جماعت اسلامی

جس طرز سیاست کو اختیار کرکے ترک کی اسلام پسند جماعت نے کامیابی حاصل کی ، اسکے ابتدائی تجربات میں سے ایک 90 کی دھائی میں مرحوم قاضی حسین احمد نے پاکستان اسلامک فرنٹ کے نام سے کیا تھا ، پاکستان کی حد تک کسی بھی دینی شناخت رکھنے والی جماعت کا یہ اچھوتا تجربہ تھا لیکن وقت سے پہلے انتخابات اور خود جماعت اسلامی کی صفوں سے اس نئے ماڈل پرشدید تنقید نے یہ راستہ ایسا بند کیا کہ ابھی تک اسکے کھلنے کے امکانات نہیں ، سچی بات تو یہی ھیکہ اگر اسلامک فرنٹ کو کامیابی ملتی تو قاضی حسین احمد کی واہ واہ ہونی تھی اور رہی ناکامی تو اس کے ردعمل سے سے سب ہی آگاہ ہیں

قاضی حسین احمد نے تب کرپشن اور نظام کو موضوع بنایا{ عمران خان کامیابی سے یہ نعرے اچک چکے } اور اس طبقے کو متحرک کرنے کی تحریک کا آغاز کیا جو انتخابی عمل سے لاتعلق رہتے تھے انہی دنوں قاضی حسین احمد بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو ایک ہی سکے کے دو رخ قرار دیا کرتے تھے اسی تناظر میں ایک اور شاندار تجربہ پاسبان کے نام سے کیا گیا مختصر مگر پر اثر ایجنڈا رکھنے والی نوجوانوں کی تنظیم کا بنیادی نعرہ ظلم کیخلاف تھا پاسبان میں اسلامی جمعیت طلبہ کے برعکس پہلی بار ڈھیلا ڈھالا نظم قائم کیا گیا اور پہلے مرحلے میں پولیس کے محکمے کو فوکس کرکے تمام سیاسی جماعتوں اور عام نوجوانوں کو اس مہم میں شامل کیا گیا ، اسکے نتائج ناقابل یقین تھے یہاں تک کے عمران خان کو اسپتال کے چندے کے حصول کے لئِے پاسبان کیساتھ ملکر مہم چلانی پڑی ، نوجوانوں کی اتنی بڑی قوت کو مجتمع ہوتا دیکھ کر ملک کے اصل حاکموں نے پاسبان کیساتھ جو سلوک کیا وہ اب تاریخ کا حصہ ھے ، لیکن یہاں پاسبان قیادت کی ھٹ دھرمی اور جماعت اسلامی کی انا کا زکر نا کرنا بھی زیادتی ہوگی جسکے نتیجے میں اسلامک فرنٹ و پاسبان ماضی کا حصے بنے

گزشتہ عام اور حالیہ بلدیاتی الیکشن جماعت اسلامی کے لئِے مسلسل خطرے کی گھنٹی بجا رھے ہیں پنجاب اور سندھ کے قومی و علاقائی انتخابات میں جماعت کہیں نہیں ھے البتہ کراچی کی بابت حسن ظن ضرور ھیکہ اس بار کچھ نا کچھ محنت وصول ہو جائے گی اسکے لئیے کچھ دن کا انتظار باقی ھے

سوال یہ ھیکہ جماعت اسلامی کیا کرے ؟؟؟؟ اس انتخابی بحران سے کیسے نکلا جا ئے ؟؟؟؟ سب سے اہم بات یہ ھیکہ جماعت اسلامی کی اپنی شوری اس معاملے کو بہتر سمجھتی ھے اسکا اپنا اجتہاد اور رائے ھے جسے وہ میسر راستوں میں بہتر سمجھتے ہیں لیکن ہم جیسے ناھنجار جو ایسی تحاریک سے امیدیں لگائے بیٹھیں ہیں درد مندی کیساتھ کچھ مشورے دینے پہ خود کو مجبور پاتے ہیں ، جسکے بارے میں کہا جاتا ھیکہ یہ دنیا کا سب سے سہل کام ھے

جماعت اسلامی اگلے کم از کم 25 اور زیادہ سے زیادہ 50 برس کے لائحہ عمل ترتیب دے جس میں پہلے مرحلے کے طور پہ انتخابی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کیجائے یا پھر خیبر کی حد تک الیکشن لڑا جائے جہاں تبدیلی اور کامیابی کے لئے لوگ تیار ہیں یا پھر زیادہ سے زیادہ کراچی ، لیکن اسکا فیصلہ بلدیاتی نتائج کیمطابق کیا جائے
ان 25 برس میں مختلف شعبہ جات اور کاموں کو تقسیم کیا جاسکتا ھے جس کا انحصار دعوت ، تنظیم اور کاروبار ہو ۔۔ جی بالکل کاروبار کے لفظ پہ آپ یقینا چونکے بھی ہونگے اور مسکرائے بھی اس پہ بعد میں بات کرتے ہیں پہلے دعوت اور تنظیم کیطرف آتے ہیں

اس عرصے میں بلوچستان سندھ پنجاب گلگلت اور کشمیر و خیبر کے دیہاتوں اور شہروں میں تعلیمی ادارے جامعات قائم کی جائیں اسکا طریقہ کار کچھ یوں ہو مسجد اسکول کمیونٹی ہال اسپتال ایک ساتھ بنائے جائیں اس دوران جب بغیر کسی لالچ کے لوگوں کی مسائل میں دلچسپی لی جائے گی تو انہیں لگے گا واقعی کوئی انکا ہمدرد آیا ھے

اس عمل میں دعوتی ٹیمیں کم از کم ایک سال اور زیادہ سے زیادہ 5 سال کے لئیے ان علاقوں میں کام کریں اسکا مقصد جہاں دعوت ہوگا وہیں ارد گرد کے لوگوں کو بتایا جائیگا کہ تحریک اسلامی کی ریاست کا ماڈل کیسا ہوگا اسی طرح انتہائی اعلی معیار کے تعلیمی ادارے جیسا کہ عثمان پبلک اسکول وغیرہ ہیں قائم کئیے جائیں جہاں کے نصاب سے داعی مبلغ فلسفی مجاھد اور پروفیشنلز نکلیں اور یہی طلبہ تحریک کا اصل سرمایا ہونگے اسی کیساتھ خدمت کے شعبے کو بھی متحرک کیا جائے گا لیکن تھر میں اربوں کے کنویں کھودنے کے انداز میں نہیں بلکہ ترتیب اور زرخیز زمین کے حساب سے ، آپ کہیں گے کہ یہ سب اب بھی ہور ھا ھے ، بالکل درست لیکن معاملہ یہ ھیکہ جب انتخابی سیاست سے الگ ہوکر یکسوئی کیساتھ یہ کیا جائیگا تو اسکے نتائج الگ ہی نظر آئیں گے اور موجودہ صورتحال میں فلاحی کاموں کے مطلوبہ نتائج مل نہیں رھَے { اجر الگ پہلو ھے یہاں وہ زیر بحث نہیں کیوںکہ یہاں یک نکاتی ایجنڈا پر غور ھَے وہ ھے فتح }

اس معاملے کا دوسرا ہم پہلو کاروبار ھے ، ہر وہ تحریک جو اپنے وسائل خود پیدا کرتی ہو اسکا اور عطیات کی بنیاد پہ کام کرنے والوں میں فرق ہوتا ھے بلاشبہ تحریک اسلامی کو عطیات دینے والے بہت ہیں اور اس معاملے دیانت داری بھی اپنی مثال آپ ھے لیکن صرف یہ کافی نہیں ھے ، بلکہ ان عطیات کی مدد سے تحریک کا ایک کل وقتی شعبہ سرمایا کاری کو ترجیح بنائے اور خدمت کے کاموں کو بتدریج کم کرتا چلا جائے ایک لمحے کو سوچئِے تحریک اسلامی کوئی مشروب لاتی ھے جسکی تشہیری مہم میں بتایا جاتا ھیکہ اسکی کل آمدنی دینی فلاحی کاموں میں صرف ہوتی ھے تو اسکا رسپانس کیا ہوگا ؟؟؟؟

ساتھ ہی یاد رھے ان تمام معاملات میں معیار سب سے زیادہ ضروری ھے جس پہ قطعا سمجھوتہ نا کیا جائے چاھے اسکے بدلے میں منصوبہ موخر ہی کیوں کرنا پڑے ، سب جانتے ہیں جماعت اسلامی کی ایک ساکھ ھے اور جب جماعت اسلامی کوئی رہاشی منصوبہ یا اس سے ملتے جلتے دیگر سرمایا کاری کے کام کریگی تو لوگ اسکی ساکھ کی بنیاد پہ تعاون کرینگے یہاں یہ بھی یاد رھے اس دوران دعوتی سرگرمیوں کے لئے جانے والے افراد کی اہل خانہ کی رہائش اور جملہ اخراجات وغیرہ اسی نفع میں سے پورے کئے جائیں جو کاروبار کے نتیجے میں حاصل ہوگا

دعوتی سرگرمیوں کے لئے ٹیلی چینل اور ایف ایم اسٹیشنز کا قیام عمل میں لایا جائے پھر یاد رھے کہ ایسے چینلز وقت کی اہم ضرورت ہیں اور انکی ریٹنگ زبردست رھے گی کیونکہ پاکستان میں مذھب کے نام پہ مدنی چینل ھے یا پھر ڈش کے زریعے آنے والا پیغام ٹی وی تحریکی چینلز پر نا صرف امت مسلمہ کی خبریں ہوں علاقائی و عالمی مسائل اور پاکستانی عوام کے بنیادی ایشوز کو بھی کچھ وقت کے لئے نمایاں کیا جائے اور یہاں سے دعوت کام مسلک کی تفریق کے بغیر کیا جائے تاکہ ایک ہم آھنگی کا پیغام جاسکے اسکے زریعے ریاست کے باب میں تحریک اسلامی کا موقف عوام الناس تک پہنچایا جائے اس ضمن میں پیس ٹی وی یا انگلینڈ کا اسلام ٹی وی یا پھر عرب مماک میں ایسے چینلز سے استفادہ کیا جاسکتا ھے

بہت سے احباب کا خیال ہوگا کہ اگر ہم پارلیمان میں نا رھے تو خدا نخواستہ سب برباد ہو جائے گا ایسے حضرات کی خدمت میں اطلاعا عرض ھے کہ متحدہ مجلس عمل کے دور میں سب زیادہ مذھبی شناخت رکھنے والے افراد پارلیمان کا حصہ تھے لیکن اسکے باوجود متنازعہ حدود آرڈینس کا ترمیمی بل منظور ہوا دوسری طرف مذھبی افراد کی قلیل تعداد کے باوجود توہین رسالت اور 18 ویں اور دیگر ترامیم میں اسلامی دفعات کو نہیں چھیڑا گیا جسکی بنیادی وجہ سڑکوں پہ لاکھوں افراد کی موجودگی تھی ، اس 25 یا 50 سال کے عمل کے دوران کروڑوں پاکستانیوں کو اسلامی تحریک کی پشت پہ لا کھڑا کیا جاسکتا ھے اور لاکھوں ایسے سربکف نظریاتی افراد ہونگے جو اس تحریک کے لئے سب کچھ کر گزریں گے اور سب اہم یہ کہ یہ سب وہ لوگ ہیں جن کا ابھی جماعت اسلامی سے کوئی تعلق نہیں صرف نام کی حد تک آگاہ ہیں ، یہاں یہ بھی پیش نظر رھے کہ بڑی آبادی کیوجہ سے دعوتی کام کے مواقع بھی اتنے ہی زیادہ ھیں

اس طویل پیچیدہ مگر نظریاتی کام کا نتیجہ بھی شاندار نکلے گا اسکے بعد اسلام آباد میں ڈیرے ڈال کر یا پھر انتخابی سیاست کو اختیار کرکے بہت کچھ بدلا جاسکتا ھے ، اصل بات یہ ھیکہ انتخابی سیاست سید مودودی کی اٹھائی دعوتی تحریک کا ایک جز یا ٹول تھا لیکن بدقسمتی سے انکے پیروکاروں نے اسے کل میں تبدیل کرکے دعوتی محاذ تقریبا خالی چھوڑ دیا جسکے نتائج ہمیشہ منفی رھے

یاد رھے کہ داعی کے طور پہ کام کرکے اس قوم کو سیدھی راہ دکھانی ھے جس میں دردمندی و دلسوزی نہایت ضروری ھے اور اسے مولانا طارق جمیل سے بخوبی سیکھا جاسکتا ھے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے