باقی سب فروعی باتیں ہیں اصل سوال یہ ہے کہ پاکستان کے ذمے جو قرض ہے، یہ کیسے اترے گا ؟ اور اگر اسے نہ اتارا جا سکا تو اس کا انجام کیا ہو گا ؟ قومی اسمبلی کے ایک دن کے اجلاس پر اس غریب قوم کے تین سو لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں ، کیایہاں کبھی اس مسئلے پر سنجیدہ انداز میں کوئی بات ہوئی؟
پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے لیکن کیا آپ کو معلوم ہے پاکستان کے حالیہ بجٹ میں سب سے زیادہ رقم کس مد میں رکھی گئی؟ دل تھام لیجیے ، بیرونی قرضوں کی اقساط اور ان پر سود کی ادائیگی کے لیے۔ یہ کل بجٹ کا قریبا 31 فیصد بنتا ہے۔ یعنی ایک ایٹمی قوت اپنے دفاعی بجٹ سے 8 فیصد زیادہ رقم قرض سود اور قسطوں کی ادائیگی میں صرف کر رہی ہے۔
افراط زر بڑھ رہا ہے اور اس کے نتیجے میں قرض بھی ۔ قرض اپنی جگہ کھڑا ہے اور اس پر سود کی ادائیگی کے لیے نیا قرض لینا پڑ رہا ہے ۔ 31 فیصد تک تو نوبت آ چکی ، چند سالوں میں اگر یہ تناسب 50 فیصد یا اس سے بھی زیادہ ہو گیا تو ہم کیا کریں گے؟ ملک کیسے چلے گا؟کیا ہم دیوالیہ ہو جائیں گے؟ کیا ہم جانتے ہیں دیوالیہ ہونے کا مطلب کیا ہوتا ہے؟
یہ مطلب سمجھنے کے لیے ہمیں ذرا ماضی میں جانا ہو گا ۔ کیا ہمیں معلوم ہے 1948 میں میر لائق علی خان جب قرض کی درخواست کے ساتھ امریکہ گئے تو یہ درخواست نچلی سطح پر ہی رد کر دی گئی؟ بعد میں اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ مک گھی نے امداد دینے والے شعبے کے کوآرڈی نیٹر کو تنبیہہ کی کہ اس درخواست پر ہمدردانہ غور کیا جائے۔ اس تنبیہہ کے بعد امریکی رویے میں تبدیلی آئی ۔ اس تبدیلی کے پس پردہ محرکات خود امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے بیان کر دیے ہیں ۔ آئیے ذرا انہیں ایک نظر دیکھ لیں۔
یہ تین اہداف تھے جو سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے 3 اپریل 1950 کو جاری کردہ اپنے پالیسی بیان میںکوئی لگی لپٹی رکھے بغیر بیان کر دیے۔
1۔ ’’ پاکستان سے تعلقات میں ہمارا اصل مقصد یہ ہے کہ اس کی حکومت اور لوگوں کا رخ امریکا اور مغربی جمہوریتوں کی طرف رہے۔
2۔ پاکستان سیاسی طور پر آزاد رہے مگر دفاع اور معیشت کے لیے بیرونی امداد کا محتاج رہے۔
3۔پاکستان میں ایسا رویہ پروان چڑھایا جائے کہ پاکستان امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو وہ تمام سہولتیں ، وسائل ، ذرائع اور منڈیاں فراہم کرے جو انہیں حالت امن یا حالت جنگ میں درکار ہوںـ‘‘۔
پاک امریکہ تعلقات کی طویل تاریخ اصل میں ان تین نکات کی شرح ہے اور یہ تین نکات اس ساری تاریخ کا خلاصہ ۔ سی پیک سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی اس پالیسی کے پہلے نکتے کی خلاف ورزی ہے۔ چین کے ساتھ تعلقات آگے بڑھتے ہیں تو یہ دوسرے نکتے کو بھی پامال کر دیں گے۔ معاشی استحکام آ گیا تو اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ تیسرے نکتے کی حرمت میں بھی پہلے جیسی وارفتگی برقرار نہ رہے۔ چنانچہ پاکستان کے گرد شکنجہ سخت کر دیا گیا۔ اس شکنجے کا ایک رخ معیشت ہے۔
امریکی کانگریس کے تین اراکین نے ڈونلڈ ٹرمپ کوخط لکھ کر مطالبہ کیا کہ وہ آئی ایم سے کہیں پاکستان کو قرض نہ دے کیونکہ پاکستان آئی ایم ایف سے پیسے لے کر چین سے لیے گئے قرض کی ادائیگی کرے گا ۔ آئی ایم ایف کے چیف اکانومسٹ نے بھی پاکستان کو متنبہ کیا کہ وہ چین کے ساتھ تعلقات کے خطرات سے آ گاہ رہے۔ یہ ایک سنگین صورت حال تھی اوراس سے نبٹنے کے لیے حکمت اور بصیرت کی ضرورت تھی ۔ تحریک انصاف کی حکومت ہم جانتے ہیں کہ ان تکلفات سے بے نیاز رہتی ہے ۔ جب ہوم ورک نہیں ہوتا تو پھر صرف بڑھکیں اور اقوال زریں بچتے ہیں۔حکومت نے یہی دو کام کیے۔
پہلے اسد عمر صاحب میدان میں آئے اور انہوں نے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے امریکہ کو بڑھک لگائی کہ تم چین سے لیے گئے ہمارے قرض کی فکر نہ کرو بلکہ اپنے قرض کی فکر کرو ۔ اس پر بہت واہ واہ ہوئی کہ اسد عمر نے امریکہ کو آئینہ دکھا دیا ۔ اس کے بعد اقوال زریں کا ایک بچگانہ سلسلہ شروع ہو گیا ۔ کبھی کہا جاتا ہم آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے، کبھی ارشاد ہوتا ہم غلامی کا یہ طوق اتار پھینکیں گے ، کبھی دعوی فرمایا جاتاہمیں اتنی رقم مل گئی ہے ہم آئی ایم ایف سے بے نیاز ہو چکے ہیں، سوشل میڈیا پر دادو تحسین سمیٹنے کے چکر میں ہر وزیر مہاتیر محمد بنا ہوا تھا اور ہر مشیر طیب اردوان ۔ یہ بھول گئے کہ مہاتیر اور اردوان کے لہجوں کا بانکپن ان کی بڑھکوں سے نہیں آیا بلکہ اس کے پیچھے ان کی عشروں کی خاموش محنت ہے ۔ محنت کیے بغیرمحض بڑھکوں سے کوئی سرخرو نہیں ہو سکتا ۔ چنانچہ آج آئی ایم ایف نے ان سے ناک سے لکیریں کھنچوا دی ہیں اور اس کا اپنا ایک اہلکار سٹیٹ بنک کا گورنر بن چکا ہے۔
قرض لینے میں عیب نہیں ، ناگزیر حالات میں قرض لیا جا تا ہے۔ لیکن اس اہتمام کے ساتھ کہ قرض ایسے منصوبوں میں استعمال ہو کہ اس سے قومی آمدن میں اضافہ ہو اور قرض کی اقساط انہی منصوبوں کی آمدن سے ادا کی جائیں ۔ غیر پیداواری مد میں قرض کی رقم جھونک کر ہمارا یہ حال ہے قرض کا پہاڑ کھڑا ہو چکا لیکن اس قرض سے کوئی ایک ایسی چیز نہیں بنی جس کی آمدن سے قرض کی ایک چوتھائی قسط بھی ادا کی جا سکتے۔ چنانچہ قرض کی اقساط اور سود کی ادائیگی کے لیے ہمیں نیا قرض لینا پڑتا ہے۔ آج ہم اپنے بجٹ کا 31 فیصد قرض پر سود اور قسطوں کی ادائیگی میں ضائع کر رہے ہیں۔کیا ہم اس دن کا انتظار کر رہے ہیں جب ہمیں اپنا آدھا بجٹ سود میں آئی ایم ایف کو دینا پڑ جائے؟
ہماری معیشت کا معاملہ بہت سنگین ہو چکا ہے اسے کسی ایک حکومت پر نہیں چھوڑا جا سکتا ۔ یہاں ہر نئی حکومت نئی معاشی پالیسی لے آتی ہے۔ کوئی تسلسل ہے نہ استحکام۔ سرمایہ کار سہما ہوا ہے کہ نجانے کب کیا پالیسی آ جائے۔ ہم نت نئے معاشی تجربات کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہمیں ایک میثاق معیشت کی ضرورت ہے۔ اجتماعی دانش کو بروئے کار لاتے ہوئے کم کم از کم دس سال کے لیے کچھ بنیادی اصول طے کر کے ایک ایسی مستحکم معاشی پالیسی اختیار کی جانی چاہیے کہ بدلتی حکومتیں بھی اس پر اثر انداز نہ ہو سکیں ۔
کیا ہم انا کے خول سے نکل کر یہ بھاری پتھر اٹھا سکیں گے؟
..