گلگت بلتستان کے صحافیوں کو ہمیشہ وفاقی سطح پر صحافیوں کے تحفظ حوالے منظور قوانین کے دائرے سے دور رکھا جاتا ہے اس سال اگست 2023 میں وفاقی سطح پر منظور شدہ بل کے مطابق صحافیوں کے بہبود کے لئے ہیلتھ انشورنس کارڈ کا اجراء کیا گیا لیکن اس کا اطلاق خطہ گلگت بلتستان کے صحافیوں تک نہیں جس کی وجہ سے یہاں کے مقامی صحافی ملک کے دیگر حصوں میں موجود صحافیوں کو میسر سہولیات سے محروم مشکلات کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں یہاں صوبائی سطح پر گلگت بلتستان میں کوئی فیڈرل قانون جو صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے ہو کام نہیں کر رہا جس کی وجہ سے صحافیوں کو بہت سے مشکلات سے گزر کر اپنے فرائض انجام دینا پڑ رہا ہے۔
مہنگائی کے اس دور میں عام انسان کا گزر بسر مشکل ہوتا جا رہا ہے غریب طبقے کے معاشی مشکلات کے پیش نظر جہاں وفاقی سطح پر کم سے کم اجرت 32000 روپے مقرر کی گئی ہے وہاں صوبائی سطح پر 25000 روپے زیادہ سے زیادہ ماہانہ اجرت مقرر کی گئی ہے گلگت بلتستان کے صحافیوں سے سرکاری سطح پر مقررہ ماہانہ کم سے کم اجرت کے برعکس انتہائی قلیل معاوضہ کے عوض خدمات لی جا رہی ہیں جس سے عامل صحافیوں کو سخت معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے صحت، تعلیم اور روز مرہ کے امور کی انجام دہی کے لئے قلیل وسائل کی وجہ سے گلگت بلتستان کے صحافی سخت ذہنی تناؤ کا شکار رہتے ہیں۔
گلگت یونین آف جرنلسٹس کے صدر ذوہیب آختر نے اس حوالے سے بتایا کہ صحافیوں کے ان مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت جلد حکومتی سطح پر گلگت یونین آف جرنلسٹس ویلفیئر فنڈ کے قیام کے لئے اپنا کردار ادا کرے گی۔ انہوں نے اس حوالے سے بتایا کہ ویلفیئر فنڈ بل اسمبلی سے پاس کرانے کے لئے یونین آف جرنلسٹس پریس کلبوں کے صدور اور اسمبلی ممبران و وزراء سمیت محکمہ اطلاعات کے زمہ داروں سے رابطہ کرے گی تاکہ صحافیوں کے ویلفیئر فنڈز کا بل اسمبلی سے پاس کر ایک قانونی شکل اختیار کر سکے ۔
جس کے ذریعے اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران وفات پانے والے صحافیوں کے لواحقین کی مالی معاونت ، صحافیوں کی شادی بیاہ، تعلیمی اخراجات اور صحت سے متعلق مسائل کے حل کے لئے مالی معاونت یقینی ہوگی۔
فلاح و بہبود فنڈ صحافیوں کو جہاں معاشی استحکام فراہم کرے گا وہاں صحافیوں کی استعداد کار میں اضافے کا باعث بھی بنے گا۔ ایسے اقدامات سے حکومت کی نیک نامی بھی ہوگی کیونکہ حکومت اکثر اوقات میڈیا کے استحکام کے دعوے کرتی رہتی ہے۔
سینئر صحافی منظور حسین نے کہا کہ ریڑھ کی ہڈی میں کوئی مسئلہ آنے کی وجہ سے میں پورا ایک سال بیمار ہو کر بستر میں پڑا رہا ، علاج میں مالی تعاون کے لئے پریس کلب گلگت سے رابطہ کیا اور محکمہ اطلاعات سے بھی اس حوالے تعاون مانگی لیکن محکمہ اطلاعات اور پریس کلب نے صحافیوں کے علاج کے مد کوئی مخصوص فنڈ موجود نہیں ہوتا کا وجہ بیان کیا، جس کے بعد مایوس ہو کر میں نے اپنے بھائیوں سے مالی تعاون کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے تمام صورتحال سے آگاہ کیا تو بھائیوں نے پیسے اکھٹے کر کے ابھی چھ ماہ قبل میرا آپریشن کروا دیا لیکن اب بھی مکمل ٹھیک نہیں ہوں چل پھرنے اسٹینڈ استعمال کرنا پڑتا ہے۔
اس صورتحال میں صحافتی خدمات انجام دینے فیلڈ پر نہیں جا سکتا، ملک کے بڑے ہسپتالوں میں جا کر علاج کروانے کے لئے بھاری رقم کی ضرورت پڑتی ہے، صحافتی اداروں کی طرف سے مالی معاونت نہ ہونے کی اصل وجہ یہی ہے کہ صوبائی حکومت کی طرف سے گلگت بلتستان کی صحافی یونین یا پریس کلبوں کو ویلفیئر فنڈ نہیں ملتا جبکہ ملک کے دیگر صوبوں کے صحافیوں کے لئے باقاعدہ وہاں کی حکومتوں کی طرف سے صحافیوں کے فلاح و بہبود کے لئے فنڈز فراہم کیا جاتا ہے ،جس سے صحافیوں کی مالی مشکلات دور ہونے میں مدد ملتی انھوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے صحافیوں نے ہمیشہ ملک کی بقاء اور ترقی، امن و امان کے لئے قومی صحافیوں سے بڑھ کر کردار ادا کیا ہے لیکن اس کے باوجود حکومت گلگت بلتستان کے صحافیوں کو ملک کے دیگر حصوں میں موجود صحافیوں کی طرح سہولیات فراہم کرنے میں سوتیلی ماں جیسا سلوک کر رہی ہے۔
سینئر صحافی شکور اعظم رومی نے بتایا کہ گلگت بلتستان کے صحافیوں کو میڈیا ادارے بہت کم تنخواہوں پر رکھتے ہیں جن سے ان کا گھر کا پورا نظام نہیں چل سکتا مہنگائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ صحافیوں کو ملنے والی کم تنخواہوں کا نصف حصہ فیلڈ پر کام کرتے ہوئے خرچ ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر صحافی یا پھر انکے گھر کا کوئی فرد بیمار ہو جائے تو اس صورت ان کو مالی اداروں سے قرضے لیکر علاج کروانے کی نوبت آجاتی ہے جیسے کہ میں خود کورونا وبا کے دوران کورونا وائرس کے لپیٹ میں آگیا اور ڈاکٹروں نے مجھے گلگت بلتستان سے کراچی ریفر کیا جہاں میری صحت یابی تک 50 لاکھ کے قریب اخراجات آئے اپنی ملکیتی اراضی کو گروی رکھ کر مالیاتی اداروں سے قرضے لیکر ادائیگیاں کرنے پر مجبور ہوا۔
انھوں نے کہا کہ میں نے صوبائی حکومت سے اپنے علاج کے اخراجات میں تعاون کے لئے گلگت پریس کلب سے رابطہ کیا اور پریس کلب نے صوبائی حکومت سے رابطہ کیا ، جس پر صوبائی حکومت نے صحافیوں کی علاج کے لئے کوئی مخصوص فنڈ نہ ہونے کا جواز بناکر ادائیگی سے معذرت کی ،جس کے بعد مجھے خود سارے اخراجات برداشت کرنے پڑے۔ انھوں نے صحافیوں کے لئے ویلفیئر فنڈ سے متعلق کہا کہ گلگت بلتستان کے پریس کلبوں اور یونین و دیگر صحافتی اداروں کو وفاقی سطح پر باقاعدہ ویلفیئر فنڈ جاری کیا جانے کی ضرورت ہے تاکہ یہ فنڈ صحافیوں کو درپیش مالی مشکلات کا خاتمہ کر کے زندگی کے بہتر لمحات گزارنے کا سبب بن سکے۔
سینئر صحافی منظر حسین شگری نے بتایا کہ ملک بھر کے صحافیوں کے لئے وفاقی حکومت طرح طرح کے سہولیات فراہم کر رہی ہے لیکن گلگت بلتستان کے صحافی ان سب وفاقی مراعات سے محروم ہیں جبکہ ملک بھر کے صوبوں میں موجود صحافیوں کو صوبائی سطح پر بھی وہاں کی حکومتیں بجٹ میں باقاعدہ ہیلتھ انشورنس ، شادی بیاہ وغیرہ کے لئے فنڈز مختص کرتی ہے اور صحافی کی تنخواہوں کی تعین کرتی جبکہ ہمارے یہاں گلگت بلتستان میں ایک اندھا قانون ہے نہ یہاں کے مقامی صحافیوں کی صوبائی حکومت کی طرف سے ایک مزدور کی مزدوری برابر اجرت مقرر ہے اور نہ ہی کوئی علاج معالجہ کے لئے کوئی فنڈز جس کی وجہ سے گلگت بلتستان کے صحافیوں کو سخت مالی مشکلات سے گزر کر اپنے فرائض انجام دینا پڑ رہا ہے۔
صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت دونوں یہاں کے مقامی صحافیوں کے ساتھ مخلص نہیں انھوں نے کہا کہ میں دو سال قبل بیمار ہو کر وینٹی لیٹر پر تھا پرائیویٹ علاج میں 12 لاکھ سے زائد اخراجات ہوئے لیکن ایک پیسہ کا بھی کہیں حکومتی اداروں سے تعاون نہیں رہا پریس کلب اور یونین کے پاس اس مد میں کسی صحافی کے مالی تعاون کیلئے حکومت کی طرف سے کوئی مخصوص کیا گیا فنڈ سکیم نہیں تھی لیکن گلگت پریس نے وزیر اعلیٰ سے صحافی کے علاج پر آنے والے اخراجات کی ادائیگی کے لئے رابطہ کیا تو وزیر اعلیٰ نے اس حوالے سے حکومت کے پاس فنڈز نہ ہونے کی وجہ بیان کرتے ہوئے یقین دلایا کہ صحافیوں کے ویلفیئر فنڈ کا مسودہ تیار کر کے اسمبلی سے منظور کروایا جائے گا جس کے بعد ایک پالیسی کے تحت بجٹ سے اس مد سالانہ صحافیوں کے فلاح و بہبود پر فنڈز مختص ہو گا جس کے بعد صحافیوں کے مالی مشکلات دور ہونگے لیکن تا حال اس حوالے سے نہ قانون بنا اور نہ ہی اسمبلی سے بل پاس ہوا ۔
یہاں کے صحافیوں کی فلاح و بہبود کے حوالے سے کوئی قانون اسمبلی سے منظور نہ ہونے کی وجہ سے مقامی صحافیوں کو ہنگامی ضروریات پر سخت مالی مشکلات کا شکار ہونا پڑتا ہے جبکہ بعض صحافیوں نے موجودہ مہنگائی کے دوران صحافتی خدمات کو خیر باد کہہ کر کاروبار شروع کر رکھا ہے جس سے دیگر صحافتی طبقہ کے اندر ایک مایوسی پھیلی ہوئی ہے جو کہ یہاں صحافت کے ساتھ ایک مذاق ہے۔
سینئر صحافی قیمت جان ہنزائی نے کہا کہ میں گزشتہ 26 سالوں سے شعبہ صحافت کے ساتھ منسلک خدمات انجام دے رہا ہوں گزشتہ ماہ اچانک میری طبیعت خراب ہو کر سی ایم ایچ میں داخل رہا ،جہاں لاکھوں روپے میرے علاجِ میں اخراجات آئے ، پریس کلب گلگت سے مالی معاونت کے لئے درخواست کی گئی تھی لیکن پریس کلب کو صوبائی حکومت کی طرف سے کوئی ویلفیئر فنڈ سکیم و پالیسی کی سہولت میسر نہ ہونے کی وجہ سے مالی تعاون نہیں رہا ۔
انھوں نے کہا کہ افسوس کا مقام ہے کہ 2009 میں یہاں گلگت بلتستان اسمبلی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے تا حال صوبائی اسمبلی سے صحافیوں کے تحفظ حوالے ایک بھی قانون سازی نہیں ہوئی جس کی وجہ سے یہاں صحافیوں کے فلاح و بہبود کے لئے کوئی سرکاری فنڈ مختص نہیں ہوتا ۔ انھوں نے بتایا کہ گلگت بلتستان کے تمام پریس کلبوں کو صوبائی حکومت کی طرف سے صحافیوں کے فلاح و بہبود کیلئے فنڈز فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ اپنا علاج معالجے کے دوران مالی مشکلات کا شکار ہو کر موت اور زندگی کے کشمکش میں مبتلا نہ ہوں اور بروقت علاج کو یقینی بنایا جا سکے۔
سینٹرل پریس کلب کے صدر خورشید احمد نے صحافیوں کے ویلفیئر فنڈز کے بارے میں بتایا کہ گزشتہ کورونا وبا کے دوران گلگت بلتستان کے تقریباً 17 مقامی صحافیوں کو کورونا ہوا،اور ان میں سے ایک صحافی جن کا تعلق غذر ضلع سے تھا، راجہ عادل غیاث جان بحق ہوئے جبکہ مجھ سمیت دیگر 16 صحافی موت کے منہ سے واپس آگئے لیکن ان صحافیوں کے علاج کے لئے ہم نے انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ ، محکمہ ہیلتھ اور سی ایم سیکرٹریٹ سمیت دیگر حکومتی اداروں سے رابطہ کیا کہ بیمار صحافیوں کی مالی معاونت کیا جائے لیکن کہیں سے بھی ان کو کوئی مالی تعاون نہیں رہا۔
بعض صحافیوں کو ملک کے دیگر بڑے ہسپتالوں میں علاج کروانے کی ضرورت پڑی اور انھوں نے یہ سارے اخراجات خود برداشت کئے ملک بھر کے صحافیوں کے لئے ہیلتھ انشورنس کی سہولت اور شادیوں و دیگر مالی مشکلات سے باہر نکالنے صحافیوں کے لئے باقاعدہ ویلفیئر فنڈ مختص ہوتا ہے ۔ ہم نے وفاقی قانون کا حوالہ دیتے ہوئے دو سال تک مسلسل ویلفیئر فنڈ کی منظوری کیلئے جدو جہد کی مگر صوبائی حکومت نے اس پر کوئی بل اسمبلی سے پاس کرانے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لی کیونکہ صوبائی اسمبلی سے جب تک اس حوالے سے بل پاس نہیں ہو گا تب تک پریس کلبوں کو ویلفیئر فنڈز کا اجراء ممکن نہیں ہوتا ، جس کی وجہ سے گلگت بلتستان کے صحافیوں کو ان کی مالی ضروریات کے دوران مالی مدد نہیں کر پاتے ہیں ۔
صدر پریس کلب نے مزید کہا کہ وفاقی سطح پر صحافیوں کے تحفظ کے لئے جتنے بھی قوانین بنے ہیں ان میں سے ایک بھی قانون گلگت بلتستان کے صحافیوں کے لئے میسر نہیں جس کی وجہ سے یہاں کے مقامی صحافیوں کو بہت سے مشکلات سے گزر کر زندگی بسر اور خدمات انجام دینا پڑتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ابھی ہم نے صحافیوں کے فلاح و بہبود اور ویج بورڈ ایوارڈ سمیت ان تمام قوانین جو وہاں کے صحافیوں کے لئے ملک بھر میں رائج ہیں کیلئے یہاں جدو جہد کا آغاز کیا ہے، اس بار ضرور ہم مسودہ بل گلگت بلتستان اسمبلی سے پاس کرانے میں کامیاب ہونگے۔
ڈپٹی ڈائریکٹر انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ نے بتایا کہ گلگت بلتستان کے صحافیوں کو ویلفیئر فنڈز کی فراہمی کے لئے صوبائی حکومت کوشش کر رہی ہے ، اس حوالے سے ماضی میں متعدد بار مسودے پر کام بھی ہوتا رہا ہے لیکن بعض وجوہات کی بنا اس پر جاری کام التوا کا شکار ہو کر رہ گیا تھا دوبارہ اس پر غور کیا جا رہا ہے بہت جلد گلگت بلتستان کے صحافیوں کو ملک کے دیگر حصوں میں موجود صحافیوں کی طرح ویلفیئر فنڈز کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا جس کے لئے صحافتی تنظیمیں بھی کام کر رہی ہیں اور ہم بھی اس اہمیت کے حامل نقطے پر بھرپور انداز میں تعاون کریں گے۔
چیف سیکرٹری گلگت بلتستان محی الدین وانی سے جب صحافیوں کے لئے ویلفیئر فنڈ کے اجراء میں حکومت کی طرف سے رکاوٹوں بابت وجوہات پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ 2009 سے گلگت بلتستان اسمبلی کو باقاعدہ قانون سازی کے اختیارات حاصل ہیں صحافیوں کے فلاح و بہبود کے حوالے سے وفاقی سطح کوئی قانون گلگت بلتستان اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد حکومت کی یہ زمہ داری بنتی ہے کہ وہ بجٹ میں اس کے مد رقم مختص کر کے صحافیوں کی مالی معاونت کو یقینی بنایا جا سکے، بغیر قانون سازی کے حکومت کے پاس صحافیوں کی ضروریات پورے کرنے مالی امداد کا کوئی فنڈ موجود نہیں ہوتا ، جس کے زریعے حکومت ان کی مالی مشکلات دور کر سکے۔
وزیر اطلاعات گلگت بلتستان ایمان شاہ نے بتایا کہ گلگت بلتستان کے صحافیوں کو صرف ویلفیئر فنڈز کی فراہمی کا ہی ایک مسئلہ نہیں بلکہ بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ صوبائی حکومت گلگت بلتستان صحافیوں کے مسائل پر بھرپور توجہ دے رہی ہے، انھوں نے کہا کہ میں خود ایک صحافتی پیشہ سے تعلق رکھتا ہوں، وزارت سے پہلے جب میں اخبار میں خدمات انجام دے رہا تھا تو میرا ہمیشہ یہ وژن تھا کہ میں جب کبھی حکومت کا حصہ بنوں تو گلگت بلتستان کے صحافیوں کے لئے ہیلتھ انشورنس کا بندوست سمیت ملک بھر کے صحافیوں کی تحفظ کے لئے بنائے گئے۔
وفاقی سطح قوانین کا اطلاق خطہ تک لانے میں اپنا کردار ادا کر سکوں آج میں وزیر اطلاعات بنا ہوں تو میں نے ہر صورت صحافت کے میدان میں خدمات انجام دینے والے گلگت بلتستان کے صحافیوں کے لئے ضرور اپنا کردار ادا کرنا ہے ۔انھوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے صحافیوں نے ہمیشہ خطے کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی مفاد میں ہمیشہ قلم کا استعمال کیا ہے، آج یہاں کے صحافی ملک کے سب سے بہترین صحافیوں کے لسٹ میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کے درمیان موجود مسائل کے حل کے لئے صحافی یونین اور پریس کلبوں کے ساتھ بہت جلد ایک میٹنگ رکھی جائے گی اور باہمی مشاورت سے مسودہ تیار کریں گے جس سے گلگت بلتستان کے صحافی مستفید ہوں گے اور ان کا درینہ مطالبہ پورا ہو کر قومی صحافیوں جیسے سہولیات میں اپنے فرائض انجام دینے میں کامیاب ہوں گے ۔