آج سے تقریباً تین ماہ قبل میرے ایک کاروباری دوست نے Whatsappفون کے ذریعے ’’خبر‘‘ دی کہ اسد عمر کو وزارتِ خزانہ سے ہٹایا جا رہا ہے۔ میرا یہ دوست سیاست میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتا۔ تحریک انصاف کو ووٹ البتہ دیتا رہا۔ نواز حکومت سے وہ بنیادی طورپر اس وجہ سے ناراض رہا کہ اس کا دھندا برآمدات کی بدولت چمکا تھا۔ اس کی دانست میں اسحاق ڈار نے پاکستانی روپے کی قدر امریکی ڈالر کے مقابلے میں مستحکم رکھتے ہوئے اس کے دھندے کو ’’برباد‘‘ کردیا۔
موصوف سے گفتگوکرتے ہوئے میں اس کی دی ’’خبر‘‘ کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے اسد عمر سے اس کی خفگی کا چسکہ لیتا رہا۔ چند ہی روز بعد وزیر خزانہ نے ایک اور ’’منی بجٹ‘‘ پیش کردیا۔ اسے ’’ریلیف پیکیج‘‘ کا نام دیا گیا۔ دعویٰ ہوا کہ یہ پیکیج کاروباری لوگوں کو سرمایہ کاری پر اُکسائے گا۔ معاشی میدان میں رونق لگنا شروع ہوجائے گی۔اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں بھاری بھر کم موجودگی کے باوجود اس پیکیج کو جارحانہ تنقید کا نشانہ نہیں بنایا۔ شہباز شریف اس پر بحث کی ابتداء کا حق استعمال کرنے ایوان میں تشریف ہی نہ لائے۔ میں نے طے کرلیا کہ اسد عمر ’’بچ‘‘ گئے ہیں۔
اس پیکیج کی منظوری کے دو ہفتے بعد لیکن مجھے تین معتبر اور باخبر لوگوں نے جو سرکار کی جانب سے بنائی معاشی پالیسیوں کے اطلاق سے جڑے معاملات پر نگاہ رکھتے ہیں یکے بعد دیگرے یہ ’’خبر‘‘ دی کہ ماضی میں کچھ مہینوں کے لئے وزیر خزانہ رہے شوکت ترین سے رابطے ہوئے ہیں۔ انہیں باقاعدہ ’’مشیر‘‘ بنانے کی پیش کش ہوئی ہے۔ ترین صاحب مگر تیار نہیں ہو رہے۔ اس کے بعد اطلاع یہ بھی ملی کہ پیپلز پارٹی کے دور میں کافی عرصہ وزیر خزانہ رہے ڈاکٹر حفیظ شیخ سے بھی رابطے ہو رہے ہیں۔
مجھے حفیظ شیخ سے رابطوں کی اطلاع زیادہ اہم لگی کیونکہ آصف علی زرداری ان کی پالیسیوں کے ذاتی ملاقاتوں میں ایک مؤثر صدر ہوتے ہوئے بھی بہت ناقد سنائی دیا کرتے تھے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین کو گلہ رہا کہ ان کا وزیر خزانہ ہر معاملے کو ’’ٹیکنوکریٹ‘‘ کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ IMF اور ورلڈ بینک کی تجاویز کو غور سے سنتا ہے۔ یہ حقیقت یاد نہیں رکھتا کہ ووٹوں کی محتاج سیاسی حکومتوں کو معاشی پالیسیاں بناتے ہوئے چند ’’سمجھوتے‘‘ کرنا ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر حفیظ شیخ کی ’’مہارت‘‘ کا ادراک رکھتے ہوئے بھی البتہ میں یہ سمجھ نہیں پایا کہ وہ اسد عمر کا متبادل کیسے ہوسکتے ہیں۔ اپنا منصب سنبھالنے کے بعد اسد عمر نے اپنی وزارت بھی ایک ’’ٹیکنوکریٹ‘‘ ہی کے طور پر چلائی ہے۔ انہیں خبر تھی کہ بالآخر عمران خان کو بیل آئوٹ پیکیج کے لئے IMFسے رجوع کرنا ہو گا۔ اسد عمر نے کمال مہارت سے IMFسے کوئی رقم لئے بغیر ہی بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا۔ Non Filersکو پراپرٹی کے دھندے سے باہر دھکیلتے ہوئے اس شعبے میں مندی کا رحجان برقرار رکھا۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ ان ہی پالیسیوں پر گامزن رہیں گے۔ انہیں مگر وہ حمایت دستیاب نہیں ہوگی جو تحریک انصاف کا متحرک رکن ہوتے ہوئے اسد عمر کو میسر رہی ہے۔
قومی اسمبلی میں اس حکومت کے دفاع میں وہ دھواں دھار تقاریر جھاڑتے رہتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کو اپنی جماعت میں سے ’’نرکا بچہ‘‘ دکھاتے ہوئے چڑاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہ نما کی جانب سے انگریزی میں ہوئی تقاریر کا مذاق اڑاتے ہیں۔ بلاول کے ساتھ بھٹو کے لاحقے کا تمسخر اڑاتے ہوئے پیپلز پارٹی کے ناقدین کو خوش رکھتے ہیں۔ عمران خان جب بھی ایوان میں آئے اپنے وزیر خزانہ کی تقاریر سے بہت لطف اندوز ہوئے۔ کئی بار ڈیسک بجاکر تحسین ادا کرنے میں پیش قدمی کی۔ ’’اندر کی خبر‘‘ نہ رکھتے ہوئے بھی میرے اندر موجود رپورٹر نے اسد عمر کی فراغت کی افواہوں کو لہٰذا سنجیدگی سے نہیں لیا۔
پیر کی صبح مگر ان کی فراغت کی خبر Breaking Newsبن گئی۔ اس ’’خبر‘‘ کی تردید کے لئے وزیر اطلاعات چودھری فواد کو وزیراعظم سے گفتگو کا حوالہ دینا پڑا۔ اسد عمر حال ہی میں واشنگٹن سے وطن واپس لوٹے ہیں۔ امریکی دارالحکومت میں اپنے قیام کے دوران ان کی IMFکے نمائندوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ توقع باندھی جا رہی ہے کہ ان ملاقاتوں کے بعد پاکستان کو آئندہ مالی سال کے بجٹ کی تیاری میں آسانی کے لئے بیل آئوٹ پیکیج مل جائے گا۔
کہا جاتا ہے کہ حالت جنگ میں سپہ سالار تبدیل نہیں کئے جاتے۔ IMFسے مذاکرات کا عمل کئی مہینوں سے جاری ہے۔ معاملات اب کسی حتمی معاہدے کی جانب بڑھتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ حتمی معاہدے سے قبل اگر وزیر خزانہ تبدیل ہوا تو شاید IMFسے کئی معاملات پر ازسرنو گفتگو کا آغاز کرنا پڑے گا۔ اس صور ت میں آئندہ مالی سال کا بجٹ IMFسے ملے کسی پیکیج کے بغیر ہی بنانا پڑے گا۔ فرض کیا متوقع وزیر خزانہ اسد عمر کی جانب سے طے کی باتوں پر من وعن عمل کرنے کو تیار بھی ہو تو IMFکو اس کی "Commitment”اور موجودہ حکومت میں ’’اہمیت‘‘ کو سمجھنے میں وقت درکار ہوگا۔
امریکہ سے وطن لوٹتے ہی اسد عمر کی وزارتِ خزانہ سے ’’فراغت‘‘ IMFکو یہ پیغام بھی دے سکتی تھی کہ عمران حکومت اس ادارے کی جانب سے عائد شرائط پر عملد درآمد کو تیار نہیں۔ اسد عمر کو شاید یہ ’’شرائط‘‘ مان لینے کی وجہ سے بطور سزا ان کے منصب سے ہٹادیا گیا ہے۔ یہ پہلو نظر میں رکھتے ہوئے میں اسد عمر کی ’’فراغت‘‘ والی’’خبر‘‘ کو سنجیدگی سے لینے کو تیار نہیں ہوا۔ فی الوقت میرا رویہ اس ضمن میں درست ہی محسوس ہورہا ہے۔
حکومت کی پہلی ترجیح میری دانست میں فی الوقت ایک اور ایمنسٹی سکیم متعارف کرواتے ہوئے مالیاتی خسارے کو کم سے کم کرنا ہے۔ اسد عمر نے وہ سکیم تیار کر لی ہے۔ گویا اعتماد کا ووٹ مل جائے گا۔ اعتماد کا یہ اظہار اس امرکا اعلان ہو گا کہ آئندہ مالی سال کا بجٹ بھی وہی تیار کریں گے اور اسے قومی اسمبلی سے منظور کروانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔
نئے بجٹ کی منظوری کے بعد کیا ہوگا اس کے بارے میں قیاس آرائی سے گریز کررہا ہوں۔ یہ بجٹ لیکن ناقابلِ برداشت محسوس ہوا اور اس کی وجہ سے ہنگامے وغیرہ پھوٹ پڑے تو اسد عمر قربانی کا مہرہ ضرور بن سکتے ہیں۔ فی الوقت ان کی ’’فراغت‘‘ کے ٹھوس امکانات مجھ جیسے رپورٹر سے قیافہ شناس ہوئے افراد کو نظر نہیں آرہے۔