امریکا نے چینی ڈرونز کے استعمال پر پابندی عائد کر دی

امریکا نے سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر چین کے ڈرونز کے استعمال پر پابندی عائد کر دی۔

چین کے ڈرونز کے استعمال پر پابندی امریکا کی وزارت داخلہ نے لگائی۔

امریکی وزارت داخلہ کے ترجمان نک گڈون نے چینی ڈرونز کے استعمال پر پابندی کی وجوہات نہیں بتائیں لیکن امریکا چین کی الیکٹرانک اشیاء کے حوالے سے بہت زیادہ تحفظات رکھتا ہے۔

نک گڈون نے کہا کہ سیکریٹری وزارت داخلہ ڈیوڈ برن ہارٹ نے ڈرونز کے دوبارہ جانچ کی ہدایت کی ہے۔

ان کا کہنا تھا سیکریٹری ڈیوڈ برن ہارٹ نے ہدایت کی ہے کہ جب تک تمام ڈرونز کی جانچ نہیں ہو جاتی اس وقت تک چین کے تیار کردہ اور چین کے پارٹس پر مشتمل ڈرونر کا استعمال بند کر دیا جائے۔

نک گڈون نے بتایا کہ صرف ایمرجنسی مقاصد جیسے جنگل میں لگی آگ پر قابو پانے، سرچ اور ریسکیو آپریشن اور قدرتی آفات پر قابو پانے کے لیے ڈرونز کی اجازت ہو گی۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق امریکی وزارت داخلہ کے پاس اس وقت 810 ڈرونز ہیں جو تمام کے تمام چین کے تیار کردہ ہیں۔

ذرائع کے مطابق ان ڈرونز میں سے صرف امریکی ساختہ ہیں لیکن اُن میں بھی چین کے تیار کردہ پارٹس شامل ہیں۔

خیال رہے کہ رواں برس مئی میں امریکی قومی سلامتی کے ادارے (ہوم لینڈ سیکیورٹی) نے ایک وارننگ جاری کی تھی کہ چین کے تیار کردہ ڈرونز امریکا کی سلامتی کے لیے خطرہ ہو سکتے ہیں۔

امریکا نے چین کی ٹیکنالوجی فرم ہواوے پر بھی امریکی کمپنیوں کو اشیاء کی فروخت پر پابندی عائد کر دی ہے۔

امریکا کی انٹیلیجنس ایجنسیاں سمجھتی ہیں کہ ہواوے کو چینی فوج کی حمایت حاصل ہے اور اس کی تیار کردہ اشیاء دوسرے ممالک کی جاسوسی کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔

امریکا کی جانب سے چینی ڈرونز کے استعمال پر پابندی کے فیصلے کے بعد چین کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ہمیں امید ہے امریکا قومی سلامتی کو متاثر کرنے کے نظریے کو بند کرے گا اور چین کی کمپنیوں کو اچھا کاروباری ماحول فراہم کرے گا۔

پوری دنیا میں 70 فیصد ڈرونز سپلائی کرنے والی چینی کمپنی ڈی جے آئی کے ترجمان امریکی فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس سے آگے کچھ نہیں کہ سکتے۔

خیال رہے کہ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے 2017 سے ڈی جے آئی کے ڈرونز کو فوج کے لیے استعمال کرنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے