ہر انسانی معاشرہ خواہ کسی بھی مذہب یا عقائد کا پیروکار ہو ان میں کچھ Global norms ہوتی ہیں، جیسے ریپ کو ہر انسانی معاشرے میں جرم ہی سمجھا جاتا،کچھ اخلاقی اقدار بھی مشترک ہوتی ہیں ، مرد عورت کے رشتے اور افزائش نسل کے لیے کوئی نہ کوئی legitimacy norm رائج کیا جاتا ہے۔ اسکی جزیات الگ الگ ہو سکتی ہیں ، جیسے اب نام نہاد ماڈرن معاشروں میں مروجہ قانون کے مطابق شادی کئے بغیر بھی اکٹھے رہنے کے خواہشمند جوڑوں کے لیے Live in relation کی اصطلاح وضع کرکے اسے سوسائٹی میں جگہ دی گئ۔
اسی طرح مذہب اسلام نے بھی معاشرتی زندگی کے لئے کچھ حدود و قیود مقرر کر دی ہیں۔ اسلام چونکہ آخری آفاقی مذہب ہے اور یہ کسی مخصوص وقت اور علاقے پہ نازل نہیں کیا گیا اس لئے اسکے اصول سادہ اور بنیادی طور پہ بتا دیئے گئے، جو ہر آنے والے نئے زمانے میں قابل استعمال رہیں۔ مثال کے طور پہ اسلام نے ستر پوشی کے اصول بتا دیۓ لیکن اسکے لیے کسی مخصوص رنگ یا طرز کے لباس کی کوئی قید نہیں رکھی۔ اپنے علاقے،زمانے، اور موسم کے لحاظ سے اس میں تبدیلیاں کرکے بھی ستر پوشی کی شرط قائم رکھی جا سکتی ہے۔ اسی طرح اسلام نے شادی کے لیے بلوغت کی حد مقرر کی اور دیگر جزیات کو لوگوں کے فہم پہ چھوڑ دیا۔
ہوسکتا ہے مقصد شادی کے لئے اول و آخر حد بتانا ہو یا بلوغت سے پہلے کم عمر بچے بچی سے شادی کے رواج کے خلاف حد مقرر کرنا ہو۔ دنیا کے کئی ممالک اپنے ماحول اور نوجوانوں کے رجحانات کے مطابق وہاں شادی کی حد مقرر کرتے ہیں۔ جیسے ایک غیر مسلم ملک(نام بھول رہی ہوں) میں لازم قرار دیا کہ ہر 18سالہ مرد و عورت شادی کریں اسکے بعد اپنی تعلیم اور دیگر روز مرہ معمولاتِ زندگی کے لئے حکومت ان کو سہولت مہیا کرتی ہے۔
پاکستان میں عمومی ماحول کے مطابق مرد پہ بیوی اور بچوں کی کفالت فرض ہے اور بیوی پہ گھر اور بچوں کی پرورش۔اسکے بعد اگر شوہر اپنی بیوی کی مدد کے لیے گھریلو امور میں بیوی کا ہاتھ بٹائے یا بیوی شوہر کی مدد کے لئے نوکری کرے اسکی صوابدید۔ آپ اپنے بچے کیسے پالیں گے ان کی تعلیم و تربیت کیسے کریں گے حکومت کا سر درد نہیں اسکے لئے کوئی سہولت فراہم بھی نہیں کرتی۔
اس ماحول میں ،اگر بلوغت کی عمر بھی دس بارہ سال ہو تو اتنے کم سن لڑکے یا لڑکی کی شادی ظلم کے سوا کچھ نہیں، وہ جسمانی طور پر بھی اس قابل نہیں ہوتے کہ والدین بن کر ایک گھر کی کفالت و تربیت کی ذمہ داریاں اٹھا سکیں۔
شادی کے حوالے سے دوسرا معاشرتی پہلو کہ لڑکے کی کفالت کے قابل ہو جانے تک شادی نہ کرنا، یا دھوم دھام سے شادی کے اخراجات کے لیے شادی روک رکھنا، جہیز اور دیگر مسائل کی وجہ سے لڑکی کا رشتہ نہ ہونا جیسی مثالوں کو جواز بنا کر علماء جلد نکاح پہ زور دیتے ہیں تاکہ نوجوان بے راہ روی کا شکار نہ ہوں ۔ یہ ایک الگ بحث ہے، لیکن اسے جواز بنا کر کم سن اور معصوم بچوں کو بلوغت ظاہر ہوتے ہی بیاہ دینا درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔
ہم اپنے معاشرے کے رواج کو مدنظر رکھیں تو 18سال عمر بھی شادی جیسی ذمہ داری کے لیے کم محسوس ہوتی ہے، لیکن جسمانی لحاظ سے لڑکی لڑکا اس قابل ہوتے ہیں کہ اولاد کی پیدائش اور پرورش کو کسی حد تک سنبھال پائیں۔
شریعت نسل انسانی کی بقا اور راہنمائی کے لئے ہے ناکہ child abuse کو جواز دینے کےلئے۔