محترمہ کشورزہرا غالباََ ایم کیو ایم کے بنیادی اراکین میں سے ایک ہیں۔ان دنوں قومی اسمبلی میں اس جماعت کیلئے مختص ہوئی خواتین کی نشستوں میں سے ایک پر تشریف فرما ہیں۔منگل کے روز انہوں نے عمران حکومت کے پہلے بجٹ پر عمومی بحث میں حصہ لیا۔ ان کی مختصر تقریر نے مجھے حیران کے بجائے پریشان کردیا۔ کسی بھی سیاسی جماعت کے نظریے اور اندازِ سیاست کے بارے میں ہزار ہا تحفظات رکھنے کے باوجود میں ان کے کارکنوں کا دل سے احترام کرتا ہوں۔
میری دانست میں قدآور رہ نمائوں کے مقابلے میں یہ کارکن گلی محلوں میں بسے غریب عوام کے دل ودماغ میں موجود سوچ کے حقیقی نمائندے ہوتے ہیں۔محترمہ کی منگل کے روز ہوئی تقریر نے مجھے پریشان کردینے والا پیغام یہ دیا کہ لندن میں گوشۂ نشین ہوئی قیادت سے تمام ترلاتعلقی کے باوجود اپنے ساتھ ’’پاکستان‘‘ کا لاحقہ لگانے والی ایم کیو ایم کے بنیادی اراکین کی اکثریت غصے کی اس شدت کو بھلانہیں پائی ہے جو چند جائز مگر زیادہ تر دہائیوں سے اُبلتے تعصباب کی بدولت پیپلز پارٹی کے خلاف 1970کی دہائی سے ان کے دلوں میں موجزن ہے۔
کشور زہرا صاحبہ نے دعویٰ کیا کہ 1993اور 1994 کے دوران ان دنوں کے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر کے حکم پر کراچی سے ان کی جماعت کے ’’مسنگ پرسن‘‘ اسلام آباد لائے گئے۔ نواز شریف صاحب کی دوسری حکومت میں وزیر داخلہ رہے چودھری شجاعت حسین کو ان کیساتھ ہوئے سلوک کا بخوبی علم ہے۔محترمہ کشور زہرا کو اسلام آباد کی مارگلہ کہلاتی پہاڑیوں سے ’’مسنگ‘‘ ہوئے نوجوانوں کے ’’خون کی خوشبو‘‘ آتی رہتی ہے۔شاید اس ’’خوشبو‘‘ کو بھلانے کیلئے محترمہ کشور زہرا صاحبہ وزیر اعظم کو یاد دلاتی رہیں کہ ’’چوروں کے ہاتھ کاٹنا ہوتے ہیں‘‘۔ نیب کی حراست میں کرپشن کے الزامات کا سامنا کرتے ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کے ہاتھ اگر آئینی اور قانونی رکاوٹوں کے سبب کاٹے نہیں جاسکتے تو کم از کم ان میں سے چند ایک کی ’’اُنگلیاں‘‘ کاٹتے ہوئے انہیں عبرت کا نشان ضرور بنانا چاہیے۔ ان کا اصرار تھا کہ پاکستانی عوام کی بے پناہ اکثریت کی خواہش وہی ہے جو انہوں نے بیان کی۔
یہ سب لکھنے کے بعد مجھے یہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ محترمہ کشور زہرا صاحبہ درحقیقت نیب کی حراست میں ان دنوں موجود کس رہ نما کی اُنگلیاں کٹی دیکھنے کو بے چین ہیں۔ مسئلہ اِس یا اُس ’’چور اور لٹیرے‘‘ کا نہیں۔میری پریشانی کا حقیقی سبب شدید نفرت بھرے اس غصے کا قومی اسمبلی کے فلور پر اظہار تھا۔محترمہ کشور زہرا صاحبہ کو ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے ٹوکنے کا تردد نہیں کیا۔ اپوزیشن بنچوں میں سے کسی رکن نے اُٹھ کر جوابی تقریر کے ذریعے آگ بھڑکانے سے اجتناب برتا۔ معاملہ بڑھا نہیں۔دلوں میں لگی گرہوں کا مگر اظہارہوگیا۔ مجھے اس سے خوف آیا۔منگل کے روز وفاقی وزیر فیصل واوڈا صاحب نے بھی ایک دھواں دھار خطاب فرمایا۔
اس سے چند ہفتے قبل وہ حامد میر کے شو میں پانچ ہزارکرپٹ لوگوں کو سرعام پھانسی لگوانے کی خواہش کا اظہار بھی کرچکے تھے۔ اپنی تقریر میں انہوں نے پھانسی دینے سے قبل ’’کرپٹ لوگوں‘‘ کو جیپوں کے پیچھے باندھ کر سڑکوں پر گھسیٹنے کی خواہش بھی بیان کر دی۔ ان کی تقریر کسی کھڑکی توڑ رش لینے والی فلم کے اسکرپٹ کی طرح سنائی دی۔ ایسی فلم جہاں ’’گنڈاسے‘‘ لہراتے ’’مولاجٹ‘‘ جیسے سماج سدھار معاشرے کو ظالموں سے نجات دلاتے نظر آتے ہیں۔ سکرین پر خون کی دھاریں اُچھلتی ہیں۔گلیوں میں لاشیں بکھری ہوئی نظر آتی ہیں اور ’’بارہ آنے والی‘‘ نشستوں پر بیٹھے ’’ذلتوں کے مارے‘‘ سیٹیاں اور تالیاں بجاتے ہوئے ’’ظالموں کے سبق آموز انجام‘‘ سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
محترمہ کشور زہرا صاحبہ کی خواہش اور یادداشت اس ضمن میں البتہ کافی Selective تھی۔ ’’دیوانہ بکار خویش ہوشیارباش‘‘ والا قصہ تھا۔ ان کی تقریر سے چند ہی لمحے قبل ڈاکٹر فہمیدہ مرزا صاحبہ نے بھی وزارتی بنچوں سے ایک تقریر فرمائی۔ ڈاکٹر صاحبہ قاضی عبدالمجید عابد صاحب کی دُختر ہیں۔وہ سندھ کے ایک نامور صحافی شمار ہوتے تھے۔ 1985کی قومی اسمبلی میں آئے تو جونیجو مرحوم نے انہیں وزارتِ اطلاعات کا مدارالمہام بنادیا۔ ذاتی ملاقاتوں میں مجھ سے بہت شفقت فرمایا کرتے تھے۔ذوالفقار علی بھٹو کی ’’فسطائیت‘‘ کو مگر بھول نہیں سکتے تھے۔ اپنی دیرینہ تلخی بھلاتے ہوئے مگر 1988 میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے۔ڈاکٹر ذوالفقار مرزا فہمیدہ صاحبہ کے شوہر ہیں۔ آصف علی زرداری کے بچپن کے دوست رہے۔
اس دوستی کی بدولت قومی اسمبلی میں آئے۔ 2008کے بعد سندھ حکومت کے بہت ہی بااختیار وزیر داخلہ رہے۔ ایم کیو ایم ان کے رویے سے ہمیشہ شکوہ کناں رہی۔ گزشتہ دس برسوں سے مگر آصف علی زرداری اور ذوالفقار مرزا ایک دوسرے کے ’’ویری‘‘ ہو چکے ہیں۔ محترمہ فہمیدہ مرزا صاحبہ ان دنوں کی قومی اسمبلی میں بدین سے GDAکی ٹکٹ پر منتخب ہوکر آئی ہیں۔ ان کی وزارت صوبائی حکومت سے روابط بڑھانے کی ذمہ دار ہے۔ڈاکٹر فہمیدہ مرزا صاحبہ کی تقریر کا اصل ہدف مگر سندھ حکومت رہی جو ان کی دانست میں اٹھارویں ترمیم کے تحت ملے اختیارات کو ’’چند گھرانوں‘‘ کو امیر سے امیر تر بنانے کیلئے استعمال کررہی ہے۔ عوامی مسائل پر توجہ نہیں دے رہی۔ سندھ کے عوام کو تعلیم اور صحت کے حوالے سے بنیادی حق تصور ہوتی سہولتیں بھی میسر نہیں۔
ڈاکٹر صاحبہ نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اٹھارویں ترمیم کو متعارف کروانے میں انہوں نے بطور سپیکر قومی اسمبلی کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اگرچہ انہیں اب دُکھ ہورہا ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے تحت نصیب ہوئی ’’خودمختاری‘‘ سندھ کے عوام کے کسی کام نہیں آرہی۔ وقت آگیا ہے کہ عمران خان صاحب ’’کرپشن،کرپشن اور کرپشن‘‘ کو اس ملک کی واحد برائی ٹھہراتے ہوئے اس کے قلع قمع کا بندوبست کریں۔سندھ کی صوبائی حکومت کو NFCکی بدولت جو رقم ملتی ہی انہیں وہاں کے بدین جیسے پسماندہ علاقوں میں تعلیم اور صحت کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے استعمال کیاجائے۔محترمہ کشوزہرا صاحبہ نے بہت گرم جوشی سے ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کی تجاویز کو سراہا۔
ان کی دانست میں پیپلز پارٹی کی 2008 سے قائم ہوئی تیسری حکومت نے کراچی کو بھی پاکستان کا پسماندہ ترین‘‘ شہر بنادیا ہے۔ عمران خان صاحب کی قیادت میں قائم ہوئی وفاقی حکومت کی اب یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بدین ہی نہیں کراچی کی پسماندگی کے تدارک کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھائے۔فیصل واوڈا کی غصیلی تقریر بھی شاید اس خواہش کا اظہار تھی۔بنیادی پیغام منگل کے روز ہوئی تقاریر سے مجھے یہ ملا ہے کہ سندھ سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے اراکینِ قومی اسمبلی، GDA اور MQM کیساتھ یکجاہوکر اس صوبے کو ’’ظالموں سے نجات‘‘ دلانے کو تلے بیٹھے ہیں۔ آنے والے دنوں میں لہٰذا اس صوبے میں سیاسی کشیدگی ہر صورت مزید تفریق کی جانب لے جائے گی۔قومی معیشت کی بحالی پر توجہ دینے کی فرصت ہی ان رہ نمائوں کو نصیب نہیں ہوگی۔