کل ( بائیس اپریل) عالمی یومِ ارض منایا گیا۔ ماحولیاتی تباہی کے دہانے پر کھڑے دنیا کے دس سب سے متاثر ممالک میں شامل پاکستان میں بھی کیا یہ دن سرکاری و غیر سرکاری سطح پر منایا گیا؟ شائد ہاں، شائد نہیں۔آگاہ فرما کے ثوابِ دارین حاصل کریں۔
ہم کرہِ ارض کے وسائل تو لاکھوں برس سے استعمال کر رہے ہیں مگر ان وسائل کا ضرورت کے بجائے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے لیے استعمال ابھی دو سو برس کے اندر کی ہی بات ہے۔ منافع خوری بغیر تسلط کے ممکن نہیں اور تسلط کی ہوس وہ آگ ہے جسے صرف قبر کی مٹی ہی بجھا سکتی ہے۔
ماحولیات کس پنچھی کا نام ہے؟ جن معنوں میں یہ اصطلاح آج برتی اور سمجھی جا رہی ہے اس برتاؤ کی عمر بھی ساٹھ برس سے زائد نہیں۔انیس سو پچاس کی دہائی تک امریکا میں کارخانے کی چمنی سے نکلنے والے دھوئیں کو ’’خوشحالی کی خوشبو‘‘ کہا اور سمجھا جاتا تھا۔
انیس سو باسٹھ میں ماحولیات کے جدید تصور اور مسائل کو اجاگر کرنے والی پہلی کتاب ’’سائلنٹ اسپرنگ‘‘ (خاموش بہار ) امریکا میں شایع ہوئی جس میں پہلی بار زندگی کی نشوونما کے لیے درکار عناصر، انسانی سرگرمیوں سے جنم لینے والی آلودگی اور اس آلودگی سے انسانی صحت و ترقی پر اثرات کا تعلق عام فہم انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی۔کچھ ہی عرصے میں ریچل کارسن کی اس کتاب کی پانچ لاکھ جلدیں اکیس ممالک میں فروخت ہو گئیں۔اس سے ثابت ہو گیا کہ ماحولیات خشک اور دقیق موضوع نہیں بلکہ عام آدمی اس کے بارے میں اور سننا چاہتا ہے۔
خاموش بہارکی اشاعت کے چھ برس بعد ( انیس سو اڑسٹھ ) امریکا میں جنگِ ویتنام کی لایعنیت محسوس کرتے ہوئے نوجوان طبقہ اٹھ کھڑا ہوا اور پھر یہ احتجاجی آگ یورپ تک پھیل گئی۔انسانی تاریخ میں پہلی بار اندھی قوم پرستی کی مزاحمت میں جنگ سے نفرت ظاہر کرنے کے لیے ایک منظم پرامن بین الاقوامی تحریک شروع ہوئی جس کی قیادت کسی تھکی ہوئی بوڑھی سیاسی نسل کے بجائے نوجوانوں کے ہاتھ میں تھی۔مغربی اسٹیبلشمنٹ اور ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس نے اس تحریک کے پیچھے بھی کیمونسٹوں اور سوویت ایجنٹوں کا ہاتھ ثابت کرنے کی کوشش کی مگر اس بار ان کی دال گل نہیں پائی۔
اس دوران انیس سو انہتر میں امریکی ریاست کیلی فورنیا کے علاقے سانتا باربرا کے ساحل پر ایک تیل بردار جہاز کو حادثہ پیش آیا اور ہزاروں ٹن خام تیل سطح سمندر پر پھیلنا شروع ہوا۔ایک امریکی سینیٹر گیلارڈ نیلسن نے سوچا کہ جو نوجوان اس وقت جنگ مخالف تحریک کا حصہ ہیں ان کا جوش ٹھنڈا پڑنے سے پہلے انھیں ماحولیات کے خلاف جاری جنگ کا حصہ کیوں نہیں بنایا جا سکتا۔
سینیٹر گیلارڈ نے اس معاملے پر ہم خیال ڈیموکریٹ اور ریپبلیکن ارکانِ کانگریس اور ہارورڈ یونیورسٹی کے چند ماہرین کو یکجا کیا اور فضائی و زمینی آلودگی کے اسباب کے تعین، صنعتی آلودگی، انسانی فضلے، تابکار کچرے ، زرعی ادویات ، جانوروں کی چراگاہوں کے تیزی سے خاتمے اور اس کے سبب جنگلی حیات کی تلفی روکنے کے لیے عوام سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔چند مہینے رائے عامہ کے سرکردہ لوگوں کو نیا تصور سمجھانے میں لگ گئے اور پھر بائیس اپریل انیس سو ستر کو امریکا کے طول و عرض میں لگ بھگ دو کروڑ عوام ریلیوں، پارکوں اور آڈیٹوریمز میں جمع ہوئے اور آلودگی سے پاک زندگی کے حق کی بحالی کا اجتماعی مطالبہ کیا۔
ماحولیاتی کاز میں عام آدمی کی پہلی بار شرکت کا یہ تجربہ اتنا موثر ثابت ہوا کہ اس کے فوراً بعد امریکا میں ماحولیاتی تحفظ کا پہلا وفاقی ادارہ قائم ہوا اور کانگریس نے صاف پانی اور ہوا کی دستیابی اور بقائی خطرے سے دوچار جنگلی حیات کے تحفظ کا ایکٹ منظور کیا۔گویا ماحولیات کا تحفظ ریاست کی ذمے داری قرار پایا۔ایسا پہلے نہیں ہوا تھا۔
اگلے انیس برس تک یومِ ارض امریکا میں ہی منایا جاتا رہا اور پھر سینیٹر گیلارڈ کی کوششوں سے قائم ارتھ ڈے نیٹ ورک نے دیگر ممالک میں متحرک ماحولیات دوست گروہوں کی مدد سے انیس سو نوے میں جو یومِ ارض منایا اس میں ایک سو اکتالیس ممالک کے دو ارب انسانوں تک ماحولیاتی بقا کا پیغام پہنچانے کی کوشش کی گئی اور ماحولیات کی بہتری میں ری سائیکلنگ کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا۔
دو برس بعد ( انیس سو بانوے ) اقوامِ متحدہ کے زیرِاہتمام برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں پہلی عالمی ارتھ کانفرنس منعقد ہوئی اور یوں ماحولیات کا بچاؤ عالمی ایجنڈے میں ترجیحاتی مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔اس نقشِ قدم سے ملینیم ڈیولپمنٹ گول کا تصور پیدا ہوا اور سن دو ہزار میں پہلی اور دو ہزار پندرہ میں دوسری ملینیم ڈیولپمنٹ گول کانفرنس منعقد ہوئی۔
عالمی ماحولیات کی تحریک کے لیے ٹرمپ کا امریکی صدر بننا ایک بری خبر تھی۔ٹرمپ نے انسانی بے اعتدالی کے سبب درجہ حرارت میں اضافے کے نظریے کو ہی امریکی ترقی سے حسد کی چینی لبرل سازش قرار دے کر رد کر دیا۔ ٹرمپ حکومت نہ صرف عالمی ماحولیاتی معاہدے کیوٹو پروٹوکول سے باہر نکل آئی بلکہ دو ہزار پندرہ میں پیرس میں ملینیم ڈیولپمنٹ گول کے تناظر میں صدر اوباما نے امریکا کی جانب سے جو وعدے کیے تھے ٹرمپ نے انھیں بھی طلاق دے دی۔یقین نہیں آتا کہ یہ وہی امریکا ہے جس نے ساٹھ برس پہلے ماحولیات کو لاحق بحرا ن کی جانب باقی دنیا کی توجہ مبذول کروانے کا کام سب سے پہلے شروع کیا تھا۔
مرے پے سوواں درہ یہ پڑا کہ گزشتہ برس برازیل میں انتہائی دائیں بازو کے رہنما جے بولسونارو صدر بن گئے۔وہ ماحولیات کی تباہی کے بارے میں ہونے والی ہر سائنسی تحقیق کو چند لبرل پاگلوں کا دیوانہ پن قرار دیتے ہیں۔ایسے شخص کا برسرِ اقتدار آنا اس لیے المناک ہے کہ دنیا کے سب سے بڑا استوائی جنگل ایمزون کا اسی فیصد رقبہ برازیل میں ہے اور ایمزون کو کرہِ ارض کے پھیپھڑے کہا جاتا ہے۔یہ پھیپھڑے بولسونارو کے آنے سے پہلے ہی تیزی سے سکڑ رہے تھے اب اگلے پانچ برس میں ان کا کیا حشر ہوگا۔جو بھی ہوگا اس کے اثرات ماحولیاتی تحفظ کے باب میں چنگیز خان اور ہٹلر کی نسل کشی سے ہزار گنا زائد ہوں گے۔وہ بے چارے توبس انسانوں کا گلا گھونٹتے تھے۔ جدید چنگیز خان تو انسانیت کا گلا گھونٹنے کے درپے ہیں۔
کل جو عالمی یومِ ارض دنیا کے ایک سو پچاسی ممالک میں منایا گیا اس کا موضوع جنگلی حیات کی بقا اور تحفظ تھا۔ جنگلی حیات کو جنگلات کے تیزی سے کٹاؤ کے نتیجے میں گھر سے محرومی، اسمگلنگ ، بے تحاشا صنعتی پیمانے پر شکار اور جان لیوا کیمیاوی آلودگی کا سامنا ہے۔ہر سال چرند و پرند کی کم ازکم پانچ اقسام مکمل معدوم ہو رہی ہیں۔گزشتہ برس آخری سفید گینڈا بھی کرہِ ارض سے رخصت ہوا۔ کیمیاوی آلودگی کے سبب کیڑے مکوڑوں اور حشرات الارض کی تعداد میں گزشتہ تین دہائیوں میں چالیس فیصد کمی ہوئی ہے۔
یہ کیڑے مکوڑے اور حشرات نہ صرف ساٹھ فیصد پرندوں کی خوراک ہیں بلکہ اسی فیصد پودوں کے بیج، رواں اور پھول بھی دور دراز تک پھیلانے کا زندگی بخش کام کرتے ہیں۔اگر کیڑے مکوڑے اور حشرات ختم ہو گئے تو پھر پرندے اور پودے بھی خود بخود مر جائیں گے اور ان پودوں اور پرندوں کو بطور غذا استعمال کرنے والے بڑے جانور بھی ختم ہو جائیں گے۔اور پھر موت ان سب سے فارغ ہو کر آخری وار مجھ پر اور آپ پر کرے گی اور ہماری نسل کو بچانے والا کوئی نہ ہوگا۔قدرت کا بھلے یہ منشا ہو نہ ہو البتہ انسان ضرور بزعم ِترقی اجتماعی خودکشی کی جانب مائل ہے۔