر سیاسی تحریکیں چلانے کے فن میں یکتا تھا۔ چا چا صفدر نے نوجوان مصطفی کی آئو بھگت کی اور سیاسی تربیت کے آغاز میں ” مارکسزم سے بھٹو تک ” کتاب ہاتھ میں تھما دی۔ نوجوان کو چاچا صفدر نے مصطفیٰ نواز کھوکھر بنا دیا وہ دو سال تک چاچا صفدر ہمدانی کا مہمان رہا ۔1998 میں چاچا صفدر چل بسا۔ وہ مرا تو بے نظیر بھٹو تعزیت کے لیے راولپنڈی اس کے گھر بھی گئیں۔
وقت کی دھول نے چاچا صفدر کے نام پر مٹی ڈال دی ، لوگ اسے بھول گئے۔ اسکا نام لیوا کوئی نہ تھا۔ شادی وادی کی نہیں تھی کہ اولاد ہی والد کا نام زندہ رکھتی۔ سنا ہے اس کے خاندان کے افراد راولپنڈی میں زندگی گزار رہے ہیں۔ مگر اسکا شاگرد مصطفیٰ نواز کھوکھر پیپلزپارٹی کا سینیٹر بن گیا۔ 20مارچ کو میں بھی نیب کے پرانے ہیڈکوارٹرز کی عمارت کے سامنے موجود تھا۔ وہاں پیپلزپارٹی کے رہنما اور سینٹ میں انسانی حقوق کمیٹی کے سربراہ سینیٹر مصطفی نواز پارٹی کارکنوں کے ہمراہ آئے۔ یہ تمام لوگ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی نیب پیشی کے موقع پر ان کا استقبال کرنے پہنچے تھے۔ راولپنڈی اور اسلام آباد کے مختلف علاقوں سے پیپلزپارٹی کےنوجوان ، ادھیڑ عمر اور عمر رسیدہ جیالے اکٹھے ہورہے تھے۔
یہ تمام لوگ نیب دروازے پر اکٹھے ہوئے تو اچانک اسلام آباد انتظامیہ کے ایک افسر نے ان کارکنوں کی گرفتاری اور لاٹھی چارج کا حکم دے دیا۔ دھکم پیل اور گرفتاریاں شروع ہوئیں تو میں نے دیکھا کہ عام طور پر ٹھنڈے مزاج کا نوجوان سینیٹر مصطفی نواز شدید غصے میں آگیا۔ اسے بتایا گیا تھا کہ مختلف ناکوں پر اسکی جماعت کے کارکنوں کو گرفتار کیا جارہا ہے۔ اس کی موجودگی میں گرفتاریاں شروع ہوئیں تو وہ کارکنوں کے ساتھ جاکھڑا ہوا۔ اس نے آواز دی "احتجاج ہمارا حق ہے "۔ پھر اس نے دیکھا کہ ایک پولیس اہلکار ایک پارٹی ورکر کو گھسیٹ کر لے جارہا ہے۔ مصطفی نواز اس پولیس آفیسر کی طرف بڑھا اور دھکا دیتے ہوئے اپنے پارٹی کارکن کو چھڑایا۔ یہ اقدام کوئی احسن قدم نہیں تھا۔ مگر اس اقدام نے پارٹی ورکروں کو چارج کردیا۔ ایسے کہ جیسے انہیں کرنٹ لگ گیا ہو۔
انتظامیہ نے حالات کو سمجھتے ہوِئے مزید گرفتاریوں کا سلسلہ روکا تو تھوڑی دیر میں آصف زرداری اور بلاول بھٹو کی گاڑیاں نیب عمارت کے اندر داخل ہوئیں۔ جب تک وہ باہر نہیں نکلے نیب عمارت کے باہر نعرے بازی ہوتی رہی۔ پیپلز پارٹی کے کارکن کسی کو برداشت ہی نہیں کررہے تھے ایسے ہی جذبات میں جیو نیوز کے سینئر کیمرہ مین شیراز گردیزی کو بھی تشدد کا نشانہ بنا دیا گیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ پیپلز پارٹی کے کارکن آخری بار سال2007 میں افتخار چوہدری کی برطرفی کے خلاف اور پھر بے نظیر بھٹو کے لیے گھروں سے نکلے تھے۔ اس کے بعد تو آج تک پیپلز پارٹی کا کارکن سو گیا ہو جیسے۔۔۔ عمارت کے باہر حیران کن طور پر پارٹی کارکن یااللہ یارسول بے نظیر کا بیٹا بے قصور کے نعرے لگارہے تھے۔
نیب کی تحقیقات تواپنی جگہ چل رہی ہیں۔ ایک طاقتور شخصیت کا اپنے اکثر ملاقاتیوں سے کہنا ہے کہ ،آصف زرداری کو کسی صورت نہیں چھوڑا جائے گا ،۔ زرداری کی گرفتاری پکی ہے۔ مگر 20مارچ کو نیب عمارت کے باہر جسطرح مصطفی نواز اور پیپلزپارٹی کے کارکنوں نے پیپلز پارٹی کے دم توڑتے جسم میں جان ڈالی۔ ہم سمجھ گئے کہ زرداری کی گرفتاری بلاول بھٹو اور پیپلز پارٹی کی مضبوطی کی صورت نکلے گی۔ مجھے پتہ چلا ہے کہ اگر بلاول بھی گرفتارکر لئےگئے تو آصفہ بھٹو میدان سیاست میں عوام کے سامنے ہوگی۔
آصف زرداری اور بلاول واپس روانہ ہوئے تو بلاول بھٹو نادرا چوک میں اپنی گاڑی کی چھت پر نکل آئے اور خطاب شروع کردیا۔ ہم سب حیران تھے کہ ایک نوجوان جسکی ماں ایسے ہی کارکنوں کو دیکھ کر خطاب کے لیے نکلی اور ماردی گئی وہ کس طرح بلاخوف گاڑی سے سرعام نکل کر خطاب کررہا ہے۔
میں دفتر آیا تو یہاں جیو کے رانا جواد ، معروف اینکرو صحافی حامد میر ، پروڈیوسر مدثر سعید ، پیپلزپارٹی کی کوریج کرنے والے رپورٹر وقارستی سب اکٹھے ہوگئے۔ پیشی کے ماحول اور اس حوالے سے مختلف پہلوئوں پر گپ شپ ہونے لگی تو باتوں باتوں میں مصطفی نواز کا ذکر آگیا حامد میر بولے، جوبھی ہو آج مصطفی نواز نے ثابت کیا ہے کہ وہ چاچا صفدر ہمدانی کا اصل شاگرد ہے۔
سچ یہ ہے کہ نیب کی پیشی کے موقع پر پیپلز پارٹی کو دوبارہ زندہ کرنے اور کارکنوں کو تحریک دینے میں مصطفی نواز نے بڑا کام کیا ہے۔ اس پر قانون ہاتھ میں لینے کا مقدمہ درج ہوچکا۔ فیصلہ عدالتیں کریں گی۔ مگر اس نوجوان نے اپنے استاد صفدر ہمدانی کی شاگردی کا حق ادا کیا ہے۔