انسانی المیے

عالمگیریت کے اس دور میں کوئی ملک دوسروں سے الگ تھلگ رہنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ شام اور عراق میں خودساختہ دولت اسلامیہ (داعش) کا ظہور اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ مغرب نے اس سے بچنے کی بے حد کوشش کی مگر یہ اس کی دہلیز پر پہنچ چکی ہے۔

افغانستان کو عراق جیسی ایک اور مثال قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ امریکی صدر باراک اوباما نے افغانستان سے نکلنے کے منصوبے میں احتیاطی تدابیر کے طور پر چند خصوصی اقدامات کا اعلان کیا ہے مگر ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا حالات بگڑنے سے پہلے افغانستان کو دنیا کی خاطر خواہ توجہ مل پاتی ہے یا یہ دوسرا عراق بن جائے گا۔ جہاں تک یورپی ممالک کا تعلق ہے تو انہیں پہلے ہی بہت سے مسائل کا سامنا ہے کہ شامی مہاجرین کا سنگین بحران انہیں گرفت میں لے چکا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیم ‘ایمنسٹی انٹرنیشنل’ کے مطابق صرف پانچ ممالک 95 فیصد شامی مہاجرین کو پناہ دیے ہوئے ہیں جن میں ترکی، لبنان، اردن، عراق اور مصر شامل ہیں۔ مہاجرین کے بارے میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر کا کہنا ہے کہ کم و بیش ڈیڑھ لاکھ شامی مہاجرین نے یورپی یونین کے ممالک میں پناہ لی ہے جن میں بیشتر جرمنی آئے ہیں۔

بہت سی خلیجی ریاستوں نے بھی مہاجرین کی بہت بڑی تعداد کو جگہ دی ہے۔ تاہم ان کا دعویٰ ہے کہ مہاجرین ان کے ملک میں پاسپورٹ لے کر آتے ہیں جبکہ یورپی ممالک میں اس سفری دستاویز کے بغیر جاتے ہیں۔ خلیجی ممالک میں سرکاری دعووں کے مطابق شام سے آنے والوں کو رہائشی ورک ویزا ملتا ہے، تاہم ان ملکوں میں بسائے گئے مہاجرین کی مصدقہ تعداد سامنے نہیں آ سکی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانی سمگلروں نے مہاجرین کا رخ یورپ کی جانب موڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور وہ اب بھی انہیں بحیرہ روم کے ممالک کی جانب بھیج رہے ہیں جہاں سے وہ دوسرے یورپی ملکوں کی طرف نکل جاتے ہیں۔

یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہو گی کہ شام میں بحرانی کیفیت کا آغاز ہوتے ہی امیر اور بالائی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بحیرہ روم کے ممالک اور شمالی امریکا سمیت مختلف سمت میں ہجرت شروع کر دی تھی۔ بہت سے مہاجرین اپنے ساتھ مالی اور ذہنی سرمایہ لائے جس کی بدولت ان کی ہجرت پناہ دینے والے ملکوں کے لیے مفید ثابت ہوئی۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی حالیہ ہجرت کا سبب بہتر معاشی مواقع کی تلاش ہے لہٰذا وہ جن ممالک میں پناہ لے رہے ہیں انہیں کوئی فوری فائدہ نہیں دے سکتے۔

عالمگیریت میں ایسے بحران کے اثرات کسی ایک ریاست یا علاقے تک محدود نہیں رہتے۔ پاکستان اور افغانستان بھی مہاجرین کے بحران سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق دنیا میں مہاجرین کی تعداد کے اعتبار سے پاکستان تاحال پہلے نمبر پر ہے۔ پاکستان میں کم و بیش 15 لاکھ افغان مہاجرین رجسٹرڈ ہیں۔ شام میں انسانی بحران پیدا ہونے کے بعد اقوام متحدہ نے افغان مہاجرین کی بحالی کے فنڈ میں کٹوتی کر دی جس سے ان کی وطن واپسی متاثر ہو گی۔

جب کوئی ملک اپنے سیاسی اور سٹریٹجک مفادات کے باعث بحران کو ‘نظرانداز’ کرنا شروع کر دیتا ہے تو ایسے المیے گھمبیر صورت اختیار کر جاتے ہیں، تاہم اس کی سیاسی سوچ مکمل طور سے بے محل ہو سکتی ہے۔

مثال کے طور پر یمن کی صورتحال ملاحظہ کیجیے۔

عالمی برادری یمن میں انسانی المیے سے نظریں چرا رہی ہے جہاں ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور لاکھوں بدحالی کے عالم میں جی رہے ہیں۔ یمن میں حالات کی المناک تصویر بھی عالمی برادری کی توجہ اس جنگ زدہ ملک کی جانب مبذول کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ بظاہر دھندلا دکھائی دینے والا یہ بحران خاصا سنگین ہے، اگر اسے نظرانداز کیا گیا تو یہ یمن تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس ملک کی سرحدو ں سے باہر پھیل جائے گا۔

یورپ کی اپنی معاشی پیچیدگیاں ہیں تاہم یہ مہاجرین کی آمد کو وسیع سماجی و ثقافتی، مذہبی اور سیاسی تناظر میں بھی دیکھتا ہے۔ اگرچہ بیشتر یورپی اقوام مہاجرین کو خوش آمدید کہہ رہی ہیں تاہم اس پالیسی سے اختلاف رکھنے والی آوازیں بھی اتنی ہی طاقتور ہیں۔ عالمی برادری میں اس امر پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ جب تک عراق، شام اور لیبیا میں مسائل حل نہیں ہو جاتے اس وقت تک مہاجرین کا بحران جاری رہے گا۔

دوسری جانب دیکھا جائے تو نیٹو ممالک ان مسائل کو براہ راست فوجی مداخلت کے ذریعے حل کرنے سے گریزاں ہیں۔ افغانستان، عراق اور لیبیا میں ان کے تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ ان ممالک میں حکومتیں تبدیل کرنا مشکل بات نہیں مگر اس تبدیلی کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنا بہت مشکل ہے کہ اس میں ان ریاستوں کی جنگ کے بعد بحالی کا مسئلہ بھی درپیش ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ممالک شام میں دولت اسلامیہ کے خلاف روسی حملوں کو برداشت کر رہے ہیں۔

مشرق وسطیٰ کی جنگوں کا حل آسان نہیں ہے، خصوصاً جب مقامی کردار اور ان کے عالمگیر اتحادی منتشر سٹریٹجک اور سیاسی عزائم کے مالک ہوں تو یہ کام اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ مختلف طرح کے یہ مفادات مذہبی اور ثقافتی تنوع کے بندوبست پر بھی اپنا اثر ڈالتے ہیں۔ جنگ اور تصادم کی صورت میں معاشرے اپنے مذہبی اور ثقافتی تنوع سے فائدہ نہیں اٹھا پاتے اور الٹا یہ تنوع ان کے لیے نقصان کا باعث بن جاتا ہے۔ اب دنیا کے پاس اس مسئلے کا ایک ہی حل باقی ہے اور وہ یہ ہے کہ مذہبی و ثقافتی تناظر میں ایک طویل مدتی معاشی ڈھانچہ تشکیل دیا جائے۔

عالمی برادری خصوصاً مغرب ایسا طریق کار ترتیب دینے میں مصروف ہے جس میں بین المذاہب، فرقہ وارانہ اور ثقافتی ہم آہنگی کے لیے ریاستوں، سول سوسائٹٰی اور خاص طور پر مذہبی برادری کو ساتھ ملایا جا رہا ہے۔ اس سے جنگ زدہ علاقوں میں رہنے والی ان مذہبی و ثقافتی اقلیتوں کی حالت بہتر بنانے میں مدد ملے گی جو وہاں انتہائی برے حالات میں جی رہی ہیں۔

حال ہی میں یونانی وزارت خارجہ کے زیراہتمام مشرق وسطیٰ میں مذہبی و ثقافتی تکثیریت اور پرامن بقائے باہمی کے موضوع پر ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں سیاسی و مذہبی رہنماؤں اور سفارتکاروں کے علاوہ یورپ اور مشرق وسطیٰ سے ماہرین تعلیم نے بھی شرکت کی۔ کانفرنس میں اس امر کی توثیق کی گئی کہ مذاہب اور ثقافتوں کے اندر اور ان کے مابین مکالمے کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ کانفرنس نے ان اہم مسائل کے بارے میں آگہی بیدار کرنے اور ان برادریوں کے لیے فوری انسانی امداد کی عالمی کوششیں تیز کرنے پر زور دیا۔

ایسے اقدامات کی کامیابی کا انحصار سول سوسائٹی کے متحرک کردار پر ہے۔ یقیناً مشرق وسطیٰ میں سول سوسائٹی اس کام کی انجام دہی کے لیے خاطر خواہ حد تک مضبوط نہیں ہے۔ تاہم یہ دلچسپ امر بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ معاشروں اور افراد کے مابین تیزی سے بڑھتےبراہ راست اور بالواسطہ سائبر روابط کے باوجود ایک دوسرے کے بارے میں حقیقی سمجھ بوجھ کا فقدان ہے جو کہ پرامن بقائے باہمی کا جوہر ہوتی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں ابھی تک مکالمے کو فروغ نہیں مل سکا۔

۔ڈان کے لئے لکھے گئے کالم کا اردو ترجمہ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے