بے شک سب تعریفیں اسی ذات بے ہمتا کو زیبا ہیں جو ہم بائیس کروڑ خطا کے پتلوں کی کوتاہیوں سے صرف نظر کرتی ہے اور اپنی فیض رسانی کے چشمہ حیواں سے حمید گل مرحوم و مغفور کا نعم البدل عطا کرتی ہے۔ بے شک انسان خسارے میں ہے کہ شکوہ بے جا کا عادی ہے اور نہیں سمجھتا کہ وسیع تر قومی مفاد کی فہم وہ نعمت عظمیٰ ہے جو سینہ گیتی پر رینگنے والے آب و گل کے عامی نمونوں کے لئے موزوں نہیں۔ انسان مگر لوبھی ہے کہ اپنی حدود نہیں جانتا اور صاحبان ذی وقار کی حکمت رسا پر سوال اٹھاتا ہے۔ اپنی ملت پر اقوام مغرب سے قیاس کرتا ہے اور مبدا اولیٰ سے شرف جلالت پانے والی قدسی ارواح سے جواب دہی کی جسارت کرتا ہے۔ یقیناً وہ وقت دور نہیں جب مشرق سے طلوع ہوتے سورج کی ضیا پاش کرنوں میں یہ گمراہ، تہی دست، تہی کیسہ اور پست خیال انبوہ جان لے گا کہ صاحبان عالی مقام نے کس بصیرت سے قوم کا وہ نصب العین طے کیا کہ چار دانگ عالم میں ہماری عظمت کا ڈنکہ بج رہا ہے، ہماری شوکت کے پھریرے لہرا رہے ہیں۔
ہمارے وقار کا سکہ مشرق و مغرب کی ولایتوں میں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ ہمارے مقسوم کا یہ فرمان فردا تاریخ کی لوح پر کندہ ہو چکا اور اس روشن دن کے ظہور میں صدیاں، قرن، عشرے اور برس نہیں، بس چند روز کا انتظار باقی ہے، فقط چند ہی روز… پردہ غیب کے اسرار جاننے والے آگاہ ہیں کہ بشارت کا لمحہ ہاتھ بھر کے فاصلے پر ہو تو آزمائش کی سختی بڑھ جاتی ہے۔ اس آزمائش کو سمجھنے کے لئے تفکر کا اشارہ دیا گیا ہے۔ ہم تسلیم کے بندے ہیں۔ جہاں تفکر کا حکم ہوا، وہاں سوچ بچار کریں گے، جہاں تدبر کی تلقین کی گئی، وہاں تدبیر سے کام لیں گے۔ اور جب فراخی کا زمانہ آن لگے گا تو شکر بجا لائیں گے۔
لمحہ موجود کی تصویر بہرصورت کچھ اس زاویے سے کھینچی گئی ہے کہ اس کا کوئی رخ روشن نہیں۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے 26تاریخ کو کل جماعتی کانفرنس طلب کی ہے۔ ابھی سے بتایا جا سکتا ہے کہ اس کانفرنس سے مردہ لفظوں کے ایک اعلامیے کے سوا کچھ برآمد نہیں ہوگا۔ قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس 29جون کو ختم ہوگا۔ ابھی سے بتایا جا سکتا ہے کہ غریب دشمن ہو یا غریب دوست، بجٹ بہرحال منظور ہو جائے گا۔ یہ دعوے کسی خصوصی خبر کی بنیاد پر نہیں کئے گئے۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ موجودہ انتظام کی بساط بچھانے والے کارکنان قضا و قدر کو فی الحال سیاسی منظر میں کوئی تبدیلی منظور نہیں۔ ایک موہوم سا احتمال نومبر کے آخری ہفتے کے بارے میں پایا جاتا تھا۔
بفضل تعالیٰ وہ خدشہ بھی رفع ہو چکا۔ یہاں تک کہ ایک مجاہد صحافی نے تو گزشتہ ہفتے ہونے والی تعیناتیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے، غالباً نادانستہ طور پر، 2022پر گرہ بھی لگا دی۔ گویا نومبر 2019تو میر تقی میر کے نام رہے گا، اب کے بھی دن بہار کے یونہی گزر گئے… دل خانہ خراب کی باتیں دیکھئے، میر صاحب سے زقند پھری تو سیدھا عدیم ہاشمی مرحوم تک پہنچا۔ غزل کی صنف میں یہی خوبی درویش کو بھاتی ہے کہ دو مصرعوں کا بیت زمان و مکان کی قید سے آزاد ہو کر ہر نوع کی صورت حالات پر خال رخ یار کی طرح بہار دیتا ہے۔
تیرے لئے چلے تھے ہم، تیرے لئے ٹھہر گئے
تو نے کہا تو جی اٹھے، تو نے کہا تو مر گئے
من و تو کے یہ ناز و نیاز تو شاعروں کے کھیل ہیں۔ سیاستدان کو زیادہ چوکنا ہونا چاہئے۔ محترمہ مریم نواز کی پہلی پریس کانفرنس پر داد کے ڈونگرے برسائے جا چکے۔ تعریفوں کے اس کوہ گراں میں کسے خیال رہتا کہ خاتون معظم نے قافیہ پیمائی کے خروش میں قوم کی ایک قیمتی امید پامال کر ڈالی۔ میثاق معیشت کو مذاق معیشت کہنے سے ضلع جگت کا پہلو تو نکل آیا، لیکن تاریخ کا خون ناحق ہو گیا۔ مئی 2006میں بینظیر شہید اور محترم نواز شریف میں میثاق جمہوریت طے پایا تو پرویز مشرف اور اس کے حواریوں پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔ عشروں کی محنت شاقہ سے یہ تصور راسخ کیا تھا کہ سیاستدان ہوس اقتدار میں مبتلا ایک مفاد پرست گروہ ہے جو غیر جمہوری قوتوں کے ایک اشارے پر دستور اور جمہوری اصولوں کو روندتے ہوئے اقتدار کے دستر خوان پر آن بیٹھتا ہے۔
اگر مفید مطلب اشارے میں تاخیر ہو تو خود سے نامہ و مکتوب کی طرح ڈال کر غیر جمہوری قوتوں کو مدعو کرتے ہیں۔ ایئر مارشل اصغر خان کا 1977میں لکھا خط تو زبان زد عام ہو چکا، ایوب خانی ٹولے کے ارکان بھی ایسے مبینہ خطوط موصول ہونے کے دعوے کیا کرتے تھے۔ 1990کی دہائی میں نواز شریف اور بینظیر بھٹو کی سیاست نے اس تاثر کو پتھر پر لکیر کر دیا۔ اس پس منظر میں میثاق جمہوریت کے ذریعے ملک کے دو اہم ترین سیاستدانوں نے اتفاق کیا کہ آئندہ کسی غیر جمہوری مداخلت کی تائید نہیں کی جائے گی۔ 1973کے دستور کے بعد میثاق جمہوریت سیاسی بندوبست کے خدوخال بیان کرتی اہم ترین دستاویز ہے۔ میثاق جمہوریت ہی سے اٹھارہویں ترمیم کا راستہ ہموار ہوا۔
میثاق جمہوریت آمریت پسند ذہن کے لئے تازیانے سے کم نہیں تھا۔ چنانچہ بھنا کر مذاق جمہوریت کی پھبتی کسی گئی۔ اس مکتب فکر کے لئے جمہوریت واقعتاً مذاق ہی کی حیثیت رکھتی ہے۔ میثاق جمہوریت اپنی دور رس اہمیت کے باوجود پاکستان کو درپیش تاریخی بحران کا مکمل احاطہ نہیں کرتا۔ جمہوری عمل میں غیر سیاسی مداخلت کا حقیقی مقصد معاشی وسائل پر اجارہ ہے۔ چنانچہ انہی خطوط پر میثاق معیشت کی ضرورت محسوس ہوئی۔ میثاق معیشت کی مثالی صورت یہ ہے کہ پاکستان کے سیاسی اور ریاستی فریق مل بیٹھ کر ایسے معاشی خطوط اور ترجیحات طے کریں جن کی روشنی میں پاکستان کو ایک دست نگر معیشت کی بجائے پیداواری معیشت کے راستے پر گامزن کیا جا سکے۔ ہمارے اخراجات عدم توازن کا شکار ہیں۔
ہماری واحد امید انسانی سرمائے کے بہتر معیار سے منسلک ہے اور اس کے لیے معیاری تعلیم کا اہتمام کرنا ہو گا۔ میثاق معیشت کا مقصد ایسا وسیع تر اتفاق رائے ہونا چاہئے جس میں قومی سلامتی کے تقاضوں کو پوری طرح ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے قوم کے معاشی امکان کو بروئے کار لایا جا سکے۔ موجودہ صورت حال میں ایسے تدبر اور بالغ نظری کے امکانات معدوم ہیں لیکن پاکستان کی قیادت کو جلد یا بدیر ان خطوط پر سوچنا پڑے گا۔ قومی معیشت چلانے کا یہ کوئی مناسب ڈھنگ نہیں کہ ہر سال نیا قرض لے کر پچھلا قرض چکایا جائے۔ میثاق معیشت کو مذاق کہنا مناسب نہیں، یہ قوم کے سود و زیاں کا سوال ہے۔