صرف بیس روپے کے لیے

موٹر سائیکل رکا‘ نوجوان نیچے اترا اور ’’ذوالفقار کون ہے؟‘‘ کا نعرہ لگادیا‘ ذوالفقار اٹھ کر سیدھا ہوا‘ نوجوان نے غصے سے کہا ’’لو پھر تم بیس روپے لے لو‘‘ ساتھ ہی پستول نکالا اور فائرنگ شروع کر دی‘ گولی ذوالفقار کے دل پر لگ گئی‘ نوجوان اطمینان سے موٹر سائیکل پر بیٹھا اور فرار ہو گیا‘دکان پر کام کرنے والے لڑکوں نے ذوالفقار کو اٹھایا اور اسپتال کی طرف دوڑ پڑے لیکن وہ راستے ہی میں دم توڑ گیا۔یہ ذوالفقار کون تھا؟ یہ ایک عام غریب شہری تھا‘ یہ لاہور کے بند روڈ پر ٹائروں میں پنکچر لگاتا تھا‘ پٹرول پمپ پر دکان تھی‘ تین بھائی ایک ہی دکان پر کام کرتے تھے۔

29 مارچ کی صبح سات بجے کوئی نوجوان موٹر سائیکل کو پنکچر لگوانے آیا‘ ذوالفقار نے ستر روپے مزدوری مانگی‘ نوجوان کا کہنا تھا ’’ پنکچر والے پچاس روپے لیتے ہیں‘ تم بیس روپے اضافی کیوں لے رہے ہو‘‘ ذوالفقار نے جواب دیا ’’ہم سترہی لیتے ہیں‘‘موٹرسائیکل سوار نے جواب دیا ’’میں پچاس ہی دیتا ہوں اور میں تمہیں بھی پچاس ہی دوں گا‘‘ دونوں کے درمیان تو تکار ہوئی اور بیس روپے کا تنازع جھگڑے میں تبدیل ہو گیا‘ موٹر سائیکل سوار نے ذوالفقار کو دھمکی دی اور چلا گیا‘ چھ دن بعد 4 اپریل کو شام کے وقت دوسرا نوجوان آیا‘ ذوالفقار کا پوچھا اور اسے گولی مار کر فرار ہو گیا۔

ذوالفقار کی عمر صرف 22 سال تھی‘ اس کی دوبہنیں اور دو بھائی ہیں‘ سال پہلے اس کی شادی ہوئی‘ وہ دو ماہ کے بیٹے کا باپ تھا‘ پورا خاندان کرائے کے مکان میں رہتا تھا اور پنکچر کی دکان خاندان کا واحد ’’سورس آف انکم‘‘ تھی لیکن یہ پورا خاندان 20 روپے کی وجہ سے تباہ ہو گیا‘ ذوالفقار جان سے چلا گیا‘ دوسرے دونوں بھائی بار بار تھانوں کا چکر لگا رہے ہیں اور مجرم اگر گرفتار ہو گیا تو یہ دونوں بھائی پنکچر کا کام چھوڑ کر کورٹ اور کچہریوں کے چکر لگائیں گے‘ سوال پیدا ہوتا ہے اس ساری تباہی کا ذمے دار کون ہے؟کیا 20 روپے اس کے ذمے دار ہیں؟جی نہیں!صرف بیس روپے اس کے ذمے دار نہیں ہیں‘ کیسے! آئیے ہم اس پر غور کرتے ہیں۔

ہم ہمیشہ ایسی کہانیوں میں مقتول کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں‘ ہم مقتول کو مظلوم بھی سمجھتے ہیں لیکن میرے ایک سیشن جج دوست کی رائے یکسرمختلف ہے‘یہ ہمیشہ مقتولوں کو اپنے قتل کا ذمے دار ٹھہراتے ہیں‘ان کا کہنا ہے ’’مجھے قتل کے مقدموں میں ہمیشہ مقتول قاتل سے زیادہ ظالم محسوس ہوا‘‘ یہ بات میرے لیے حیران کن تھی مگر جج صاحب کا کہنا تھا ’’قاتل یقینا ظالم ہوتے ہیں‘ یہ بعد ازاں اپنے ظلم کی سزابھی بھگتتے ہیں لیکن درحقیقت مقتول قاتل سے پہلے مرتا ہے‘ قدرت مقتول کو قاتل سے پہلے سزا دے دیتی ہے‘ کیوں؟ ہم نے کبھی سوچا!‘‘ جج صاحب کا کہنا تھا ’’میں نے اپنے کیریئر میں سیکڑوں لوگوں کو موت کی سزا سنائی۔

میں نے ہر سزا سے پہلے کیس کا تفصیلی مطالعہ کیا‘ میں اپنے مطالعے‘ مشاہدے اور تجزیے کی بنا پر اس نتیجے پر پہنچا ہوں‘ مقتول قاتل سے زیادہ ظالم ہوتا ہے‘ یہ اتنا ظالم ہوتا ہے کہ قاتل کے پاس اسے قتل کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچتا‘ مجھے زیادہ تر مقدموں کے پیچھے ایک فقرہ ملا‘ تم اگر اپنے باپ کے ہو تو مجھے گولی مار کر دکھاؤ اور قاتل خود کو اپنے باپ کا ثابت کرنے کے لیے گولی چلانے پر مجبور ہو گیا‘‘ جج صاحب کا کہنا تھا ’’میرا تجزیہ ہے قدرت پہلے مقتول کو ضد‘ بدزبانی اور طیش کی سزا دیتی ہے اور پھر قاتل کو قتل کی‘‘ ان کا کہنا تھا’’ مقتول میں اگر برداشت اور شائستگی کا مادہ ہو اور یہ اگر معاملہ فہم ہو تو یہ کبھی قتل نہ ہو‘‘میں ان کی بات سے اتفاق نہیں کرتا تھالیکن جب میں نے اخبار میں 20 روپے کی وجہ سے ذوالفقار کے قتل کی خبر پڑھی تو مجھے پہلی مرتبہ جج صاحب کی بات میں وزن محسوس ہوا‘میں سوچنے پر مجبور ہو گیا بیس روپے کے لیے قتل ہونا شاید اتنا مشکل نہیں تھا جتنا مشکل کسی انسان کو قتل کرنا ہوتا ہے اور قاتل نے یہ کام چھ دن بعد کیا۔

وہ اگر جھگڑے کے وقت ذوالفقار کو مار دیتا تو بات سمجھ آتی تھی مگر وہ چھ دن انتظار کرتا رہا‘ کیوں؟ مجھے محسوس ہوا قاتل چھ دن تکلیف میں رہا ہو گا‘ اس کا غصہ کم ہونے کے بجائے بڑھتا رہا ہو گا یہاں تک کہ وہ یا اس کا کوئی بھائی پستول لے کر اکیلا نکلا اور ذوالفقار کو اس کی دکان پر قتل کر دیا‘مجھے محسوس ہوا ذوالفقار کا قاتل کوئی نامعلوم شخص نہیں تھا‘ذوالفقار کا قاتل خودذوالفقار تھا‘ قدرت نے اسے اس سوچ کی سزا دی کہ یہ بیس روپے کے ایشو کو اس لیول پر کیوں لے آیا جہاں دوسرا شخص نارمل نہ رہے‘ وہ غصے سے ابل پڑے اور وہ چھ دن تک ابلتا رہے چنانچہ ذوالفقار کے قاتل بیس روپے نہیں تھے ذوالفقار خود تھا۔

آپ اس واقعے کو اب ذرا سا تبدیل کر کے دیکھیں‘ فرض کریں قاتل پنکچر لگوانے آیا‘ اس نے پنکچر لگوایا‘ ذوالفقار نے اس سے ستر روپے مانگے‘ قاتل نے اس سے کہا‘ میں ہمیشہ پچاس روپے میں پنکچر لگاتا ہوں‘ ذوالفقار نے شائستگی سے جواب دیا‘ میرے بھائی میں اچھا مٹیریل استعمال کرتا ہوں‘ دکان کا کرایہ بھی زیادہ ہے اور میں ساری رات دکان بھی کھلی رکھتا ہوںلہٰذا میرا ریٹ زیادہ ہے‘ قاتل اس کے جواب میں اکھڑ لہجے میں جواب دیتا ہے‘ نہیں! میں تو صرف پچاس روپے دوں گا‘ ذوالفقار شائستگی سے جواب دیتا ہے ’’سر ہم ستر روپے لیتے ہیں لیکن آپ اگر پچاس دینا چاہتے ہیں تو آپ یہ ہی دے دیں یا آپ کے پاس اگر بیس روپے نہیں ہیں تو آپ پھر کبھی دے جائیے گا یا پھر سر جیسے آپ کی مرضی‘‘ ذوالفقار کے جواب میں قاتل کیا کہتا؟ وہ یقینا پچاس روپے دے کر چلا جاتا اور یوں ذوالفقار کی جان بھی بچ جاتی اور اس کا خاندان بھی تباہی سے محفوظ رہ جاتا لیکن مجھے یقین ہے ذوالفقار بیس روپے پر ڈٹ گیا ہو گا اوریوں بیس روپے کا یہ معاملہ بہت جلد ’’تم اگر اپنے باپ کے ہو تو مجھے ہاتھ لگا کر دکھاؤ‘‘ تک پہنچ گیا ہو گا اور بیس روپے دو خاندانوں کو لے کر بیٹھ گئے ہوں گے۔

ذوالفقار کا خاندان تباہ ہو گیا اور قاتل کا خاندان اس کی گرفتاری کے بعد ذلیل اور رسوا ہو جائے گا‘ یہ بھی بھیک مانگ مانگ کر مقدمہ چلائے گا‘ ہم اس واقعے کو ایک اور زاویئے سے بھی دیکھ سکتے ہیں‘ ہم فرض کرتے ہیں قاتل پنکچر لگوانے کے لیے آیا‘ وہ ہمیشہ پنکچر کے پچاس روپے ادا کرتا تھا‘ ذوالفقار کی دکان کا ریٹ بھی پچاس روپے تھا لیکن ذوالفقار نے اس کی مجبوری کا فائدہ اٹھایا‘ یہ صبح سات بجے پنکچر شاپ پر پہنچا‘ پنکچر لگوایا اور ذوالفقار نے بیس روپے زیادہ مانگ لیے‘ یہ بلیک میلنگ تھی اور ہم میں سے تیس فیصد لوگ جان دے دیتے ہیں لیکن بلیک میل نہیں ہوتے‘ قاتل ان 30 فیصد لوگوں میں شمار ہوتا تھا‘ وہ ڈٹ گیا اور معاملہ ’’نوریٹرن‘‘ پر پہنچ گیا لیکن قاتل نے پھر جھگڑے کی کیلکولیشن کی‘ بیس روپے کو بیس روپے میں رکھ کر دیکھا اور سوچا میں بیس روپے کے لیے اپنا سارا دن خراب کروں گا‘ اس جاہل سے جھگڑا کروں گا‘ اس سے گتھم گتھا ہوں گا‘ اپنے کپڑے خراب کروں گا۔

یہ کہاں کی عقل مندی‘ یہ کہاں کی دانش مندی ہو گی چنانچہ اس نے ستر روپے نکالے‘ ذوالفقار کو دیے اور یہ سوچ کر وہاں سے روانہ ہو گیا یہ شخص بلیک میلر اور چیٹر ہے‘ میں آیندہ اس کی دکان پر نہیں آؤں گا اوریوں قاتل‘ قاتل بننے اور ذوالفقار قتل ہونے سے بچ گیا لیکن اس واقعے میں یہ دونوں آپشن فیل ہو گئے‘ ذوالفقار اور قاتل دونوں بیس روپے پر ڈٹ گئے چنانچہ میں سمجھتا ہوں یہ معاملہ بیس روپے کا نہیں تھا‘یہ عدم برداشت‘ ناشائستگی اور مس کیلکولیشن کا ایشو تھا اور ہم من حیث القوم ان تینوں علتوں کا شکار ہیں‘ ہم میں برداشت بالکل مفقود ہے‘ ہم معمولی باتوں پر خود بھی بھڑک اٹھتے ہیں اور دوسروں کو بھی بھڑکا دیتے ہیں‘ ہم بدتمیز اور ناشائستہ لوگ بھی ہیں‘ ہماری زبانیں کڑوی اور لہجے سخت ہوتے ہیں اور آپ یہ یاد رکھیں انسان لفظ برداشت کر جاتا ہے لیکن لہجہ اور انداز اس کو اندر سے چیر کر رکھ دیتا ہے۔

بیس روپے ایشو نہیں ہوتا لیکن دوسراشخص جس انداز‘ جس لہجے میں بیس روپے مانگتا ہے یہ انسان کو توڑ کر رکھ دیتا ہے‘ میں اکثر اپنے سیشنز میں لوگوں سے عرض کرتا ہوں ‘ہم لفظ بھول جاتے ہیں لیکن لہجوں کی نفرت پوری زندگی ہمارے اندر محفوظ رہتی ہے‘ ہم لوگوں کو معاف بھی کر دیتے ہیں لیکن ہم ان کے انداز اور لہجے کبھی نہیں بھولتے‘ ہم اگر صرف اپنا لہجہ‘ اپنا انداز ٹھیک کر لیں‘ ہم اپنے موقف پر ڈٹے رہیں مگر ہم شائستگی اور تہذیب کا دامن نہ چھوڑیں تو ہمارا اختلاف رائے کبھی جھگڑے یا تنازعے میں تبدیل نہ ہو‘ زبان دنیا کا مہلک ترین ہتھیار ہے‘ یہ ہتھیار پوری دنیا میں آگ لگا سکتا ہے‘ یہ کسی بھی نارمل شخص کو کسی بھی وقت قاتل اور مقتول بنا سکتا ہے اور زبان خاندانوں کے خاندان اجاڑ دیتی ہے لیکن ہم میں سے کوئی شخص زبان جیسے مہلک ہتھیار کے استعمال کی ٹریننگ نہیں لیتا‘ ہم نے اسے کھلا چھوڑ رکھا ہے لہٰذا زبان دنیا میں آگ لگاتی چلی جا رہی ہے اور ہماری آخری علت کیلکولیشن ہے۔

ہم میں سے کوئی شخص اپنے دن‘ اپنے موڈ‘ اپنی صحت اور اپنی زندگی کی کیلکولیشن نہیں کرتا‘ کیا ہماری زندگی کی قیمت محض 20 روپے ہے‘ کیا ہمیں صرف بیس روپے کے لیے اپنی صحت‘ اپنا موڈ اور اپنا دن برباد کر لینا چاہیے‘ ہم میں سے کتنے لوگ یہ کیلکولیشن کرتے ہیں‘ شاید ایک فیصد بھی نہیں‘ آپ کسی دن کسی تنہا کمرے میں بیٹھیں اور اپنی قیمت کا خود تعین کریں‘ مجھے یقین ہے آپ پھر کسی شخص کے ساتھ بیس روپے کے لیے نہیں لڑیںگے‘ آپ رقم قربان کر دیں گے لیکن اپنا دن‘ موڈ‘ صحت اور زندگی بچا لیں گے‘ آپ پھر زندگی میں کبھی ذوالفقار بنیں گے اور نہ ہی نامعلوم قاتل‘ آپ اپنی قدر کریں گے ورنہ دوسری صورت میں کوئی موٹر سائیکل سوار آئے گا اور آپ کی صحت یا زندگی لے کر چلا جائے گا اور لوگ تاسف سے ہاتھ مل کر کہتے رہیں گے ’’ہائے بے چارہ صرف بیس روپے کے لیے مارا گیا‘‘۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے