سکولوں میں جب سے طلبہ کو جسمانی سزا دینے پر پابندی عائد کی گئی ہے، ان کی تنبیہ و تادیب کے لیے متبادل طریقے اختیار کیے جا رہے ہیں، جن میں کچھ مناسب ہیں، لیکن کچھ جسمانی سزا سے بھی زیادہ مضر نظر آتے ہیں۔ ان میں سے ایک طلبہ کی تفریح کے اوقات (Break Time) کی بندش ہے۔
تفریح کا مختصر دورانیہ بچوں کا محبوب ترین وقت ہوتا ہے۔ پے دَر پَے اسباق کی تدریس سے تھکے اذہان کے لیے نصف یا پون گھنٹے کی تفریح بڑی غنیمت ہوتی ہے۔اس دوران میں کچھ کھیل کود کر وہ آنے والے اسباق کے لیے تازہ دم ہو جاتے ہیں۔ اس دوران میں وہ ایک دوسرے سے تعامل، مسابقت، تصادم، دوستی اور دشمنی وغیرہ کے غیر نصابی اسباق سیکھتے ہیں، جو ان کی عملی زندگی کے لیے ضروری ہیں۔ یہ وقت ان کی جسمانی توانائی کا درست مصرف ہوتا ہے۔
اس قیمتی وقت کی بطورِ سزا بندش ناقابلِ تلافی نقصان ہے، جو طالب علم کی کسی بھی کوتاہی یا قصور کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ خصوصاً کم سن بچوں کے لیے تو یہ سزا انھیں دنیا کی تمام نعمتوں سے محروم کر دینے کے مترادف ہے۔ بچوں کی اس کم زوری کی بنا پر انھیں مجبور کرنا بلیک میلنگ ہے، چاہے اس کا مقصد مثبت ہو مگر طریقہ منفی ہے۔
کھیل بچوں کے لیے عبادت ہے اور کسی کو حق نہیں کہ بچے کو اس کی عبادت سے روک دے۔ تفریح کی بندش سے بچے میں جو پژمردگی پیدا ہوتی ہے، وہ تفریح کے بعد کے اسباق کے لیے اس کی ذہنی حاضری اور سیکھنے کی سکت کو بھی متاثر کر دیتی ہے اور مزید تعلیمی نقصان کا باعث بنتی ہے۔
تادیب و تنبیہ کے لیے کوئی بھی معقول اور موثر طریقہ اختیار کیاجا سکتا ہے، مگر تفریح کے اوقات کی بندش کسی صورت قابل قبول نہیں۔