گھٹن کی دستک

حکومت کے ساتھ تعاون کے باب میں، اپوزیشن شاید ہر اخلاقی ذمہ داری سے آزاد ہو چکی۔ اسے کچھ بھی نام دیں‘ لیکن یہ جمہوریت نہیں ہے۔ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کے سوا اپوزیشن کے پاس شاید اب کوئی راستہ نہیں ہے۔

یہ پہلی حکومت ہے جس نے انتخابات کے بعد بھی، انتخابی ہیجان کو برقرار رکھا ہے۔ ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی کے ساتھ، اس تلخی کو نہ صرف باقی رکھا گیا بلکہ اس میں مسلسل اضافہ کیا گیا ہے، جو انتخابی ماحول میں ہر دفعہ جنم لیتی‘ لیکن انتخابات کے بعد ختم ہو جاتی ہے۔ نتائج آنے کے بعد جیتنے والا، عاجزی اختیار کرتا اور قوم کو اس تقسیم سے نکالنے کی کوشش کرتا ہے، جو انتخابی مہم کا فطری نتیجہ ہوتی ہے۔ عوام کا جو اعتماد جیتنے والے کو حقِ حکمرانی دیتا ہے، وہی اعتماد اپوزیشن کو نمائندگی کا حق بھی دیتا ہے۔ اس کا احترام بھی لازم ہوتا ہے۔

اس حکومت نے اپوزیشن کی طرف سے تادمِ تحریر تعاون کی ہر پیشکش کو حقارت سے ٹھکرا دیا ہے۔ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے کے بعد پہلے ہی خطاب میں اپوزیشن کو للکارا اور دعوتِ مبارزت دی گئی۔ بجٹ میں اپوزیشن کی ہر ترمیم کو مسترد کر دیا گیا۔ سیاسی مخالفین کو حیلوں بہانوں سے جیلوں میں ڈالا گیا۔ منتخب عوامی نمائندوں کو پارلیمنٹ میں مسلسل چور چور کہا گیا۔ یہی نہیں، سپیکر کو یہ ‘حکم‘ دیا گیا کہ ‘چوروں ڈاکوئوں‘ کے لیے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کیے جائیں گے۔ نتیجتاً آصف زرداری صاحب کے پروڈکشن آرڈر روک دیے گئے۔

زرداری صاحب کو کسی عدالت نے چور نہیں کہا۔ چونکہ حکومتِ وقت کی نظر میں وہ چور ہیں، اس لیے چور ہیں۔ دوسری طرف ایک ایسا شخص ہے جسے ملک کی سب سے بڑی عدالت کہہ چکی کہ وہ امانت دار ہے‘ نہ سچا‘ اسی وجہ سے کسی حکومتی منصب کا اہل نہیں۔ ان صاحب پر نظرِ الطفات اتنی زیادہ ہے کہ وہ بالفعل نائب وزیر اعظم محسوس ہوتے ہیں۔ مہربانیوں کا اندازہ اس امر سے لگائیے کہ وہ صاحب حکومت کی طرف سے 309 ارب روپے کے زرعی منصوبوں کا اعلان کر رہے ہیں۔ گویا جناب وزیر اعظم کی نظر میں وہ صاحب امین بھی ہیں اور صادق بھی۔

ان صاحب کا اپنا بھی یہی کہنا ہے کہ کوئی فیصلہ انہیں عوام کی خدمت سے نہیں روک سکتا۔ ایک جانب یہ صورتحال ہے تو دوسری جانب اب رانا ثنا اللہ کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے۔

یہ جمہوریت تو نہیں ہے‘ ایک فردِ واحد کا مطلق اختیار محسوس ہوتا ہے‘ جو اپنے راستے میں حائل ہر قانون کو تبدیل کرنے کا خواہش مند ہے۔ قرضوں کی جانچ پڑتال کے لیے قائم کمیشن ہو یا اراکینِ اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر کے قانون میں ترمیم کا معاملہ، یہی سوچ ہر جگہ کارفرما دکھائی دیتی ہے۔ نرگسیت نے اس میں اذیت پسندی کو بھی شامل کر دیا ہے۔ رانا ثنااللہ کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے، وہ اس کا ایک مظہر ہے۔ ساری دنیا مقدمے ہی کو مضحکہ خیز قرار دے رہی ہے۔ اس پر مستزاد حکومتی سلوک۔ قیاس آرائیاں یہ ہو رہی ہیں کہ اب احسن اقبال اور دوسرے اپوزیشن راہنماؤں کی باری ہے۔

ملک میں ایک ہیجانی کیفیت برپا ہے جس کی لے کو ایک حکمتِ عملی کے ساتھ مدہم نہیں ہونے دیا جا رہا ہے۔ وزرا کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ اس الاؤ کو ٹھنڈا نہ ہونے دیں۔ کوئی پانچ ہزار افراد کو لٹکا دینے کی بات کر رہا ہے اور اس کے خلاف کوئی قانون حرکت میں نہیں آ رہا۔ کوئی نواز شریف کی بیماری کا مذاق اڑا کر ان کے حامیوں کو مسلسل مشتعل کر رہا ہے۔ ایک ‘پوسٹ ٹروتھ‘ کے ذریعے ہر خرابی کا ملبہ سابقہ حکومتوں کے سر ڈالا جا رہا ہے۔

یہ سب کچھ اتفاقیہ نہیں، ایک منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ مطلوب یہ ہے کہ جن لوگوں کے خلاف انتخابات میں ہیجان برپا کرکے کامیابی حاصل کی گئی، ان کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا رکھا جائے تاکہ لوگ اس حکومت کی نااہلیوں سے صرفِ نظر کیے رکھیں۔ شاید ہیجان یک رنگی قائم رکھنے کی ناگزیر ضرورت ہے۔ ایک مستحکم اور ٹھہراؤ رکھنے والے معاشرے میں عقل کی حاکمیت ہوتی ہے، جذبات کی نہیں۔ گھٹن کی اس کیفیت کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ مسلسل ہیجان برپا رہے تاکہ عوام کو سوچنے کی مہلت نہ ملے۔

غالباً ملک کو ایک جماعتی نظام کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔ اس حکمت عملی پر عمل درآمد کرنے والوں کی حیثیت ایک کردار کی ہے، تخلیق کار کی نہیں۔ کوشش یہ ہے کہ اس نظام کو دس سال کے لیے چلایا جائے یہاں تک کہ اسے بھٹو خاندان اور شریف خاندان سے پاک کر دیا جائے۔ یہی نہیں، ان سے بھی جو ان کے ساتھ کھڑا ہونے پر اصرار کریں۔ ان کے پاس متبادل یہ ہے کہ وہ تحریک انصاف یا ق لیگ میں شامل ہو جائیں۔ اس مہم میں شریف اور بھٹو خاندان کو اخلاقی طور پر اس طرح تباہ کر دیا جائے کہ ان کی حکومت کے خلاف اٹھنے کی سکت ہی ختم ہو جائے۔

واقفانِ حال یہ سرگوشیاں کر رہے ہیں کہ شہباز شریف صاحب کی حکمتِ عملی نے اس منصوبے پر عمل درآمد کو بہت آسان کر دیا ہے۔ نواز شریف اور مریم نواز نے جو مزاحمتی تحریک اٹھائی تھی، شہباز شریف صاحب نے اس کو کمزور کر دیا ہے۔ انہوں نے خیال کیا کہ مفاہمت انہیں بچا سکتی ہے۔ لیکن اس مفاہمت نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ انہوں نے اپنے حامیوں میں مایوسی پھیلائی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ ن لیگ کے مستقبل کے بارے میں بے یقینی کا شکار ہو گئے۔ اب وہ تحریکِ انصاف کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔ سیاست دان کا پہلا مسئلہ اقتدار نہیں، سیاسی بقا ہے۔ اقتدار کے لیے وہ انتظار کر سکتا ہے مگر سیاسی بقا کو خطرے میں نہیں ڈال سکتا۔ مجھے حیرت ہے کہ شہباز شریف صاحب نے آصف زرداری صاحب کے انجام سے نہیں سیکھا۔ چیئرمین سینیٹ کے انتخابات کے وقت، ان کی مفاہمت کا صلہ انہیں کیا ملا؟

میرے خیال میں اب اپوزیشن کے پاس تعرض کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ اس سے پہلے حزبِ اختلاف پر یہ اخلاقی دباؤ ہو سکتا تھا کہ حکومت کو کام کر نے کا موقع ملنا چاہیے۔ یہ دباؤ اس دن ختم ہو گیا، جب زبانِ حال سے یہ اعلان کر دیا گیا کہ نئے سیاسی نظام میں اپوزیشن کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ یہ صرف جگہ نہیں بلکہ حکومت اپوزیشن کو عبرت کا نشان بنا دینا چاہتی ہے۔ رانا ثنااللہ کی گرفتاری کے بعد اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اپوزیشن کا وجود برداشت کیا جائے گا تو وہ احمقوں کی دنیا میں جیتا ہے۔

میرے تصورِ سیاست میں تو انسان کی آزادی معاشی استحکام سے کہیں اہم ہے۔ جمہوریت اسی آزادی کی علامت ہے۔ میرے لیے یہ ایک قومی المیہ ہو گا کہ جس یک جماعتی نظام اور پابند سیاست کو دنیا بیسویں صدی میں اس کی خرابیوں کی وجہ سے طلاق دے چکی، ہم اس سے نکاح کرنے جا رہے ہیں۔ چور چور کے شور میں اس ہیجان کو برقرار رکھا جا رہا ہے، جو گھٹن کو بڑھانے کے لیے ناگزیر ہے۔ اس موقع پر تعرض قومی ذمہ داری ہے۔ اس کا مطلب تشدد ہرگز نہیں۔ یہ رائے عامہ کی بیداری ہے۔ عوام کو متنبہ کرنا ہے کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ تعرض کا مطلب ہیجان کے مقابلے میں حکمت کی تعلیم ہے۔ پوسٹ ٹروتھ‘ کی جگہ ‘ٹروتھ‘ کا فروغ ہے۔

اپوزیشن کے لیے یہ اس کی بقا کا مسئلہ ہے۔ میرے لیے یہ ملک و قوم کی بقا کا سوال ہے۔ وہی قومیں دنیا میں ترقی کرتی ہیں‘ جن میں سماجی ارتقا ہوتا ہے۔ ہر آدمی اپنی صلاحیت کے مطابق اس ارتقا میں شریک ہوتا ہے۔ وہ ہر طرح کے خوف سے آزاد ہو کر اپنی بات دیانت داری سے کہتا ہے۔ دوسروں کے مختلف خیالات کو بھی اپنی اصلاح کے لیے ضروری سمجھتا ہے۔ یوں سب مل کر سماجی ارتقا میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

میری خواہش ہے کہ ہماری فوج اور عدلیہ مضبوط ہوں۔یہ اسی وقت ممکن ہو گا جب اقتدار کی کشمکش میں ان کا ذکر نہ ہو۔ پاکستان کے عوام یک جان ہوں۔اس کی ضمانت صرف قومی سیاسی جماعتیں دے سکتی ہیں۔لہٰذا ضروری ہے کہ وہ پھلیں پھولیں ۔ملک میں معاشی استحکام ہو۔یہ اسی وقت ہوگا جب سیاسی استحکام ہو اور سیاسی استحکام جمہوریت سے حقیقی وابستگی کے بغیر ممکن نہیں۔ یک رنگی‘ وہ بھی طاقت سے بھرپور‘ ان سب امکانات کو برباد کر دیتی ہے۔ اس کے خلاف تعرض ہماری قومی ذمہ داری ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے