میرے نام مہشوری ہے ، میری پیدائش پاکستان کی ہے اور میں پاکستانی کہلانے میں فخر محسوس کرتی ہوں،میرا تعلق ایک ہندو مذہب سے ہے۔ میں جب دس سال کی تھی تو میرے پتا کا انتقال ہو گیا تھا۔ ہم چھ بہن بھائی ہیں جن میں،میں سب سے بڑی بیٹی ہوں ،میں نے اپنے پتا جی کے انتقال کے بعد گھر میں کافی پریشانی دیکھی اور یہ احساس مجھے کافی پریشان کرتا تھا کہ میری ماں نے کافی پریشانیوں کا سامنا کیا ہے جن کو میں محسوس کرتی تھی۔ میرا بس نہیں چلتا تھا کہ میں اپنی ماں کا بازو بن جاؤں اور ان پریشانیوں کو کسی طرح سے دور کردوں ۔انہیں سوچوں کے ساتھ میں جوان ہوئی اور میں نے اعلی تعلیم حاصل کی،پاکستان میں رہتے ہوئے بھی میں صبح کو کالج جاتی تھی اور شام کو آکر لوگوں کے گھروں میں بچوں کو ٹیوشن پڑھانے جایا کرتی تھی اس طرح میری کالج کی فیس کے اخراجات پورے ہو جاتے تھے اور کچھ گھر کا خرچہ بھی چلتا رہتا تھا۔
مگر ایک چیز مجھے بہت تکلیف دیتی تھی ،وہ ان لوگوں کے روئیے تھے جو وہ میرے ساتھ برتتے تھے مثلا اگر چائے کا وقت ہے تو انہوں نے میرے لیے اپنے گھر میں ایک الگ سے چائے کا کپ رکھا ہوا تھا اور ایک پلیٹ رکھی ہوئی تھی، جس میں وہ مجھے چائے دیا کرتے تھے اور اس کے علاوہ کسی دوسرے کپ میں مجھے چائے دینے کی اجازت نہیں تھی۔ تو ان لوگوں کے اس ناروا سلوک سے مجھے بہت تکلیف ہوتی تھی۔
بے شک میں ہندو ہوں مگر ہوں تو انسان اور ایک پاکستانی اور ہم سب ایک ہی کمیونٹی میں رہتے ہیں جہاں مسلم عیسائی اور ہندو لوگ رہتے ہیں۔ میں تو اسکول میں تھی تب میرے ساتھ مسلم لڑکیاں بھی ہوتی تھیں اور کرسچن بھی تو ہم اسکول کالج میں ساتھ کھاتے پیتے تھے اور انجوائے کرتے تھے میں نے کبھی اس قسم کا فرق ان لوگوں میں اور اپنے میں نہیں رکھا مگر ایک جگہ میں ایک انٹرنیشنل NGO سنگت کی ٹریننگ پر تھی . جہاں پر ہندو مسلم اور عیسائی سبھی کو لیگز تھیں اور بھی میری وہاں پر بھی مجھے اسی قسم کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ، اس میں سے کچھ مسلم جو دوست تھیں وہ میرے ساتھ ایک ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھنا گوارا نہیں کرتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ہندو ہیں، ان مذہب الگ ہے، ان کے ساتھ کھانا ٹھیک نہیں تو یہ بات مجھے بہت تکلیف دیتی تھی۔
ایک مرتبہ اسی ٹریننگ پر میں صبح اٹھی تومجھے بہت زیادہ افسوس ہوا وہ اس لئے کہ ناشتے میں انہوں نے گائے کے گوشت کی نہاری بنائی ہوئی تھی حالانکہ اس بات سے سب آگاہ ہیں کہ گائے ہماری ماتاجی ہیں اور ہمارا ان سے کس طرح مقدس ریلیشن ہے اور ہم ان کا کتنا احترام کرتے ہیں ان کی پوجا کرتے ہیں۔مگر اس بات کو انہوں نے کوئی اہمیت نہیں دی حلانکہ اس بات کو سب ہی جانتے ہیں کہ اگر آپ کسی ٹرینگ کے لیے فارم فل کرتے ہیں تو اس میں آپ بتاتے کہ آپ کھانے میں کون سی غذا استعمال کرتے ہیں، کس قسم کا کھانا پسند کرتے ہیں، اس کے مطابق ہی کھانے کا مینیو بنایا جاتا ہے اور جب ان باتوں کا خیال نہیں رکھا جاتا تو بہت تکلیف ہوتی ہے، آپ سب کے لیئے یہ بات عام سی ہے لیکن اس سے ہماری بہت دل آزاری ہوتی ہے.اسی طرح ہماری ایک پاکستانی شہری مہیشوری جن کا تعلق ہندو مذہب سے ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ان کو اس قسم کے حالات کا سامنا اکثروبیشتر کرنا پڑتا ہے جو ہمارے لئے بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔
یہ سوال لے کر گئے ہم مذہبی اسکالر فائزہ عدیل کے پاس جن کا تعلق الھدی کے تعلیمی ادارے سے ہے، جہاں پر وہ درس تدریس کا کام کرتی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ہم مسلمانوں کو ہر گز یہ حق نہیں پہنچتا کہ ہم کسی کے ساتھ اس طرح اپنے اور اسکے اندر کسی بھی محفل میں فرق پیدا کریں جو ان کے لیے تکلیف کا باعث ہو ۔یہ بات ہمارے مذہب میں بھی منع کی گئی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم کسی بھی اقلیتی کمیونٹی کے ساتھ کھانا کھا سکتے ہیں ۔ہمارے مذہب میں کسی مذہب کے کسی بھی انسان کے ساتھ اس طرح کا فرق کرنا مناسب بات نہیں۔
عالمہ کا مزیدکہنا تھا کے ہم ایک پاکستانی شہری کے طور پہ مسلمان، ہندو ،سکھ ،عیسائی جتنے بھی لوگ ہیں ہم ان کی مذہبی اجتماعات میں خوشی کے ساتھ شریک ہوتے ہیں پھر ہمارے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا جاتا ہے، جو ہم سب کے لیے بہت تکلیف کا باعث بنتا ہے۔ ہم نے یہ سوال ایک نرس سے کیا جو بیس سال سے ایک سرکاری ہسپتال میں نرس کے فرائض بہت توجہ کے ساتھ کررہی ہیں. ان کا کہنا تھا کہ ہاسپیٹل میں ہمارے پاس جتنے بھی مریض ہوتے ہیں ہم یہ بات اپنے ذہن میں لاتے ہی نہیں کہ یہ ہندو ہیں، مسلمان ہیں یا عیسائی ہیں، ہم بڑی توجہ کے ساتھ اس کا خیال رکھتے ہیں اور اپنے پیشے کے ساتھ انصاف کرتے ہیں یہ سوچے بنا کے وہ کس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اور اگر اس وقت ہم یہ سوچنے لگ جائیں کہ یہ مسلمان ہیں ہم ان کی دیکھ بھال نہیں کریں گے تو زرا سوچیے کہ حالات کیا رخ اختیار کر لیں گے۔ مریضوں کا کیا حال ہوگا اور ان کے لواحقین کا کیا ہو گا ۔
اسٹیلا ،جن کا مذہب عیسایت سےہے اور یہ نرسنگ کے پیشے سے بیس سال سے وابستہ ہیں اور بہت خوش اسلوبی کے ساتھ اپنا گھر چلا رہی ہیں۔ اسٹیلا کا کہنا ہے کے تکلیف اس وقت ہوتی ہے جب ہمارے اندر ایک پاکستانی شہری ہوتے ہوئے بھی فرق پیدا کیا جاتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ اگر معاشرے سے اس قسم کے چند لوگوں کو ہدایت مل جائے جو مذہبی منافرت پھلاتے ہیں تو یہ زندگی جنت بن جائے۔
قارئین یہ وہ گلے شکوے تھے جو ہماری مذہبی اقلیتیوں کو ہم سے ہیں۔ وہ بھی پاکستان کا حصہ ہیں اور جنکو ہمیں دل سے قبول کرنا ہوگا اور یہ کہ کر ان کو گلے لگانا ہو گا کہ ہم سب ایک ہیں اوربطور قوم ہی ہم مضبوط ہوسکتے، مسلمان ،عیسائی ، سکھ یا ہندو صرف مذہبی عقائد ہیں، امتیازی سلوک یا معاشرتی برتاؤ اس سے متاثر نہیں ہو نا چاہیئے ۔