ورلڈ کپ کے جس میچ میں پاکستان کھیل رہا ہو اسے ٹی وی پر دیکھنے کی عادت اپنالی ہے۔ مسلسل اداسی کے موجودہ موسم میں دل کے بہلانے کو اس سے بہت مدد ملتی ہے۔ فکرمند توجہ کہیں اور مبذول ہو جاتی ہے۔
ہفتے کے دن پاکستان کا افغانستان سے مقابلہ تھا۔ قومی اسمبلی کا اجلاس مگر جاری تھا۔ وہاں وزیراعظم نے خطاب بھی کیا۔ شہباز شریف نے ایوان سے باہر پارلیمان کے ایک کمیٹی روم میں طویل پریس کانفرنس بھی فرمائی۔ وہاں انہوں نے پہلی بار واضح الفاظ میں نئے انتخابات کا مطالبہ کردیا۔
قومی اسمبلی سے گھرلوٹنے کے بعد لہٰذا مجھے The Nationکے لئے پریس گیلری ٹائپ کرکے اسے دفتر بھجوانا تھا۔ اس سے فارغ ہوا تو پاکستانی اننگز شروع ہوچکی تھی۔ میرا خیال تھا کہ افغان بلے بازوں نے جو ٹارگٹ دیا ہے اسے ہمارے نسبتاََ زیادہ تجربہ کار کھلاڑی بآسانی برابر کر دیں گے۔ کرکٹ کی بنیاد پر جوا کھیلنے والوں کو ٹی وی پر ایک ٹکر کے ذریعے مطلع کیا جارہا تھا کہ افغانستان کے لئے یہ میچ جیتنے کے امکانات فقط 15فی صد ہیں۔ میں یہ سوچ کر خوش ہوگیا کہ کرکٹ کے بارے میں میری رائے کافی ’’ماہرانہ‘‘ ہو رہی ہے۔
افغانی بالروں نے مگر بہت ہی نپے تلے انداز میں وکٹیں گرانے پر توجہ مبذول رکھی۔ چوکوں چھکوں کی گنجائش پیدا ہی نہیں ہونے دے رہے تھے۔ چوکوں وغیرہ کی گنجائش میسر نہ ہو تو بلے باز وکٹوں کے درمیان دوڑ کر زیادہ سے زیادہ رنزبنانے کی لگن میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ہمارے دوکھلاڑی اس کی کوشش میں لیکن رن آئوٹ ہوگئے۔ حتیٰ کہ کپتان سرفراز بھی بہت بھونڈے انداز میں آئوٹ ہوا۔ افغان بائولروں کے سامنے پاکستانی بلے بازوں کو پریشان ہوا دیکھ کر غصہ تو بہت آیا مگر افغانیوں کی لگن اور مہارت کو کھلے دل کے ساتھ سراہنے کو بھی مجبور ہوا۔
ایک اوور ختم ہونے کے بعد جب کمرشل چلتے ہیں تو میں اپنے سمارٹ فون کے ذریعے ٹویٹر اکائونٹ پر چلاجاتا ہوں۔ رواں میچ پر جاری تبصرہ آرائی چسکہ لینے کی خواہش کو تسکین دیتی ہے۔
ہفتے کی شام مگر ٹویٹر کے ذریعے خبریں یہ آرہی تھیں کہ افغان تماشائی پاکستانی کھلاڑیوں کی حمایت میں جذباتی ہوئے میرے ہم وطنوں سے غنڈہ گردی کر رہے ہیں۔ پاکستانی کھلاڑیوں کے لئے مختص جرسی یا جیکٹ پہنے نوجوانوں کو اکیلے دیکھ کر افغان ٹیم کے حامی غول کی صورت ان پر حملہ آور ہوتے رہے۔ میچ ختم ہونے سے تھوڑی دیر قبل ہی ٹویٹر پر ’’پاکستان بمقابلہ نمک حرام‘‘ والا ٹرینڈرونما ہوگیا۔ ٹویٹر پر متحرک پاکستانیوں کی اکثریت افغانوں کو اس ٹرینڈ کے ذریعے مسلسل یاد دلاتی رہی کہ برسوں تک ہم نے 30لاکھ سے زائد افغانوں کو اپنا مہمان رکھا۔ ان کے ساتھ وہ سلوک برتا جو انصارِ مدینہ نے اختیار کیا تھا۔ افغانوں سے ’’ایسی احسان فراموشی‘‘ کی توقع نہیں تھی۔
’’احسان فراموشی‘‘ کا ذکر چلا تو مجھے افغانستان میں گزارے ایام یاد آنا شروع ہو گئے۔ افغان جہاد اور بعد کے سالوں میں 2011تک کئی بار اس ملک گیا ہوں۔بہت سے داغِ دل یاد آنا شروع ہوگئے۔ اہم ترین یاد ان تین دنوں کے بارے میں تھی جب افغانستان کے لئے نامزد ہوئے ہمارے ایک سفیر اپنے کاغذاتِ نامزدگی ان دنوں کے افغان صدر برہان الدین ربانی کو پیش کرنے کابل گئے تھے۔ 1996کے ابتدائی ایام تھے۔ نصیراللہ بابر کی بدولت جو محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں ایک بااختیار وزیرِ داخلہ اور طالبان کے حقیقی سرپرست شمار ہوتے تھے، مجھے سفیر کے قافلے میں شمولیت کا موقعہ نصیب ہو گیا۔ سفر جیپوں کے ذریعے پشاور سے براستہ جلال آباد کابل پہنچنے کا تھا۔
راستے میں دو مقامات پر گل بدین حکمت یار کے حامی ہمارے قافلے کو گھیر کر ’’مقامی کمانڈووں‘‘ کی ’’میزبانی‘‘ سے لطف اندوز ہونے لے گئے۔ برطانوی استعمار کے عروج کے زمانے میں ’’برٹش انڈیا‘‘ کے سفارتی نمائندے جس وسیع وعریض رقبے پر پھیلے سفارتخانے میں ’’قلعہ بند‘‘ ہوا کرتے تھے، اسے پاکستان کے حوالے کردیا گیا تھا۔ وہاں کئی مکانات تھے جہاں ہمارا کوئی سفارت کار رہائش پذیر نہیں تھا۔ ایسا ہی ایک مکان میرے قیام کے لئے مختص کردیا گیا۔
میرے قیام کی تینوں راتوں میں اطمینان سے سونا ناممکن تھا۔طالبان ان دنوں کابل پر قبضے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ اپنی پناہ گاہوں سے میزائل مارتے جن کے جواب میں افغان حکومت کے پھینکے میزائل کئی بار ہمارے سفارت خانے میں گر جاتے۔ مجھے بتایا گیا کہ پاکستان کو ’’پیغام‘‘ دینے کے لئے یہ میزائل جان بوجھ کر ہمارے سفارت خانے کی عمارت پر گرائے جاتے ہیں۔
صبح ہوتے ہی افغان لونڈوں کے گروہ ہمارے سفارت خانے کے مرکزی دروازے کے باہر جمع ہو کر پتھر برسانا شروع ہو جاتے۔ ایک صبح کسی سفارت کار کو بتائے بغیر میں دروازے سے باہر آیا تو ایک گروہ نے طنزیہ تالیاں بجاتے ہوئے مجھے گھیر لیا۔ مجھے دیکھ کر وہ ’’پنجابیان‘‘ کہنے کے بعد ایک فقرہ کستے جسے لکھا نہیں جا سکتا۔ میں گھبرا کے سفارت خانے میں واپس لوٹ آیا۔
اس سفر سے واپسی کے بعد میں نے نصیر اللہ بابر اور جنرل حمید گل سے اپنے ساتھ ہوئے برتائو کا پریشانی سے تذکرہ کیا تو دونوں نے بے اعتنائی سے جواب دیا کہ کابل کے رہائشیوں کی اکثریت دری بولنے والوں پر مشتمل ہے۔ وہ احمد شاہ مسعود کے حامی ہیں۔ بھارت نواز ہیں۔ پاکستان کو پسند نہیں کرتے۔ طالبان کی ’’فتح‘‘ کے بعد سب ٹھیک ہوجائے گا۔
9/11ہوجانے کے بعد 2004میں ایک بار بلوچستان کے ایک سینیٹر مرحوم سرور کاکڑ کی مہربانی سے میں کوئٹہ سے قندھار سڑک کے ذریعے گیا۔ کوئٹہ سے میرے ہمراہ افغان کاکڑوں کے ایک اہم سردار علیم خان کے جواں سال صاحبزادے تھے۔ علیم خان کوئٹہ میں پناہ گزین تھے۔ان کا فرزند امریکہ چلا گیا تھا جہاں اس نے KFCکے دو Outletsخریدے ہوئے تھے۔ وہ قندھار جاکر یہ جاننا چاہ رہا تھا کہ اس کے اپنے وطن لوٹ کر کوئی کاروبار چلانے کے کیا امکانات ہیں۔اس نے مجھے اپنے آبائی گھر میں رکھا اور بخدا جس انداز میں میرا خیال رکھا اس نے پشتون مہمان نوازی کی انتہادکھادی۔
طالبان قندھار کے گردونواح میں امریکی فوج کی موجودگی کے باوجود سرگرم تھے۔ میں نے اپنے میزبان سے خواہش کا اظہار کیا کہ میں ان کے نمائندوں کو ملنا چاہتا ہوں۔قندھار کو ہرات سے ملانے والی شاہراہ پر کئی ایکٹر تک پھیلا کاکڑ خاندان کا انگور اُگانے والا فارم تھا۔ وہ اجڑچکا تھا اور اس کے بے تحاشہ رقبے پر امریکی افواج کے چہیتےWar lordsجنہیں وہ ’’ٹوپک (بندوق) سالار‘‘ کہتے تھے قبضہ کررکھا تھا۔
بہرحال اس اجڑے فارم کے ایک کشادہ کمرے میں لالٹین کی روشنی میں میری دس کے قریب طالبان رضا کاروں سے ملاقات ہوئی۔ بے تحاشہ خوش مزاج ہونے کے باوجود وہ مجھے طعنہ دیتے رہے کہ ’’پنجابیوں‘‘ نے انہیں دھوکہ دیا۔ ان میں سے اکثر کی یہ خواہش بھی تھی کہ طالبان جب دوبار برسرِ اقتدار آئیں گے اور قندھار کے انگور اور سیب فراوانی سے پیدا ہونا شروع ہوجائیں گے تو پاکستان اس تاریخی ’’فرنٹیر میل‘‘ کو دوبارہ جاری کرے جو کبھی پشاور اور قندھار کو بمبئی سے ملاتی تھی۔ قندھار کے انار اور انگور بھارت کے بازاروں تک پاکستان سے چلی ریل کے ذریعے میسر ہوں۔ وسیع تر تناظر میں کابل کے دری بولنے والوں کی طرح قندھار کے پشتو بولنے والے نوجوان طالبان بھی مجھے ’’بھارت نواز‘‘ محسوس ہوئے۔ میں قندھار سے بھی پریشان لوٹا تھا۔