سرکار ’’مائی باپ‘‘ نہیں رہی

لاہورکے ایک ہوٹل کے کمرے میں تھکن سے چور لیٹا اپنی توانائی بحال کرنے کی اذیت میں مبتلا تھا کہ بیرون ملک سے فون آ گیا۔ میرے ایک شناسا بہت محتاط انداز میں قمرزمان کائرہ کے ساتھ ہوئے سانحے کی تصدیق چاہ رہے تھے۔ لاعلمی کے اظہار کے بعد فون بند کر دیا۔ ٹی وی کھولا تو ’’تصدیقی‘‘ ٹکر چل رہے تھے۔ میں حواس باختہ ہوگیا۔ اسلام آباد لوٹنے کے ایک دن بعد بھی ہمت نہیں ہورہی کہ کائرہ صاحب سے رابطہ کروں۔ سمجھ نہیں آرہی کہ انہیں پرسہ کیسے دے سکوں گا۔اپنی اس کیفیت کا تقابل سوشل میڈیا پر اس سانحے سے جڑی چند Postsکے ساتھ کرتے ہوئے دل کانپ اُٹھا ہے۔

سمجھ نہیں آرہی کہ ہم اتنے سفاک کیوں ہوگئے ہیں۔ ہوش سنبھالتے ہی ماں اور محلے کی بدولت دوسروں کے دُکھ کو اپنا سمجھنے کی عادت جبلت کا حصہ بن گئی تھی۔ میرا یہ رویہ انفرادی نہیں اجتماعی تھا۔ اس سماج کی جھلک جہاں انسان تو دور کی بات ہے جانوروں کی پیاس بجھانے کے لئے بھی قدیمی لاہور کے تقریباََ ہر دروازے کے باہر پانی کی ’’ہودیاں‘‘ جو اُردو کے حوض کا پنجابی میں اسم ِتصغیر تھا۔ موجود ہوا کرتی تھیں۔ جمعرات کی شام کئی مزاروں پر لوگوں کے ہجوم ہوتے۔ ان کے چہرے نرم دلی کا اظہار ہوتے۔ لہجوں میں شفقت۔ غریب اور بے سہارا لوگوں کی کسی نہ کسی طرح مدد کرنے کی خواہش نمایاں۔ہمارے دلوں میں ان دنوں خوفناک حد تک چھائی سفاکی کہاں، کب اور کس طرح نمودار ہوئی اس سوال کا جواب بہت کوشش کے باوجود دریافت نہیں کر پایا ہوں۔ اس حقیقت سے مگر انکار نہیں کہ اجتماعی طورپر ہم خود غرض و سفاک ہو چکے ہیں۔ دوسروں کی مشکلات و دُکھوں سے قطعی بے گانہ اور ناآشنا۔

دریں حالات مزید خوف اس وجہ سے بھی دل میں جاگزیں ہورہا کہ ہماری ریاست اپنے کھاتوں کو Macroسطح پر سیدھا کرنے کی لگن میں مبتلا ہوگئی ہے۔ سرکار ’’مائی باپ‘‘ نہیں رہی۔ ریگولر اور سوشل میڈیا پر یہ بیانیہ ہرگز توانائی سے ابھرتا نظر نہیں آرہا کہ ہمارے لوگوں کی بے پناہ اکثریت اگر اب بھی روزی کمانے کے کسی دھندے سے وابستہ ہے تو اوسطاََ ان کی آمدنی ٹھوس حوالوں سے آدھی ہوگئی ہے۔ بجلی اور گیس کے نرخوں میں مگر ابھی مزید اضافہ ہونا ہے۔ تیل کی عالمی منڈی میں قیمت 70ڈالر فی بیرل تک آنے والے کئی مہینوں تک محدود بھی رہے تو پاکستانی روپے کی گرتی ہوئی قدر کی وجہ سے روزمرہّ اشیاء مہنگی ہوتی چلی جائیں گی۔ آج سے کئی ماہ قبل میں نے وینزویلا کے بارے میں ایک تفصیلی مضمون پڑھاتھا۔

اس کے ذریعے معلوم ہوا کہ وہاں کے تنخواہ داروں کو ہر ماہ جو معاوضہ ملتا ہے اس سے صرف پندرہ دن کے ناشتے کے لئے انڈے اور ڈبل روٹی خریدے جاسکتے ہیں۔ مجھے اعتبار نہیں آیا۔مزید تحقیق سے مگر معلوم یہ ہواکہ تیل کے ذخائر سے مالا مال اس ملک کی 30لاکھ آبادی روزگار کی تلاش میں ہمسایہ ممالک جاچکی ہے۔ ان میں سے بیشتر پڑھے لکھے ہیں مگر دیگر ممالک میں بھکاریوں جیسی زندگی گزاررہے ہیں۔روزانہ اُجرت پر کام کررہے ہیں۔گزشتہ ہفتے نیویارک ٹائمز کے صفحہ اوّل پر ارجنٹائن کے بارے میں ایک تفصیلی مضمون چھپا تھا۔

IMFنے آج سے چند ہی سال قبل تک ’’بہت تیزی سے خوش حالی‘‘ کی جانب بڑھتے اس ملک کو بھی ایک بیل آئوٹ پیکیج دیا ہے۔ ارجنٹائن کی کرنسی کی قدر اس ’’بیل آئوٹ پیکیج‘‘ کے بعد آدھی رہ گئی ہے۔ ایک تہائی آبادی خطِ غربت سے نیچے جاچکی ہے۔ہمارے ہاں تو تیل بھی میسر نہیں۔ کیکڑا ون سے جو اُمید لگائی تھی وہ بھی خاک میں مل گئی۔ IMFسے بیل آئوٹ پیکیج کی پہلی قسط بھی ابھی نہیں آئی۔اس کی منظوری شاید جولائی کے پہلے عشرے میں دی جائے گی۔ متوقع منظوری سے قبل "Prior Conditions”پورا کرنا لازمی ٹھہرایا گیا ہے۔ ان شرائط میں سرفہرست پاکستانی روپے کی قدر کو ’’بازار میں موجود حقائق‘‘ کے مطابق بنانا ہے ’’معقولیت‘‘ کا یہ عمل جو قیامت ڈھارہا ہے اس کی جھلک جمعہ کے دن دیکھنے کو ملی۔ ایک ڈالر 150پاکستانی روپوں کے برابر ہوگیا۔

اس کے باوجود کوئی شخص اعتماد سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ قدر اسی سطح پر آنے والے کئی دنوں تک جمی رہے گی۔ بھاری بھرکم انگریزی بولنے والے ’’ماہرین معیشت‘‘ سے رجوع کرو تو وہ کندھے اُچکا کر Market Mechanismکا تذکرہ کرتے ہیں۔طلب اور رسد کے ’’بنیادی حقائق‘‘ پر توجہ دلاتے ہیں۔’’طلب‘‘ کی بات ہو تو یہ حقیقت کو ئی اجاگر نہیں کرتا کہ اگر متوسط طبقے کے ہزاروں افراد کے پاس فی الوقت دس سے پندرہ لاکھ روپے بھی بینک اکائونٹ میں موجود ہوں گے تو وہ اس کا وافر حصہ بینک سے نکال کرامریکی ڈالر کو خریدنا چاہیں گے۔ ڈالر کی طلب بڑھتی رہی تو پاکستانی روپے کی قدر 150تک ٹکی نہیں رہے گی۔ اس کے باوجود ہمیں یقین نہیں کہ IMFمزید گری قدر کو بھی جولائی میں ’’معقول‘‘ تصور کرے گا یا نہیں۔ڈالر کے علاوہ قصہ Cost Recoveryکے نام پر بجلی اور گیس کی قیمت بڑھانا ہے۔ ماضی میں حکومتیں کم گیس خرچ کرنے والوں پر ’’رحم‘‘ کرنے کے دعوے کرتی تھیں۔

اب کی بار OGRAنے جو Slabsمتعارف کروائے ہیں ان کے ذریعے کم گیس خرچ کرنے والوں کے بل دوگنا ہوجائیں گے۔ گرمی کے موسم میں فقط چولہے جلاکر شاید یہ اضافہ برداشت کرلیا جائے گا۔ نومبر2019کے بعد مگر اسلام آباد جیسے شہروں میں گیزرجلانا ضروری ہوجائیں گے جنہیں غلام سرور خان نے رعونت سے ’’عیاشی‘‘ ٹھہرایا تھا۔ ہیٹر کے بغیر بھی گزارہ ممکن نہیں۔ تنخواہ داروں کو اپنے بچے سرکاری سکولوں میں بھیجنا ہوں گے۔شاید کار بیچ کر موٹرسائیکل خریدنے کی ضرورت بھی محسوس ہو۔لاکھوں افراد اپنے موجودہ مقام سے پھسل کر جس تیزی سے غربت یا نچلے متوسط طبقے کی طرف پھسل رہے ہیں اس حقیقت کا ہمارے ریگولر یا سوشل میڈیا میں ذکرنہیں ہورہا۔ بلی کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھ بند کرکے حقائق کو نظرانداز کرنے کی کوشش۔

میڈیا میں تذکرہ مگر Structural Reformsکا ہے۔ ایمنسٹی سکیم دے کر کالے دھن کو سفید کرنے کی استدعا ہے۔ سٹاک ایکس چینج پھر بھی اُٹھ کے نہیں دے رہا۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ اور شبرزیدی کراچی میں بیٹھے سرمایہ کاروں کے منت ترلے کرنے میں مصروف ہیں۔ تنخواہ دار کا کوئی والی وارث نہیں۔اس کا دل بہلانے کو احتساب بیورو کے دعوے ہیں۔ ’’جعلی اکائونٹ‘‘ کے چرچے ہیں۔ دُکھوں کے مداوا کی کوئی صورت نظر نہیںآرہی اور دلوں میں سفاکی جاگزیں ہورہی ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے