خلط مبحث

مورخ ٹائن بی نے سچ کہا تھا: برصغیر کی ہولناک قدامت پسندی‘ خلط مبحث اور قدامت پسندی۔ حقائق کا سامنا ہم کیوں نہیں کرتے؟فضول اور لایعنی چیزوں کے لیے ہمارے پاس کتنا بے شمار وقت ہے۔ بنیادی اور اہم سوالات کے لیے کتنی کم فرصت!

ہمہ وقت کسی معجزے کے انتظار میں۔ کہیں سے کوئی نسخہ دستیاب ہو اور الجھی ہوئی زندگیاں سنورنے لگیں۔ کوئی لیڈر ابھرے اور کرامت دکھائے۔ اگر یہ بھی نہیں تو کوئی جنرل نمودار ہو اور ماضی کا تمام ملبہ صاف کر کے شاہراہ فراخ کر دے۔ کسی طرح کوئی غیبی مدد آ پہنچے۔ گیس اور تیل کے بہت سے کنویں دریافت ہو جائیں۔

ایسا نہیں ہوگا۔ ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ اقوام کی تقدیر کاوش سے بدلتی ہے‘ کرامات سے نہیں۔ اس پہ غور کرنے کے لیے ہم کیوں آمادہ نہیں۔

ایک نہیں چار عدد مارشل لا ہم آزما چکے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے عہد میں صنعتی بنیادیں فراہم ہو گئیں۔ تیزی سے ترقی ‘مگر آخر کار کیا ہوا؟ آخر کو مشرقی پاکستان میں قوم پرستی کی تحریک تھی۔ مولانا عبدالحمید خان بھاشانی ”آگن آگن جالو—- آگ جلائو‘ آگ جلائو ‘‘کے نعرے لگا رہے تھے۔ شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات تھے۔ بلوچستان ناراض تھا۔ پختون خوا سمیت‘ چھوٹے صوبوں کے لیڈر‘ ون یونٹ پہ برہم تھے۔ آٹھ سال تک ایوب خان کی وکالت کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو نے اودھم مچا رکھا تھا۔

اس آدمی پر اعتبار سے ہم نے کیا پایا‘ جس کی خیرہ کن ذہانت سے بے کنار امیدیں وابستہ تھیں؟ صنعتوں کی بربادی‘ ذہانت اور سرمائے کا فرار۔ زنجیروں میں جکڑا پریس اور اس کے خوف زدہ حریف جو‘ اب اسی کے خون کے پیاسے تھے۔ ہاں! ہاں! اس نے کچھ کارنامے انجام دیئے ‘مگر وہ کس حال میں ملک کو چھوڑ کر گیا؟ اس کا اسلامی سوشلزم کا فلسفہ اس کی اولاد نے دفن کر ڈالا اور آج کوئی اس فکر کا نام لینے والا نہیں۔

کیااس کے حامیوں کو زیبا نہ تھا کہ نظرثانی فرماتے؟ خود ترسی میں آج تک وہ اس کا ماتم کرتے ہیں۔ مرنے والے کے نام پر جانشین بھیک مانگتے رہے؛حالاں کہ اس کی تمام پالیسیوں کو خیرباد کہہ دیا؟ مرنے والے ‘کیا قبروں سے رہنمائی کیا کرتے ہیں؟

پھر جنرل محمد ضیاء الحق تشریف لائے۔ اس وقت جب سارا ملک جل رہا تھا۔ یہ ناچیز ان لوگوں میں شامل نہیں‘ جو جنرل کو سماجی ساخت کی بربادی کا واحد ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ جذبات کے وفور میں کوئی اس پر اعتبار کرے یا نہ کرے‘ ہرگز ہرگز وہ امریکہ کے کارندہ نہ تھے‘ اگر ایسا ہوتا تو انکل سام پاکستان کی امداد کیوں بند کرتا۔ افغانستان میں سرخ فوج کی یلغار کے بعد جو بحال ہوئی۔اگر ایسا ہوتا تو ایٹمی پروگرام وہ کیوں برقرار رکھتا۔ اس کے عہد میں اسی آن بان سے جو جاری رہا اور مکمل ہوا۔

جنرل کے بعض تصّورات بے حد ناقص تھے‘ مثلاً فرقہ پرست مذہبی طبقات کی فراخ دلانہ سرپرستی۔ تھپکی نے انہیں بے قابو کیا اور آج تک بے قابو ہیں۔ اس کا طرزِ حکومت اور بدعنوان سیاستدانوں کی پشت پناہی۔ آج تک جس کے نتائج ہم بھگت رہے ہیں۔ با ایں ہمہ ذاتی زندگی میں وہ ایک دیانت دار آدمی تھا۔ آخر شب جاگنے اور سربسجود ہونے والا۔ وہ کوئی جائیداد چھوڑ کر نہ گیا۔ اپنی زندگی میں اس نے اپنی اولاد کو فروغ دینے کی قطعاً کوئی کوشش نہ کی۔ ”عہدِ فخرِ ایشیا‘‘ کے زیاں کا تدارک نہ ہو سکا‘لیکن ایک بار پھر ملک معاشی طور پہ استوار ہونے لگا۔ صنعتوں کا پہیہ حرکت میں آ گیا‘ گرانی پہ گرفت رہی اور غربت کم ہونے لگی۔
مگر انجام کار کیا ہوا؟

اپنے پیچھے وہ میاں محمد نواز شریف اور بے نظیر بھٹو چھوڑ گیا۔ دو عشروں تک جن کی آویزش جاری رہی اور ایک اعتبار سے اب بھی جاری ہے۔ ڈٹ کر دونوں خاندانوں نے ملک کو نچوڑا‘ جتنا کہ وہ نچوڑ سکتے۔ ہمہ مقتدر ہونے کے باوجود اس طرح کا سیاسی ماحول کہ مدّتوں جس میں ملک قرار آشنا ہو نہ سکا۔

ہوسِ اقتدار ایسی کہ مخالفین پہ کوڑے برسائے گئے۔ اخبارات پہ سنسر شپ مسلّط کر دی گئی۔ آج اس کی سیاسی اور صحافتی بیوائیں بھی مرنے والے کا مقدمہ لڑنے پر آمادہ نہیں۔ مجھ ایسے خال خال ہیں‘ جو کبھی اس کے روشن پہلو کی طرف اشارہ کرنے کی جسارت کرتے ہیں۔ باقی سب اس جمہوریت کے وکیل‘ جس نے ملک کو برباد کر کے رکھ دیا۔ جس کے شجر پہ ثمر کبھی نمودار نہ ہوا۔

جی ہاں‘ بیچ میں آغا محمد یحییٰ خان آئے‘ جن سے بہت سوں نے امیدیں وابستہ کر لیں۔ جس آدمی کو خود اپنا ہوش نہ تھا‘ یہ توقع اس سے باندھی کہ بگڑتے اور بکھرے ہوئے وطن کو وہ سنبھال سکے گا۔ اقتدار کے لیے اس کے پاگل پن نے ملک ہی توڑ ڈالا۔ دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں نے اس کی مدد کی‘ دونوں مقبول لیڈروں نے۔ اس لیے کہ قوم کی پیٹھ پر سواری کرنے کے لیے وہ کم بے تاب نہ تھے۔

جنون کے مارے ان تینوں طاقتوروں نے جو کیا‘ سو کیا۔ باقی لوگ کہاں تھے؟ سیّد ابوالاعلیٰ مودودی اور باچا خان کے پیروکار‘ حضرت مولانا مفتی محمود کے ماننے والے۔ اگر اسلام آباد اور ڈھاکہ میں ڈٹ کر وہ بیٹھ جاتے تو کیا یہ خونیں واقعات آسانی سے رونما ہو سکتے؟ اپنی قوم کے خمیر میں‘ جن سے شاید ہمیشہ کے لیے شکست خوردگی کاشت ہوئی۔

کسی ایک کا نہیں‘ یہ سبھی کا رونا ہے۔ کسی ڈکٹیٹر کے گرد مذہبی لوگ جمع ہو جاتے ہیں‘ کسی کے ساتھ ترقی پسند صف آرا۔ جنرل ایوب خان کا اپنا ایک ماڈرن اسلام تھا‘ جنرل ضیاء الحق کا اپنا ایک الگ قدیم مذہب۔ جنرل مشرف آئے تو این جی اوز کی چاندی ہو گئی۔ ایک ایسے طبقے نے جنم لیا‘ جس کے بارے میں کہا نہیں جا سکتا کہ اس کی وفاداریاں کس کے ساتھ ہیں۔اس کا نظریہ کیا ہے‘ منزل کیا۔
ہمیشہ ہم ایک ڈنگ ٹپائو نسخے کی طرف لپکتے رہے۔ مستقل لائحہ عمل کی طرف کبھی نہیں۔

بدھ کے اخبارات اٹھا کر دیکھئے۔ شیر شاہ سوری جناب شہباز شریف کا فرمان یہ ہے کہ سرکاری اور غیر سرکاری ملازمین کی کم از کم تنخواہ اٹھارہ ہزار روپے مقرر کی جائے۔ تین ہزار فی کس اضافہ کر دیا جائے۔ بجا ارشاد‘ غریب آدمی کا ہاتھ تھامنا چاہیے۔ اصل مسئلہ ‘مگر مہنگائی ہے یا تنخواہوں میں اضافہ؟ آپ کے تیس برس کے تجربے کا نچوڑ کیا یہی ہے کہ شعبدہ بازی کا مظاہرہ فرماتے رہیں۔

نیب کے تفتیش کرنے والوں نے جناب حمزہ شہباز سے پوچھا کہ ان کے اثاثوں میں غیر معمولی اضافہ کیسے ہوا؟ موصوف کا جواب یہ ہے کہ منی لانڈرنگ ثابت نہ ہوئی تو عمران خان کو قوم سے معافی مانگنا ہوگی۔ فرمایا کہ عدالت کی پیشی صرف نواز شریف‘ شہباز شریف‘ بلاول بھٹو اور وہ بھگت رہے ہیں۔ باقیوں نے کیا سلیمانی ٹوپی پہن رکھی ہے۔ جہانگیر ترین اور پشاور میٹرو والوں سے باز پرس کیوں نہیں۔ ارے بھائی‘ آپ بتائیے کہ دولت کے یہ انبار آپ کے پاس کہاں سے آئے۔ جہانگیر ترین اور میٹرو والوں پہ سنگین سوالات اگر ہیں تو جواب انہیں دینا ہوگا۔ ان کی خطا پہ آپ کا کارنامہ کیسے فراموش کر دیا جائے۔

جناب زرداری فرماتے ہیں کہ صدارتی نظام وہ نافذ نہ ہونے دیں گے۔ جناب والا کون سا صدارتی نظام؟ یہ تو محض ایک نظری بحث ہے‘ خود حکومتی ترجمان تردید کر چکے۔ نہ بھی کریں تو سب جانتے ہیں کہ یہ ممکن ہی نہیں۔ حکومت اور اس کے سرپرست معمول کی قانون سازی نہیں کر سکتے۔ پورے کا پورا نظام کیسے وہ بدل ڈالیں گے؟
کبھی اٹھارہویں ترمیم‘ کبھی سندھ کی خود مختاری کا سوال اور کبھی صدارتی نظام۔ کیا یہ ملک کو در پیش بنیادی سوالات ہیں؟

ایک سوال میڈیا سے بھی۔ ایسے عنوانات میں ہم کیوںالجھتے ہیں‘ جن کا قوم کے دکھ درد سے حقیقی تعلق کوئی نہیں۔ جو ہمارے آج اور کل کو سنوار سکتے ہیں‘ نہ بگاڑ سکتے ہیں۔ اس خلط مبحث سے ہم کس کی مدد کرتے ہیں؟
مورخ ٹائن بی نے سچ کہا تھا: برصغیر کی ہولناک قدامت پسندی‘ خلط مبحث اور قدامت پسندی۔ حقائق کا سامنا ہم کیوں نہیں کرتے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے