ہماری حب الوطنی پہ کیچڑ نہ اچھالیں!

میری ایک بہت محبوب شخصیت نے جب مجھے فون پر اطلاع دی کہ ڈالر ایک سو پچاس کا ہوگیا ہے تو میرے دل میں لڈو پھوٹنے لگے، میں نے فوراً موتی چور لڈوئوںکی ٹوکری ان کی طرف بھجوائی اور اپنے کمرے میں ہلکا پھلکا بھنگڑا بھی ڈالا۔

اس کے بعد میں تھا اور خوشی سے بھری ہوئی یلغار تھی ، میں نے سوچا کہ باہر کے بینکوں میں میرے جو اربوں ڈالر جمع ہیں اب پاکستانی روپوں میں وہ کھربوں کی مالیت کے ہوگئے ہیں۔میرے پاس اگرچہ امریکی پاسپورٹ ہے اور میری پوری فیملی بھی امریکی شہری ہے مگر مجھے اپنے پاکستانی ہونے پر فخرہے، یہی وجہ ہے کہ میرے بیٹے بطور ٹیکنوکریٹ پاکستان میں بڑے بڑے عہدوں پر متمکن ہیں اور انہوں نے یا میں نے ابھی تک امریکہ شفٹ ہونے کا نہیں سوچا۔اپنا وطن کہاں چھوڑنے کو جی چاہتا ہے یہاں اللہ نے ہمیں کتنی عزت دی ہے ،ہمارا یہاں ایک نہیں بیسیوں کاروبار ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے میرے ہزاروں پاکستانی ملازموں کے گھر میری دی ہوئی تنخواہ سے چلتے ہیں اگر کبھی وطن چھوڑنے کا گندہ خیال ذہن میں آتا بھی ہے تو میری حب الوطنی مجھے اندر سے بہت ڈانٹ ڈپٹ کرتی ہے اور کہتی ہے اے بے غیرت انسان تو دنیا کاکاروبار بند کرکے ہزاروں گھرانوں کو بھوکا مارے گا؟چنانچہ میں فوراً خود کو لعنت ملامت کرتے ہوئے اس خیال سے تائب ہو جاتا ہوں ۔

میرے نزدیک وہ لوگ بہت بدقسمت ہیں جو پاکستان سے باہر جانے کا سوچتے ہیں ۔دنیا میں کوئی ایسا ملک ہو گا جہاں ہم کروڑوں کمائیں اور صرف ہزاروں میں ٹیکس ادا کریں ۔جہاں ہم کسی کو اگر قتل بھی کر دیں یا چلیں کوئی اور بڑا جرم کر دیں تو الحمدللہ تھوڑی بہت پریشانی کے علاوہ ہم پر کوئی آفت نہیں آتی ۔اور پھر ہمیں باہر سیٹل ہونے کی ضرورت بھی کیا ہے ہمارے پاس امریکہ کے پاسپورٹ ہیں ہم پانچ چھ مہینے امریکہ میں اپنے فارم ہائوس میں گزارتے ہیں اور پانچ چھ مہینے پاکستان کے فارم ہائوس میں ۔اس کے علاوہ الحمدللہ پاکستان کے تین چار بڑے شہروں میں ہمارے غریب خانے موجود ہیں ،غریب خانے اس لئے کہا ہے کہ ہم نے وہاں بھی بہت سے غریب اپنی خدمت کے لئے رکھے ہوئے ہیں، میں اس وقت آپ کو ایک راز کی بات بتانے لگا ہوں بس اسے اپنے تک ہی رکھیں ۔کوئی پتہ نہیں کسی دن میں پاکستان کا وزیر اعظم بن جائوں ۔

آپ میری اس بات پر خواہ مخواہ حیران ہونے کی کوشش نہ کریں اگر آپ کو یاد ہو تو ایک بار ایک امریکی شہری کو جو پاکستان چھوڑ کر امریکہ میں آباد ہو گیا تھا راتوں رات پاکستان بلایا گیا فوری طور پر اس کا شناختی کارڈ تیار ہوا پھر اس کی خواہش پر کہ وہ اپنی ماں کی قبر پر جانا چاہتا ہے جب وہ قبر کی نشاندہی نہ کر سکا تو ڈپٹی کمشنر صاحب کو حکم ملا کہ میانی صاحب میں کسی پرانی سی قبر کو ان کی والدہ کی قبر قرار دیا جائے ۔چنانچہ ایسا ہی کیا گیا پاکستان کے امریکی وزیر اعظم وہاں گئے فاتحہ خوانی کی تصویریں بنوا کر اخبارات میں شائع کرائی گئیں اور یوں انہیں خاندانی پاکستانی قرار دے دیا گیا۔الحمدللہ مجھے اپنے والدین کی قبروں کا علم ہے بلکہ ایک دفعہ اپنے بچوں کو دکھا لایا تھا کہ کمزور حافظے کی وجہ سے میں اگر بھول بھی جائوں تو وزیراعظم بننے کی صورت میں قبروں کی تلاش کی زحمت کسی ڈپٹی کمشنر کو نہ دینا پڑے ۔

میرا ایک غیر محب وطن دوست پاکستان کو ہمیشہ کے لئے خیرباد کہہ کر امریکہ میں جا بسا تھا۔اب وہ جب بھی ملتا ہے روتا ہوا ہی ملتا ہے یار یہاں تو ٹیکسی والے جان نکال لیتے ہیں میری آمدنی کا حیلے بہانے سے ساٹھ فیصد تو وہ لے جاتے ہیں تم نے تو نوکروں چاکروں کی فوج رکھی ہوئی ہے یہاں ایک میم صبح آتی ہے اور جھاڑ پونچھ کرکے چلی جاتی ہے اور اس کی دو گھنٹوں کی تنخواہ تمہارے گھر کے فل ٹائم ملازموں سے کئی گنا زیادہ ہے ۔ایک امریکی بابا لان کی گھاس کاٹنے آتا ہے اور میری جیب کاٹ کر لے جاتا ہے، قدم قدم پر قانون کی پابندی کرنا پڑتی ہے ۔پیدل چلنے والوں کے حقوق کار سواروں سے زیادہ ہیں ۔

گاڑی سب کے پاس ہے گھاس کاٹنے والا بابا اور جھاڑ پونچھ کرنے والی میم بھی اپنی گاڑی پر آتی ہے ۔گھر میں کوئی چھوٹا موٹا کام کروانا ہو تو متعلقہ کمپنی سے ٹائم لینا پڑتا ہے اور پھر اس کا کارندہ اپنی کار پر آتا ہے۔ یہاں ہر کوئی سوٹ پہنتا ہے۔ ہر کسی کے پاس کار ہے ہر کوئی وہ شراب پیتا ہے جو پاکستان میں صرف میرے اور تم جیسے لوگ ہی پی سکتے ہیں۔ کیا فرق رہ گیا ہم خاندانی لوگوں اور ان کمی کمینوں میں؟ میں نے اس کی بپتا سنی تو کہا ’’دفعہ کرو امریکہ کو واپس اپنے وطن آئو ’’بولا آنہیں سکتا میری دو بیٹیاں ہیں دونوں نے امریکیوں سے شادیاں کی ہیں وہ اب کہاں آئیں گی‘‘

آخر میں ایک شکوہ۔ کچھ لوگ دوہری قومیت کا ترجمہ دوغلی قومیت کرتے ہیں جو ہماری حب الوطنی پہ کھلا حملہ ہے۔ آخر میں ایک تھرڈ کلاس شاعر عطاء الحق قاسمی کی ایک غزل سنیں۔ اس غزل کے مخاطب بھی ہم ہی ہیں۔

جب ایک دشت کو خوشخبریاں سنائی گئیں

پھر اس زمین سے فصلیں نئی اگائی گئیں

میں جانتا ہوں کہ اس ایک شخص کی خاطر

کہاں کہاں سے یہ آسانیاں ہیں لائی گئیں

مجھے تو یاد نہیں شکل اپنے منصف کی

مجھے تو یاد سزائیں ہیں جو سنائی گئیں

ہمارے بچوں کا پرسانِ حال کوئی نہ تھا

ہماری یاد میں شمعیں بہت جلائی گئیں

پڑا جو کام تو پائوں میں آکے بیٹھ گئے

پھر اس کے بعد تو آنکھیں نہیں ملائی گئیں

بنا کے کشتیاں کاغذکی شاہزادوں نے

ہمارے واسطے طغیانیوں میں لائی گئیں

ہماری دنیا کو دوزخ بنا دیا اور پھر

زمین پہ اپنے لئے جنتیں بسائی گئیں

خدا کے نام پر ہم نے بسائی جو بستی

خدا کے نام پر واں بستیاں جلائی گئیں

حقیقتوں کو چھپانے کی کاوشوں میں عطاءؔ

کہانیاں ہمیں کیا کیا نہیں سنائی گئیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے