علامہ سید ثاقب اکبر صاحب کے ساتھ 21 سال کا تعلق تھا ۔ 1999 میں جامعہ محمدیہ ایف سکس فور اسلام آباد میں دوران تعلیم ایک رسالہ نظر سے گزرا غالبا میزان نام تھا اس کا جس میں ثاقب اکبر صاحب کا نام پہلی بار پڑھا ۔فقط یاداشت کی بنیاد پر لکھ رہا ہوں کہ اس میں علامہ امین شہیدی سمیت مکتب تشیع کے دیگر علماٗ کے نام بھی درج تھے ۔ اس رسالے میں قرآنی علوم کے ساتھ ساتھ توحید اور تحریف سے متعلق مکتب تشیع کے آئمہ اور علماٗ کے اقوال پر مشتمل مضامین بھی شامل تھے ۔میں ایبٹ آباد کے ماڈرن پبلک اسکول اینڈ کالج سے ایف ایس سی کرکے جامعہ محمدیہ میں آیا تھا تین ماہ تک اولی میں پڑھا لیکن ماحول اور مزاج کے ساتھ مطابقت نہ ہوسکی اس لیے شریعہ اینڈ لاٗ کے لیے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں داخلہ لینے چلا گیا ، قصہ مختصر پھر وہاں سے پشاور یونیورسٹی کے شیخ زید اسلامک سنٹر میں بی اے آنرز میں داخلہ ہوگیا۔
2002 کی بات ہے جب پشاور یونیورسٹی کے سینٹ ہال میں "ولایت فقیہ کا تصور ” کے عنوان کے تحت ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا تھا ۔ اس میں آئی ایس او کے نوجوانوں سمیت پشاور یونیورسٹی کے اساتذہ بھی شریک تھے (سید ثاقب اکبر نقوی بھی آئی ایس او پاکستان کے 1977تا1979تک آئی ایس او پاکستان کے دوبار مرکزی صدر رہے تھے ) اس روز دو مختلف پس منظر رکھنے کی وجہ سے کچھ تلخ سوالات بھی ہوئے، ہمارے ایک کلاس فیلو نے اس روز مجھے دھمکی بھی دی تھی بہرحال وہ پورا الگ ایک قصہ ہے ۔ اس کے بعد دو برس تک ثاقب سے ملاقات نہیں ہوئی ۔
2004 میں جب جیو نیوز اسلام آباد میں بطور رپورٹر عملی صحافت کا آغاز کیا تو کچھ روز بعد اسلامی نظریاتی کونسل میں ان سے ملاقات ہوئی ۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو پہچان گئے اور مسکراتے اور قہقہ لگاتے ہوئے گلے ملے ۔خوب گپ شپ ہوئی ، انہوں نے مجھے چائے کی دعوت دی جو میں قبول کی اور میلوڈی مارکیٹ میں ہم نے چائے پی ۔ ان دنوں وہ اپنی کتاب پاکستان کے دینی مسالک پر کام کر رہے تھے ۔ ہم نے موبائل نمبرز کا تبادلہ کیا اور یہ تعلق آج ختم ہو گیا ۔
مجھے ثاقب اکبر صاحب کے ساتھ کئی سیمینارز اور پروگرامز میں جانے کا اتفاق ہوا ۔ لمبے لمبے سفر اکٹھے کیے ۔ کھایا پیا ۔ ان سے ان کی زندگی کی مکمل کہانی تقریبا دس برس پہلے لاہور کے ایک سفر کے دوران سنی ۔ ان کو سمجھنے کی کوشش کی ۔
2014 میں جب حامد میر صاحب پر کراچی میں قاتلانہ حملہ ہوا تو اس کا الزام ڈی جی آئی ایس آئی پر لگا ۔ اس الزام کے بعد جیو کے حالات بہت خراب ہوگئے ۔ ایک پروگرام کو جواز بنا کر ملک بھر تمام مسالک کے جید اور چنیدہ علماٗ نے جیو کو توہین اہلبیت کامرتکب ٹھہرا کر بائیکاٹ کر دیا ۔ کیبلز آپریٹرز پر دباؤ ڈال کر جیو نیوز کو بند کروا دیا گیا گیا تھا ۔ اسی دوران ڈاکٹر عامر لیاقت حسین صاحب بھی جیو چھوڑ کر ایکسپریس نیوز میں چلے گئے ۔ ہمارے دوست حسن الیاس صاحب کا لاہور میں جاوید احمد غامدی صاحب کی صاحبزادی کے ساتھ نکاح ہو رہا تھا کہ مجھے جیو کی انتظامیہ کی طرف سے کال آئی کہ آپ اسلام آباد پہنچیں ، جیو کی رمضان ٹرانسمیشن آپ نے کرنی ہے ۔ رمضان میں صرف ایک دن رہتا تھا ۔ میں سلیم صافی صاحب اور شاہ زیب خانزادہ صاحب کے ساتھ واپس اسلام آباد آرہا تھا اور راستے میں ان کے ساتھ یہی ڈسکس کر رہا تھا کہ ان حالات میں پروگرام میں کون آئے گا ۔بہر حال میں نے رابطے کرنے شروع کیے ۔ یہ میرے لیے چیلنج تھا کیونکہ تمام ٹی وی فیسسز نے جیو کا بائیکاٹ کیا ہوا تھا ۔ بہر حال پروگرام شروع ہوا تو اس وقت مجلس وحدت مسلمین کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی صاحب اور راولپنڈی سے مکتب دیوبند کے معروف عالم دین مفتی مجیب الرحمان صاحب سحری کی نشریات میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ شہیدی صاحب کے بعد مکتب تشیع کی نمائندگی علامہ سید ثاقب اکبر صاحب کرتے رہے ۔ مجھے علم ہے کہ ان شخصیات کو ان کے مکتب کی طرف سے کن کن القابات سے نوازا گیا لیکن ان لوگوں نے کبھی تعلق میں آنچ نہیں آنے دی ۔ کچھ لوگوں نے اس وقت وہی کام کیا جو "انہیں” کرنا چاہیے تھا ۔
جب میں نے پی ٹی وی نیوز اور ہوم پر "ابتدا سبوخ سید کے ساتھ ” پروگرام شروع کیا تو اسکالرز کی لسٹ میں ثاقب اکبر صاحب بھی تھے ۔ انہیں جب بھی دعوت دی گئی تو شہر میں ہونے کی شرط پر ہمیشہ تشریف لائے ۔ پروگرام سے پہلے اور بعد میں ہم خوب گپ شپ لگاتے ۔ایک بار اپنے بیٹے نقی کے سامنے کہنے لگے کہ پروگرام تو ہر چینل پر ہوتے رہتے ہیں ،یہاں تو ہم اپنے بھائی کے ساتھ قہقہے لگانے کے لیے آتے ہیں ۔ وہ سرتاپا محبت کرنے والے انسان تھے ۔ وہ جس چیز کو حق اور سچ سمجھتے تھے ، اس کی دعوت بھی دیتے تھے ۔ مجھے ان کی بے شمار کالز یاد ہیں جس میں وہ مجھے کہتے تھے کہ کب تک بھاگتے پھرو گے ، ایک روز تمھیں آنا پڑے گا ۔ میرے بارے جب ان سے کچھ کوئی بات کرتا تو وہ ایک بات کرتے تھے کہ اسے تنگ نہ کرو ، اس کی اپنی دنیا اور اپنا راستہ ہے ۔
ہم بہت چھوٹے ہیں اور وہ بڑے آدمی تھے ۔ ان کے ساتھ راستوں میں کئی کئی گھنٹے بحثیں ہوتی تھیں ۔ ہم سوالات کے چکی میں عقیدے ، عقیدتیں اور نظریے پیسنے کے عادی ہو چکے تھے اور وہ دھیمے لہجے میں اپنی بات کرتے جاتے تھے ۔ ایک روز پروگرام کی ریکارڈنگ کے بعد ایک عالم دین نے ثاقب اکبر صاحب سے پوچھا کہ سبوخ سید صاحب بھی شیعہ ہیں ؟ تو انہوں نے کہا نہیں ، یہ وسیع المشرب ہیں ۔ میں نے کہا قبلہ ، وسیع المشروب زیادہ فٹ بیٹھے گا تو اسٹوڈیو علماٗ کے قہقہوں سے گونج اٹھا ۔ ان کے بات کی جا سکتی تھی ، ان سے اختلاف کیا جا سکتا تھا ۔ اختلاف کے بعد بھی ان کی طرف سے احترام کی چادر چھینی نہیں جاتی تھی ۔
ایک دور میں میرے نظریات اور تھے اور اب زندگی نے جہاں کھڑا کیا ہے وہاں کا منظر نامہ کچھ اور ہی ہے لیکن میں پوری دیانتداری کے ساتھ کہتا ہوں ثاقب اکبر صاحب بطور انسان کیا ہی شاندار آدمی تھے لیکن وہ جاتے ہوئے ہم سب کو دھوکہ دے گئے ۔
میری چھوٹی بہن ہما مرتضی سے ان کی بیماری سے متعلق بات ہوتی رہتی تھی ، میں ملک سے باہر گیا ہوا تھا ، اس دوران وہ اسپتال میں داخل ہوئے ۔ گھر واپس آئے تو ڈاکٹرز انہیں آرام کی سختی کے ساتھ تلقین کی تھی لیکن گھر میں ہر وقت عیادت کے لیے لوگ آتے رہتے تھے جس کی وجہ سے ان کی فیملی نے فیس بک پر ملاقات پر پابندی کا لکھ دیا تھا ۔ میں نے ہما سے کہا کہ میں آنا چاہتا ہوں لیکن ان کی صحت زیادہ مقدم ہے ، اس لیے اب میرا صرف سلام پہنچا دیں ۔ ہما نے کہا سبوخ بھائی آپ کو کون روک سکتا ہے ، آپ آئیں تو وہ خوش ہوں گے ۔ میں نے طے کیا لیکن اس دوران میری اہلیہ کی طبیعت خراب ہوگئی ۔ اہلیہ کے آپریشن کی وجہ سے ان کی عیادت کو نہ جا سکا ، سوچا ، مکمل صحت یاب ہو جائیں گے تو پھر ملاقات کروں گا ۔ کئی روز سے مسلسل سفر میں ہوں ۔ ابھی حیدر آباد سے کراچی پہنچا تو علامہ عارف حسین واحدی صاحب کا موبائل پر مسیج ملا کہ ثاقب اکبر صاحب انتقال کر گئے ہیں ۔ دکھ یہ ہے کہ ان کی عیادت نہ کر سکا اور غم یہ ہے کہ کل انہیں الوداع بھی نہیں کہہ سکوں گا ۔ میرے ذہن میں ان کی آخری تصویر وہی ہے جب وہ پی ٹی وی آئے تھے ۔ ہم نے گپ شپ لگائی تھی اور وہ مسکراتے ہوئے رخصت ہوئے تھے ۔ میں انہیں اسی دماغ کے آنگن میں اسی تصویر کے ساتھ یاد رکھنا چاہتا ہوں ۔خدا حافظ ثاقب اکبر صاحب ، مسکراتے رہیں ۔