چہرہ سنجیدہ کرنے سے کیا فرق پڑے گا ؟

صرف کتابوں میں ہی نہیں پڑھا بلکہ دیکھا بھی ہے کہ جمہوریت مسلسل ہو تو ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور بذلہ سنجی کا جواب بذلہ سنجی سے دینے اور بخار کی طرح بڑھنے والی کشیدگی کو صرف ایک شگفتہ جملے سے بے اثر کر دینے کا رویہ پروان چڑھتا چلا جاتا ہے۔

مگر جہاں جمہوریت صرف بیلٹ بکس کے گرد گھومتی ہو اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے بلکہ ناک رگڑوانے کو ہی کامیابی سمجھا جاتا ہو اور جیتنے والا بھی ذہنی طور پر اتنا غیر محفوظ ہو کہ رسی کو بھی سانپ سمجھے، وہاں اکثریت و اقلیت کے گرد طواف کرنے والا نظام تو پنپ سکتا ہے مگر خوش دلی اور دلوں میں گنجائش جڑ نہیں پکڑ سکتی۔

آپ جناح صاحب سے عمران خان تک تمام رہنماؤں کی تصاویر دھیان سے دیکھیں اور پھر ان تصاویر میں یہ دیکھیں کہ ان میں سے کتنے رہنماؤں کے چہرے پر قدرتی مسکراہٹ ہے،کتنے مسکرانے کی اداکاری کر رہے ہیں،کتنے رہنما سنجیدہ ہیں اور کتنے سنجیدگی اوڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس کی اوٹ میں ذاتی بے یقینی یا کم مائیگی چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

جناح صاحب بہت کم ہنستے تھے مگر ان کی دو تین نایاب تصاویر بھی ہیں جن میں وہ کھلکھلا کے ہنس رہے ہیں، جیسے بچے بے ساختہ بنا ملاوٹ ہنستے ہیں۔گاندھی جی کی ہنستی مسکراتی تصاویر بھی کم ہیں مگر ان کی سنجیدگی میں کرختگی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ جب جب وہ خوش ہوتے تو یہ خوشی چہرے سے بھی جھلکتی تھی۔جواہر لعل نہرو کی زیادہ تر تصاویر ہنستی مسکراتی ملیں گی مگر ان کی صاحبزادی اندرا کے چہرے پر سے عمر کے ساتھ ساتھ مسکراہٹ غائب ہوتی چلی گئی۔

لیاقت علی خان ہنسنے سے زیادہ مسکرانے پر اکتفا کرتے تھے۔غلام محمد اور اسکندر مرزا کی ہنستی مسکراتی تصاویر اگر کوئی دکھا سکے تو بندہ ممنون ہو گا۔کیونکہ وہ جس سازشی ادھیڑ بن میں رہتے تھے اس میں ہنسنے مسکرانے کے لیے وقت کہاں ملتا ہو گا ۔

ایوب خان کی جتنی بھی ہنستی مسکراتی تصاویر ہیں، ان میں سے زیادہ تر تب کی ہیں جب وہ امریکیوں کے ساتھ ہوتے تھے۔یحییٰ خان کی مسکراتی تصاویر نایاب ہیں۔

البتہ بھٹو خاندان کے تصویری البم میں ہنستی مسکراتی کیفیت عام تھی۔بھٹو صاحب اور بے نظیر بھٹو کی ایسی بے شمار تصاویر زیادہ تر عام آدمیوں اور پارٹی کارکنوں کے ساتھ ہیں۔بیگم نصرت بھٹو بہت کم پبلک تصاویر میں مسکرا رہی ہیں۔البتہ ان کے نواسے بلاول کے چہرے کو دیکھ کے لگتا ہے گویا ننھالی مسکراہٹ ان کے ترکے میں آگئی ہو۔جب کہ خاندان کی دوسری شاخ یعنی مرتضیٰ بھٹو اور ان کے بچوں کی ہنستی مسکراتی تصاویر بہت کم ہیں۔

جہاں تک آصف زرداری کا معاملہ ہے تو پبلک تصاویر میں وہ مسلسل ہنستے نظر آتے ہیں۔مگر یہ ہنسی بے پرواہ نہیں پیغام سے بھرپور نظر آتی ہے۔جیسے جو میرا بگاڑ سکتے ہو بگاڑ لو۔

ضیا الحق کی مسکراہٹ آمیز تصاویر کو ذرا دھیان سے دیکھیں تو جیمز بانڈ کا ولن یاد آ جائے گا۔وہ مسکراہٹ جو سامنے والے کو ہلکا کرنے کے بجائے ہلکان کر کے رکھ دے۔

مرحوم غلام اسحاق خان کی اگر کوئی ہنستی مسکراتی تصویر مجھے دکھادے تو نہایت ممنون ہوں گا۔ان کے چہرے پر تاحیات ویسی سنجیدگی طاری رہی جو اس پرائمری ٹیچر کے چہرے پر ڈیرہ ڈال لیتی ہے جس نے ہوش سنبھالنے سے آخری سانس تک صرف میتھس پڑھا اور پڑھایا ہو۔محمدخانجونیجو کی مسکراتی تصاویر نایاب ہیں۔ان کے چہرے پر طاری مستقل سنجیدگی دیکھ کے ایسا لگتا تھا گویا دائمی چھاپے سے لگائی گئی ہو۔

شریف خاندان کے پاس اﷲ کا دیا سب کچھ ہے سوائے ہنسی کے۔مسکراہٹ بھی چہرے پر کبھی کبھار یوں آتی ہے گویا آئی ایم ایف سے قرض مانگی گئی ہو۔اتنا خوش شکل مگر ایسا سپاٹ سنجیدہ خاندان ؟ عجب ہے۔

جہاں تک پرویز مشرف کا معاملہ ہے تو ایک تو وہ گھر سے باہر مسکراتے بہت کم ہیں۔اور مسکراتے بھی ہیں تو غلط موقع پر۔ان کے چہرے پرہر وقت کشیدگی رقص کرتی ہے۔کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ وہ اور ان کا چہرہ مسلسل باہم مصروفِ پیکار ہیں۔خود سے ایسی بھی کیا لڑائی ؟ بندہ کبھی کبھار اپنے پر ہی ہنس لیتا ہے۔

سب سے دلچسپ مسکراہٹ مولانا فضل الرحمان کے چہرے پر رقصاں رہتی ہے۔یہ بولتی مسکراہٹ ہے جو مسلسل سامنے والے سے کہتی رہتی ہے کہ اچھا تو اب آپ مجھے بتائیں گے کہ بیک وقت پانچ گیندیں ہوا میں کیسے اچھالی جاتی ہیں ؟

جنرل کیانی اور جنرل راحیل شریف بہت کم مسکراتے تھے۔شائد انھیں اس کی زیادہ ضرورت بھی نہیں تھی۔جنرل باجوہ کے چہرے پر البتہ ایک نرم سی مسکراہٹ رہتی ہے۔یہ چہرہ ایک ایسے آدمی کا ہے جسے اطمینان ہو کہ سب ویسے ہی چل رہا ہے جیسا چلنا چاہیے۔یعنی معاملات فل کنٹرول میں ہیں۔

مگر عمران خان ان تصاویر میں مسکرا رہے ہیں جن میں ان کے ہاتھ میں بال یا بیٹ یا شکاری بندوق ہے یا پھر مغربی اشرافیہ کے ساتھ دورِ شباب کی تصاویر میں مسکراہٹ کے آثار ملتے ہیں۔

سیاست داں عمران خان کے چہرے پر مسکراہٹ عنقا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ بھنووں ، آنکھوں اور چہرے کا کھچاؤ بڑھتا جا رہا ہے۔شائد یہ بے یقینی ہے کہ ذمے داریوں کا بوجھ یا کنفیوژن یا پھر سامنے جو چیلنج ہے اسے مقررہ اوورز میں پورا کرنے کی جلدی۔

خان ایک خوبصورت اور متاثر کن شخص ہے جس نے بیشتر زندگی اپنی شرائط پر جی ہے۔مگر اب جو سنجیدگی طاری ہے وہ تو اس وقت بھی نہیں تھی جب انیس سو بانوے میں ورلڈ کپ جیتنے کی تمام امیدیں بظاہر ختم ہو چکی تھیں۔

خان صاحب اگر بولنے کا کام آؤٹ سورس کر دیں اور بے ساختہ مسکراہٹ سے دوبارہ دوستی کر لیں تو مسائل ویسے ہی آدھے محسوس ہونے لگیں گے۔ آج تو عہدہ بھی ہے ، گاڑی ہے ، بنگلہ ہے۔آخر کمی کیا ہے ؟ مسکراہٹ بھی فری ہے۔اس سے قومی خزانے پر قطعاً بوجھ نہیں پڑے گا۔بس سر کا بوجھ قدرے کم ہو جائے گا۔ویسے بھی جنہوں نے چہرہ سنجیدہ کر لیا، انھوں نے کیا بھاڑ پھوڑ لیا ؟ خود کو بھی تو کہیے کہ گبھرانا نہیں ہے ، مسکرانا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے