جماعت اسلامی جو کبھی اصول پسندی کا استعارہ تھی اور سیاست کے سانچے بدلنے کی خواہاں تھی، حقیر سیاسی مفادات کی خاطر خود مروجہ سیاست کے سانچوں میں ڈھل گئی ہے۔
سیاسی انحطاط کا مرثیہ کیا کہیں کہ یہ توایک عرصہ سے اصولوں کا پیشہ نہیں رہی اور ابو الفضول کا شوق بن کر رہ گئی ہے مگر جماعت اسلامی بھی ایک دن دسترخوانی قبیلے کا حصہ بن جائے گی ،کبھی سوچا بھی نہ تھا۔
بلدیاتی الیکشن کا دنگل تو ختم ہو جائے گا مگر جماعت اسلامی کے دامن سے یہ داغ کیسے جائے گا کہ فرید پراچہ کے فرزند ارجمند لاہور کے ازمیر ٹاﺅن سے شیر کے انتخابی نشان پر کونسلر منتخب ہوئے اور جناب لیاقت بلوچ کے صاحبزادے احمد سلمان بلوچ UC218سے بلے کے انتخابی نشان پر وائس چیئرمین کا عہدہ حاصل کرنے میں کامےاب ہوئے۔
چند روز قبل امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے شاید انہی رہنماﺅں کے بارے میں کہا تھا کہ ”فخر سے بتاتے ہیں اتنے سال سے جماعت کا رکن ہوں اور حالت یہ ہے کہ خود اپنے گھر والوں کوجماعت کا ہم خیال نہیں بنا پائے“ مگر یہ معاملہ ہم خیالی کا نہیں، حقیر مفادات کا ہے۔
حالیہ بلدیاتی انتخابات کے موقع پرپنجاب کے کوچہ و بازار نے عجب منظر دیکھا۔ انقلاب کے داعی اور اسلامی پاکستان کے علمبردار ایک جلسے میں شیر کو طاغوت قرار دیتے تھے تو چند گز دور دوسرے حلقے میں کوئی شعلہ بیاں خطیب بلے کو باطل اور شیر کے حمایت ےافتہ ترازو کو حق قرار دیتا۔ افسوس تو یہ ہے کہ اس دوڑ و دھوپ کے باجود کوئی سیاسی کامےابی دکھائی نہیں دے رہی ۔
میرے خیال میں بلدیاتی انتخابات کے اس مرحلے میں تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی مشترکہ طور پر 25فیصد نشستیں جیتنے میں کامےاب رہیں تو یہ بہت بڑی کامےابی ہو گی۔
تقریباً اتنی ہی نشستیں آزاد امیدوار حاصل کریں گے اور لگ بھگ پچاس فیصد کامیابی مسلم لیگ (ن) کے حصہ میں آئے گی۔
اس تگ و تاز کے باوجود بھی جماعت اسلامی کوئی واضح کامےابی حاصل نہ کر پائی اور اس کے دامن میں بجز رسوائی کچھ نہ آےا تو یہی سمجھیں کہ نہ خدا ہی ملا ،نہ وصال صنم ۔بس دل میں اِک ہوک سی اٹھتی ہے کہ کیا بلندی تھی، کیسی پستی ہے۔