اسکول میں جب ہم معاشرتی علوم پڑھتے تھے تو غالباً آٹھویں جماعت میں ایک باب مغل سلطنت کے زوال کے اسباب سے متعلق ہوا کرتا تھا، مجھے یہ بہت پسند تھا کیونکہ ہر سال اِس سے متعلق ایک سوال ضرور آیا کرتا تھا، اِس عظیم سلطنت کے زوال کی جو وجوہات ہمیں پڑھائی گئیں اُن میں سے ایک وجہ یہ بھی بتائی گئی کہ مغل بادشاہ عیش و عشرت میں پڑ گئے تھے، گانے بجانے کی محفلیں برپا کرتے تھے، محلات میں کنیزیں اور لونڈیاں ہوا کرتی تھیں جن کے ساتھ ان کے شب و روز گزرا کرتے تھے اور یوں وہ سلطنت کے امور سے غافل ہو گئے اور رفتہ رفتہ اقتدار اِن بادشاہوں کے ہاتھ سے نکل گیا۔
اُس وقت یہ وجہ ہم نے رٹ لی اور جب امتحان میں سوال آیا تو خوب مرچ مصالحہ لگا کر لکھا۔ کئی برس بعد یونیورسٹی میں ایک استاد سے اِس موضوع پر بحث ہوئی تو اُس مردِ عاقل نے یہ باریک نکتہ سمجھایا کہ برخوردار دنیا کا ہر بادشاہ عیاش ہوتا ہے، اگر وہ عیاشی نہ کرے تو اُس کی بادشاہت کس کام کی، لہٰذا مغل سلطنت کے زوال کے باب میں اپنی یہ غلط فہمی دور کرلو۔ یہ غلط فہمی نہ صرف میرے استاد نے دور کی بلکہ ہنری ہشتم نے بھی دور کر دی جو انگلستان کا عیاش بادشاہ تھا۔
ہنری ہشتم کی ملکہ کا نام کیتھرین تھا، اس زمانے میں ملکہ کا بنیادی کام بادشاہ کے لئے بیٹا پیدا کرنا ہوتا تھا جو سلطنت کا وارث بن سکے، اولاد پیدا ہو کر مر جاتی پھر بڑی مشکل سے ایک بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام میری رکھا گیا۔ اس تمام عرصے میں بادشاہ سلامت ملکہ سے بیزار ہو گئے، دریں اثنا اُن کا دل ایک بے حد حسین لڑکی پر آ گیا اور ایسا اکثر ہو جاتا تھا کیونکہ موصوف کافی عاشق مزاج تھے، اِس مرتبہ کا عشق مگر کچھ مختلف تھا، لڑکی کا نام این بولین تھا اور اِس کی بڑی بہن اِس سے پہلے بادشاہ کے حرم میں رہ چکی تھی۔ این کی عمر اُس وقت بیس سال تھی اور وہ کوئی معمولی لڑکی نہیں تھی، وہ فرانس میں انگلستان کے سفیر کی بیٹی تھی اور یوں امور سلطنت کے ادب و آداب سے بخوبی واقف تھی، اس کے رکھ رکھاؤ، ناز و انداز، گفتگو اور نشست و برخاست پر ہنری فریفتہ ہو گیا، این سے شادی کر کے سلطنت کا وارث پیدا کرنا اب اُس کی واحد آرزو تھی مگر اس میں ایک رکاوٹ تھی، بادشاہ کی پہلی بیوی، کیتھرین۔
یہ بادشاہ کے بڑے بھائی کی بیوہ تھی، ہنری کو یقین ہو گیا کہ اُس نے بھائی کی بیوہ سے شادی کر کے گناہ کا ارتکاب کیا ہے، یہ حرکت چونکہ بائبل کی تعلیمات کے خلاف ہے لہٰذا خدا اسے بیٹے سے نہیں نواز رہا، عین ممکن ہے یہ تاویل ہی ہو مگر بادشاہ نے اپنا یہی کیس بنا کر کلیسائے روم کے سامنے رکھا اور درخواست کی کہ کیتھرین سے اُس کی شادی منسوخ کی جائے تاکہ وہ این بولین سے شادی کر سکے۔ یہ معاملہ بہت نازک تھا، کلیسا نے ہی تو پہلے ہنری کو اجازت دی تھی کہ وہ اپنے بھائی کی بیوہ سے شادی کر سکتا ہے اور اب ہنری چاہتا تھا کہ اس شادی کو منسوخ کر کے دوسری شادی کی اجازت دی جائے، یہ ممکن نہیں تھا، یہاں سے بادشاہ اور کلیسا کے درمیان تناؤ شروع ہوا جو بڑھتا ہوا اِس نہج پر پہنچ گیا جہاں ہنری ہشتم نے فیصلہ کیا کہ کلیسائے روم کا اختیار ختم کر دیا جائے۔
یہ ذمہ داری اُس نے اپنے مشیر خاص تھامس کرامویل کے سپرد کی، کرامویل نے چرچ آف انگلینڈ کو رومن کلیسا سے علیحدہ کر دیا، نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ چرچ بادشاہ کے زیر نگیں ریاست کا ایک دینی ادارہ بن گیا جبکہ بادشاہ زمین پر خدا کا نائب مانا گیا۔ جنوری 1533میں ہنری ہشتم کی شادی این بولین سے ہو گئی، اسی سال مئی میں آرک بشپ نے بادشاہ کی پہلی شادی منسوخ کر دی ، کلیسائے روم کی اتھارٹی ختم ہو گئی ، آرک بشپ آف کینٹ بری چرچ آف انگلینڈ کا سربراہ بن گیا،سب ہنسی خوشی رہنے لگے،سوائے بیچارے تھامس کرامویل کے جسے بادشاہ نے بعد میںبغاوت کے جرم میں مروا دیا(یہ کہانی پھر کبھی)۔
ہنری ہشتم کو انگلستان کی تاریخ میں جو مقام حاصل ہے شاید ہی وہ کسی دوسرے بادشاہ کے حصے میں آیا ہو، انگلستان سے کلیسائے روم کا اختیار ختم کرنے کا سہرا اسی بادشاہ کے سر ہے،Reformation کی تحریک کی شروعات اسی بادشاہ نے کیں، برطانیہ کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز اس کے بعد ہوا۔
انگلستان کے تمام بڑے سائنسدان، ماہر فلکیات، کیمیا دان، ریاضی دان، فلسفی جنہوں نے انگلستان کی ترقی کی بنیاد رکھی اس دور کے بعد کی پیداوار ہیں، شاید ہی کوئی نمایاں نام ہو جو ہمیں 1500سے پہلے نظر آجائے، یہ وہ بنیادی وجہ تھی جس نے انگلستان کو بعد میں عروج پر پہنچایا اور پھر اسی انگلستان کی پیروی دیگر یورپی اور مغربی اقوام نے بھی کی مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہنری ہشتم غیر مذہبی ہو گیا تھا، وہ رومن کیتھولک ہی رہا، فرق صرف یہ پڑا کہ اُس نے پاپائے اعظم اور رومن چرچ کا مطلق اختیار ختم کر دیا، چرچ آف انگلینڈ بادشاہ کے تابع ہو گیا، نتیجہ یہ نکلا کہ سوچنے اور سوال اٹھانے کی آزادی ہو گئی، سائنسی سوچ اور تنقیدی شعور پروان چڑھنے لگا، کائنات اور انسان کے متعلق معاملات پر نت نئی تحقیق شروع ہو گئی مگر یہ سب کچھ ایک دن میں نہیں ہوا اور نہ ہی ایک بادشاہ کی وجہ سے ہوا، مختلف لوگو ں نے یورپ میں انہی خطوط پر جدو جہد کی جس کی وجہ سے یورپ میں نشاۃ ثانیہ کا ظہور ہوا۔
دراصل یہ reformationکی تحریک تھی جس نے انگلستان کو علیحدہ موٹر وے پر ڈال دیا اور وہ باقی دنیا سے آگے نکل گیا۔ یہاں ایک بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ بہت سے ایشیائی ممالک ایسے تھے جہاں رومن کلیسا جیسی اتھارٹی موجود نہیں تھی جسے کوئی شہنشاہ آ کر ختم کرتا اور پھر ترقی ہوتی تو اُن ممالک میں reformationکیوں نہیں ہوئی اور انگلستان یا یورپ میں کیوں ہوئی؟ اس سوال کے دو جواب ہیں۔
سائنسی سوچ، تنقیدی شعور، تحقیق اور سوال اٹھانے کی آزادی وہ بنیادی اجزا ہیں جن کے بغیر ترقی ممکن نہیں، یہ تو ہو سکتا ہے کہ کسی ملک میں یہ آزادیاں موجود ہوں اور وہ پھر بھی ترقی نہ کر سکے مگر یہ ممکن نہیں کہ کسی ملک میں یہ بنیادی اجزا ہی نہ ہوں اور وہ دنیا کی سپر پاور بن جائے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ ترقی علم کے بغیر ممکن نہیں اور علم کا مطلب اپنی کم علمی کا اعتراف کرنا ہے، جب تک کوئی قوم یہ اعتراف نہیں کرتی کہ وہ کائنات کے اسرار سے لا علم ہے اور اس لئے ان کا کھوج لگانا چاہتی ہے اس وقت تک وہ قوم سائنسدان اور فلسفی پیدا نہیں کر سکتی۔ یورپ نے یہ اعتراف کیا اور پھر ترقی کی مگر اس ترقی کی وجہ صرف ہنری ہشتم نہیں اور بھی بہت ہیں، ان کا ذکر اگلے کالم میں۔