معاشی حالات حاضرہ اور فاطمہ بھٹو کا تازہ ناول

کچھ عرصہ قبل تک معیشت میرے لئے لاطینی زبان کی طرح تھی۔ GNPاور GDPکے مابین فرق کو آج بھی اس کالم کے ذریعے سمجھا نہیں پائوں گا۔ 2017کے ستمبر میں ایک بزرگ نے مجھے نسبتاََ درشتی سے سمجھانے کی کوشش کی کہ ملکی سیاست میں جو ہنگامہ برپا ہے وجہ اس کی محض معیشت ہے۔

ان دنوں پانامہ کا قصہ چل رہا تھا۔ اس قصے کی وجہ سے آف شور کمپنی کا تصور ابھرنے کی وجہ سمجھ میں آئی۔اس کے بارے میں مزید پڑھا توTax Evasionور Tax Avoidance کے درمیان فرق کو جاننے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ تھوڑا جان لینے کے بعدبھی ان اصطلاحات کا ملکی سیاست سے براہ راست تعلق دریافت نہ کر پایا۔ ایک اور بزرگ بھی تھے۔ وہ کئی برس ورلڈ بینک جیسے اداروں کے لئے براہِ راست نہیں بالواسطہ کام کرتے رہے۔ بنیادی شعبہ اگرچہ ان کا علم سماجیات تھا۔پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی کے بارے میں ہمیشہ پریشان رہے۔ 1990کی دہائی کے آغاز میں مجھے تواتر سے متنبہ کرتے رہے کہ ہمارے ہاں جو نام نہاد Youth Bulgeاُبھررہا ہے وہ بالآخر دہشت گردی پھیلانے والوں کے کام آئے گا۔ میں نے ان کی بات پر توجہ نہیں دی تھی۔

2008سے لے کر پشاور میں سکول پر ہوئے حملے کے درمیانی سالوں میں ا حساس ہوا کہ شاید وہ درست کہہ رہے تھے۔ نادم ہوا کہ ان کی بات پر توجہ نہیں دی۔ آج صبح سے بہت دُکھی دل کے ساتھ مگر یہ سوچ رہا ہوں کہ میرے چند مہربان بزرگ جن معاملات پر مجھ جیسے ڈنگ ٹپائو لکھاریوں کو توجہ دینے کی تلقین کرتے ہیں ان پر نہایت خلوص سے تھوڑی تحقیق کے بعد لکھنے کی عادت اپنابھی لو تو فرق کیا پڑتا ہے۔پنجابی والی ’’ہونی‘‘ تو ہو کر رہتی ہے۔ آپ کے لکھے ہوئے کالم اسے ٹال نہیں سکتے۔مذکورہ خیال ذہن میں یہ نوٹس کرتے ہوئے چپکا رہا کہ گزشتہ کئی ہفتوں سے میرا لکھا ہر کالم معاشی مسائل کو زیر بحث لاتا رہا ہے۔

ڈالر کی اُڑان اس کے باوجود نہیں رکی۔ اب سٹیٹ بینک نے شرح سود بھی بڑھادی ہے۔ کسادبازاری اپنی جگہ قائم ہے۔ اس میں مزید اضافے کا ذکر ہورہا ہے۔ ’’کوئی صورت نظر نہیں آتی‘‘والا معاملہ ہے۔ پاکستان کے معاشی حقائق پر گزشتہ کئی ماہ سے توجہ دینے کی وجہ بنیادی طور پر ذاتی تھی۔ میری ماہانہ آمدنی میں بے تحاشہ کمی ہوئی تو صحافت میں پھیلی بدحالی اور بے روزگاری کو فکرمندی سے دیکھنے کو مجبور ہوا۔رپورٹر کے تجسس کے ساتھ لوگوں سے گفتگو شروع کی تو علم ہوا کہ کساد بازاری نے فقط صحافیوں ہی کو اپنا نشانہ نہیں بنایا۔ بتدریج ’’ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے سب…‘‘ والا قصہ شروع ہوچکا ہے۔ دریں اثناء ہمارے ایک بہت ہی جید مانے ماہر معیشت ڈاکٹر حفیظ پاشا کی رپورٹ بھی منظر عام پر آگئی ہے جو دعویٰ کرتی ہے کہ اگر ہماری معیشت کا موجودہ رحجان برقرار رہا تو آئندہ دو برسوں میں کم از کم چالیس لاکھ گھرانے خطِ غربت سے نیچے چلے جائیں گے۔

مستقبل کے جائزے لینا ڈاکٹر پاشا جیسے ماہرین کا بنیادی فریضہ ہے۔ ہم جیسے جاہل ان سے مگر یہ اُمید رکھتے ہیں کہ بدخبری اور اس کی وجوہات سنانے اور گنوانے کے بعد وہ کوئی ایسی راہ بھی ضرور بتائیں جسے اپناکر’’ہونی‘‘ کو ٹالا جاسکے۔معاشی حقائق کے بارے میں میرا ’’علم‘‘ انگریزی اخبارات میں چھپے مضامین اور کالم پر انحصار کرتا ہے۔ماہرینِ معیشت جب کسی ٹی وی سکرین پر کسی معاملے کی گتھیاں سلجھاتے سنائی دیں تو ریموٹ چھوڑ کر انہیں توجہ سے سنتا ہوں۔ کم از کم مجھے ابھی تک کوئی ایک شخص یہ بتاتا سنائی نہیں دیا کہ فلاں نسخے پر عمل شروع کر دیا جائے تو چند ہی دنوں میں شفا نصیب ہو جائے گی۔

اخباری مضامین یا ٹی وی پروگراموں کے ذریعے ملکی معیشت کو سمجھنے کی کوشش کرنے والے مجھ جیسے کالم نگار اپنے تئیں ایسے نسخے دریافت کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ معاشی مسائل تک خود کو محدود رکھتے ہوئے میں اس کالم میں ہر روز فقط ’’سیاپا‘‘ ہی کر سکتا ہوں اور مسلسل سیاپا فروشی سے مجھے گھن آتی ہے۔

ہماری سیاست بھی خود کو دہرائے چلے جارہی ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے گنے چنے افراد ہیں۔ ٹی وی ٹاک شوز میں وہ ایک دوسرے کے مدمقابل ڈٹے رہتے ہیں۔ ون پلس تھری کے فارمیٹ میں اینکر خواتین وحضرات ان سے ہر روز رجوع کرنے کو مجبور ہیں۔ اب تک ہم بخوبی جان چکے ہیں کہ فلاں سوال کس جماعت کے نمائندے سے کرو تو کیا جواب ملے گا ۔ اس جواب کا جواب درجواب کیا ہو گا۔ اخبارات کے لئے ان کی جانب سے جاری بیانات کا بھی یہی حال ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ معیشت کے بارے میں سیاپا نہیں کرنا۔ سیاست سے بھی جی اُکتا گیا ہے تو اس کالم میں کیا لکھا جائے۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈتے ہوئے یاد آیا کہ آج سے کئی ہفتے قبل عہد کیا تھا کہ فلموں، ڈراموں اور کتابوں کے بارے میں لکھا جائے گا۔یہ عہد بھی لیکن ’’وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوگیا‘‘والے انجام کو پہنچا۔

اس کے بارے میں شرمسار ہوتے ہوئے یاد آیا کہ اپنے سرہانے رکھے فاطمہ بھٹو کے تازہ ناول The Runawaysکے 85صفحات میںنے رات کو پڑھ لئے ہیں۔میرے پاس جو جلد ہے وہ 417صفحات پر مشتمل ہے۔

محض ابتدائی صفحات پڑھنے کے بعد مگر پورے ناول پر تبصرہ کرنا زیادتی ہو گی۔ آپ کو مگر یہ بتانا ضروری ہے کہ ٹی وی بند اور ٹیلی فون کی گھنٹی کو مدھم کرنے کے بعد رات کے دس بجے کے قریب میں نے جب یہ ناول شروع کیا تو سونے سے قبل مجھے اس کے کم از کم دو سو صفحات پڑھ لینا چاہیے تھے۔ عادتاََ میںایک Fast Readerہوں۔آج سے چند برس قبل تک ضخیم ترین کتابوں کو زیادہ سے زیادہ تین نشستوں میں کاملاََ پڑھ لیا کرتاتھا۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ذہن یقینا سہل پسند ہو گیا ہو گا۔ محض 85صفحات سے آگے نہ بڑھ پانا مگر ممکن نہیں۔میں بہت تیزی سے مذکورہ ناول کو پڑھ نہیں پایا تو اس کی وجہ مصنف کا اپنایا اندازِ تحریر ہے۔

فلم کی زبان میں گفتگو کروں تو سلوموشن میں اس کے کرداروں کا تعارف ہورہا ہے۔ ہر کردار نظر بظاہر ایک دوسرے سے اب تک کسی صورت جڑا نظر نہیں آرہا۔ مجھے گماں ہے کہ شاید کسی مقام پر ایسا ہوجائے۔ہوسکتا ہے ایسا نہ بھی ہو۔قطعاََ مختلف طبقات اور Localeسے متعلق اب تک سامنے آئے کردار بالآخر کوئی اجتماعی صورت فراہم کر سکتے ہیں۔ ایسا نہ ہوا تب بھی ان کی انفرادی کہانیوں سے شاید کوئی ایسا تھریڈ (Thread)مل جائے جو انہیں ایک دوسرے سے جوڑتا ہو۔

ناول کے ابتدائی صفحات پر چھائی سست روی سے گھبرا کر لیکن میں یہ ناول ختم کرنے سے باز نہیں آئوں گا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ میری بیوی نے اسے پڑھنے کے بعد میرے بستر کے سرہانے رکھا اور مجھے تلقین کی کہ میں اسے ہر صورت پڑھوں۔ بیوی کے حکم کی تعمیل میرا مقصد نہیں۔ وہ انگریزی ادب کی ایک سنجیدہ طالب علم ہے۔ میرے اور اس کے پسندیدہ لکھاری شاذہی مشترک نظر آئے۔ ہم ایک دوسرے کی پسند کو خوب جانتے ہیں اور اس کا احترام کرتے ہیں۔ میں The Runawaysکو پورا پڑھنے کو اس وجہ سے مجبور ہوں کہ کیونکہ میری بیوی نے اسے میری ترجیحات اور پسندیدہ طرزِ تحریر خوب جانتے ہوئے بھی Strongly Recommend کیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے