بہار، مودی کے لئے خزاں کیوں بنا؟

دریائے گنگا شمالی بھارت اور بنگلہ دیش کا ایک اہم دریا ہے۔ 2 ہزار 510 کلومیٹر طویل گنگا دریائے جمنا کے ساتھ مل کر ایک عظیم اور ذرخیز خطہ تشکیل دیتا ہے، اس علاقے میں آبادی کی کثافت دنیا میں سب سے زیادہ ہے اوراِس روئے زمین پر موجود ہر 12 واں شخص یعنی دنیا کی کل آبادی کا 8.5 فیصد اس علاقے میں جگہ رہتا ہے۔ اسی علاقے میں دریائے گنگا کے زرخیز میدانوں پر پھیلی بھارتی ریاست بہار واقع ہے جو شمال میں نیپال کیساتھ جڑی ہے جبکہ بہار کے باقی تین جانب بھارت کی دیگر ریاستیں ہیں، مغرب میں اتر پردیش، جنوب میں جھاڑ کھنڈ اور مشرق میں مغربی بنگال واقع ہیں۔

بہار 94،164 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے جس میں 37 اضلاع ہیں،2001ء کی مردم شماری کیمطابق ریاست بہار کی آبادی 82،878،796 ہے اور فی مربع کلومیٹر 880 افراد بستے ہیں، یوں بہار بھارت کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست ہے، بے پناہ آبادی،غربت، آلودگی اور ماحولیات کی تباہی اس علاقے کے بڑے مسائل ہیں، زیادہ آبادی کی وجہ سے ریاست بہار کو بھارت کا ’’پنجاب‘‘ بھی کہا جاسکتا ہے کیونکہ اس ریاست میں ہونیوالے انتخابات مجموعی طور پر پورے بھارت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

بھارت میں چونکہ لوک سبھا اور ریاستوں کے انتخابات الگ الگ وقت پر ہوتے ہیں۔ لوک سبھا کے چناؤ میں کامیابی کے بعد سے بھارتیہ جنتا پارٹی اور اسکے وزیراعظم نریندرا مودی نے بھارت کو انتہاپسندی کی جس ڈگر پر ڈال دیا ہے، اسکے تناظر میں بہار کے انتخابات نے پورے بھارت کے تشخص کی راہ متعین کرنا تھی، اس لیے سال کے آغاز پر ہی بھارتی ریاست بہار میں ریاستی اسمبلی کیلئے ہونیوالے چناؤ کا بھارت بھر میں چرچا تھا کہ یہ انتخابات کون جیتے گا؟بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے بہار میں بھی بھرپور مذہبی جنون کا پرچار کیا گیا اور پاکستان مخالف اور اسلام مخالف کارڈ کے ذریعے لوگوں کو یہاں تک باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ اگر بہار میں بی جے پی کوشکست ہوئی تو (خوشی کے اظہار کیلئے) پٹاخے پاکستان میں پھوڑے جائیں گے۔

بھارت کی اس سب سے زیادہ آبادی اور غریب ریاست میں چھ کروڑ 60 لاکھ افراد ووٹ دینے کے اہل تھے، جنہوں نے 243 نشستوں کیلئے 12 اکتوبر سے پانچ نومبر کے درمیان ووٹ ڈالے۔

مرکز میں برسر اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیر اعظم نریندر امودی کا ان انتخابات میں دو طاقت ور مقامی سیاست دانوں نتیش کمار اور لالو پرساد کی قیادت میں قائم مقامی جماعتوں کے اتحاد سے مقابلہ تھا،پانچ مرحلوں میں ہونیوالے ان انتخابات میں ووٹوں کی گنتی کا کام آٹھ نومبر کو مکمل ہوا اور جب انتخابی نتائج سامنے آئے تو بھارتیہ جنتا پارٹی کے بڑے بڑے برج الٹ گئے اور مخالفین نے بی جے پی کیخلاف تاریخی کامیابی حاصل کرکے مودی کے ارادوں کو مٹی میں ملادیا۔ حالانکہ انتخابات سے پہلے بی جے پی کی طرف سے دعوی کیا جارہا تھا کہ وہ بہار کے انتخابات میں بھی ’’بے مثال‘‘ کامیابی حاصل کرلے گی۔

بی جے پی کے رہنماؤں کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ ’’لالو نتیش‘‘ اتحاد نہیں چلے گا اور اس دلیل کے پیچھے دونوں جماعتوں کا ماضی بھی تھا۔ مثال کے طور پر نتیش کمار ایک سوشلسٹ اور نچلی ذات کے رہنما ہیں اور انہوں نے اپنے آپ کو جدید دور کے سیاست دان کے طور پر پیش کیا ہے اور جو ذات پات کی بنیادوں پر اقربا پروی سے ہٹ کر ترقی کو ترجیح دیتا ہے۔ دوسری جانب لالو پرساد یادیواگرچہ نظریاتی طور پر نتیش کمار سے قریب ہیں لیکن کئی اعتبار سے ان کی بالکل ضد بھی واقع ہوئے ہیں، لالو بھارت میں وہ ایک مقبول اور عوامی سیاستدان ہیں جن کی عوامی شخصیت عام آدمی کیلئے کشش کا باعث ہے۔ اُنہیں پسند کرنیوالے بھی انہیں اُتنی ہی شدت سے چاہتے ہیں جتنی کہ اُن سے نفرت کرنیوالے اُنکی مخالفت کرتے ہیں۔لالو کے مخالفین اُنکے 15 برس کے دورِ اقتدار میں بدانتظامی اور اُنکے بدعنوانی میں ملوث ہونے کے قصے سنانے سے نہیں تھکتے۔ لالو پرساد کو مویشیوں کا چارہ خریدنے کیلئے مختص سرکاری فنڈز میں خرد برد کے الزام میں سزا بھی ہو چکی ہے۔

یہ درست ہے کہ نتیش کمار اور لالو پرساد کی جماعتیں جے ڈی یو اور آر جے ڈی ماضی کی حریف جماعتیں تھیں اور دونوں جماعتیں گزشتہ 25 برسوں میں سے 20 برس تک بہار پر برسراقتدار بھی رہیں، لیکن حالیہ انتخابات نے دونوں جماعتوں کو بی جے پی کے مقابلے میں لاکھڑا کیا اور کامیابی سے بھی ہمکنار کیا۔بی جے پی بیس سال تک بہار میں برسراقتدار رہنے والی دونوں جماعتوں کی کمزوریوں اور خامیوںکے باوجود اگر بہار میں کوئی فائدہ نہ اٹھاسکی تو اس کی بڑی وجہ بی جے پی کی اپنی کارکردگی ہے۔ دراصل گذشتہ برس انتخابات میں ’’تاریخی کامیابی‘‘ کے بعد مودی نے مرکز میں اقتدار سنبھالنے کے بعد انتہاپسندی کے فروغ کیلئے جو اقدامات کیے ، اسے بھارتی سیاست میں پذیرائی ملی نہ ہی عوام نے انہیں پسند کیا، اسی لیے نریندرا مودی کیلئے ریاست بہار کے انتخابات اپنی سیاسی ساکھ بچانے کیلئے اہمیت اختیار کر گئے تھے۔

اگرچہ بی جے پی کو اس سے قبل دہلی اسمبلی میں عام آدمی پارٹی کے ہاتھوں بھی شکست ہوچکی تھی لیکن اس شکست پر بی جے پی کے حامیوں کا موقف تھا کہ دہلی اسمبلی کے انتخابات میں عام آدمی پارٹی سے شکست سے قومی سطح پر پارٹی مقبولیت کا اندازہ لگانا درست نہیں اور یہ کہ اصل مقبولیت کا اندازہ بہار کے انتخابات میں ہو جائے گا۔ بی جے پی کے اس اعتماد کے پیچھے دراصل بی جے پی کی وہ امید تھی کہ ایک انتہائی کڑے انتخابی معرکے میں جہاں ووٹنگ میں نسلی شناخت اور ذات پات کے ہی فیصلہ کن عنصر رہنے کا امکان ہے، وہاں بی جے پی نوجوان نسل میں مودی کیلئے پائی جانیوالی کشش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندووں کے ووٹ توڑنے میں کامیاب ہو جائیگی۔

مودی سرکار نے انتہائی منظم اور موثر انتخابی مہم کے ذریعے لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ غربت سے نکلنے کیلئے روز گار کے نئے مواقع ہی واحد راستہ ہیں،لیکن جب یہ سوچا جاتا ہے کہ بھارت کی سیاست میں ذات پات کو پسپائی ہو رہی ہے توذات پات کا نظام انتقامی طور پر واپس بھی آ جاتا ہے۔ ان انتخابات میں بھی یہی کچھ ہوا، بہار کے انتخابات میں ذات پات کی بنیادوں پر ووٹ ڈالنے کی روایت قائم رہی، لیکن ہوا یہ کہ بی جے پی کو روایتی طور پر اعلیٰ ذات کے ہندووں کی حمایت حاصل تھی جبکہ نچلی ذات کے ہندو نتیش کمار اور لالو پرساد کے حامی تھے، یوں اکثریت جیت گئی اور اعلیٰ ذات کے اقلیتی میں آباد ہندو ہار گئے۔ ان انتخابات میں اعلیٰ ذات کے ہندو ہی نہیں ہارے بلکہ نریندرا مودی کی انتہاپسندی اور ہندوتوا بھی ہار گئی۔

بی جے پی بہار میں اسکے باوجود انتخاب ہار گئی کہ مودی سرکار اپنے ترقی کے ایجنڈے اور مرکز میں اپنی حکومت کی کارکردگی کی بنیاد پرانتخاب میں اتری تھی، اسکے علاوہ وزیراعظم مودی نے کچھ عرصہ قبل پسماندہ بہار کی ہمہ جہت ترقی کیلئے 25 ارب ڈالرکے ایک خصوصی ترقیاتی پیکج کا بھی اعلان کیا تھا، لیکن بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ماہرین کے نزدیک اگربی جے پی بہار میں بھی جیت جاتی تو اس سے بہار کو شاید کوئی فائدہ نہ پہنچتا بس یہ ہوتا کہ مودی ذاتی طور پرانتہائی طاقتور ہو جاتے، اسی لیے بہار کی انتخابی مہم کی قیادت بھی مودی نے خودکی تھی لیکن جس طرح مودی نے بہار کے انتخابات میں ہندوتوا کا پرانا فارمولہ استعمال کیا، اس کا نہ صرف اقلیتوں بلکہ نچلی ذات کے ہندؤؤں پر بھی الٹ اثر پڑا اور یوں بہار میںترقی کے ایجنڈے کی آڑ میں مودی کا ہندو وتوا کا منصوبہ کامیاب نہ ہوسکا۔

قارئین کرام!! ریاست بہار میں شکست کے بعد اب ناصرف مودی کی مرکز میں پوزیشن کمزور ہو جائیگی بلکہ صنعتکاروں اور سرمایہ کاروں کی طرف سے بھارت میں تیزی سے اقتصادی اصلاحات شروع کرنے کیلئے دباؤ بڑھے گا۔ اسکے ساتھ ساتھ بی جے پی کے اندر بھی مودی کی گرفت ڈھیلی پڑ جائیگی، لیکن اسکے باوجود بھارت سے انتہاپسندی ختم ہونے کے فی الحال کوئی امکانات نہیں۔ بہار میں شکست کے بعد انتہا پسند ہندو آرام سے بیٹھنے والے نہیں ہیں بلکہ آنیوالے دنوں میں بھارت کا جھکاؤ ہندوتوا کی طرف مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔

دوسری جانب بی جے پی کی شکست کے بعد اب امید کی جا رہی ہے کہ بہار میں قائم حزب اختلاف کے اتحاد کی کامیابی نتیش کمار کیلئے بہت اہم ثابت ہو سکتی ہے، اب نتیش کمار کے گرد حزب اختلاف کی جماعتوں کا ایک نیا محاذ متحد ہو گا اور بہار میں کامیابی کے بعد نتیش کمار اور لالو پرساد کے اتحاد کودوسری ریاستوں کے انتخابات میں متحد ہو کر الیکشن لڑنے کا حوصلہ ملے گا، جس کا اندازہ دو سال بعد اتر پردیش میں ہونیوالے ریاستی انتخابات میں ہوجائیگا۔ اسکے علاوہ بہار کے انتخابی نتائج کا ایک اور مثبت پہلو یہ ہے کہ موجودہ سیاسی صورتحال بھارت میں مستقبل کی سیاست کیلئے سیکولرازم اور جمہوریت پر ایک نئی اور جامع بحث کو جنم دے سکتی ہے۔ بہار کے ریاستی انتخاب کے فیصلے نے بھارت کی قومی سیاست کی سمت کا تعین کردیا ہے،2017ء میں ہونیوالے اترپردیش کے انتخابات تک بی جے پی کو فی الحال بیٹھ کر یہ سوچنا ہے کہ بہار مودی کیلئے ’’خزاں‘‘ کیوں بنا؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے