اس روز خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی، جب پہلی مرتبہ میرے انگوٹھے پر انمٹ سیاہی کا نشان لگایا گیا اور مجھے مہر اور بیلٹ پیپر دیا گیا ،ایسے لگا جیسے میں ہوا میں اڑ رہی ہوں کیونکہ میں نے پہلی مرتبہ پولنگ سٹیشن اپنی انکھوں سے دیکھا اور ان تمام مراحل کو طے کیا . مجھے شوق تھا کہ میرا کب شناختی کارڈ بنے گااور میں اپنا ووٹ پول کروں گی، دراصل مجھے ووٹ دے کر ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ملک کا وزیر اعظم میں ہی چن رہی ہوں اور انتخابات میں میرا کردار بہت اہم ہے لیکن حقیقت نے بہت مایوس کیا تاہم میں ہمت نہیں ہاروں گی اور ہر مرتبہ ووٹ دوں گی، یہ کہنا تھا پشاور کی رہائشی ام کلثوم کا جو پہلی مرتبہ ووٹرز کی فہرست میں رجسٹرڈ ہوئی اور فروری 2024 کے انتخابات میں اپنا پہلا ووٹ کا سٹ کیا۔
پاکستان کی تاریخ کے 12ویں عام انتخابات کے لیےمجموعی طور پر رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 12 کروڑ 79 لاکھ سے زیادہ تھی جبکہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے کل 855 حلقوں پر 17 ہزار 758 امیدواروں نےالیکشن میں حصہ لیا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق ملک بھر سے قومی اسمبلی کی 266 نشستیں جبکہ صوبائی اسمبلیوں کی عام نشستوں کے 593 حلقوں میں پولنگ ہوئی. سنہ 2018 کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی کل نشستیں 272 تھیں جبکہ صوبائی اسمبلیوں کی کل نشستیں 577 تھیں۔خواتین کے لیے مخصوص ساٹھ اور اقلیتوں کی دس مخصوص نشستوں کو ملا کر اب قومی اسمبلی کی مجموعی 342 نشستیں کم ہو کر 336 رہ گئی ہیں۔گذشتہ الیکشن کے مقابلے میں اس تبدیلی کی ایک اہم وجہ قبائلی علاقوں کا خیبرپختونخوا میں انضمام ہے۔ 25 ویں آئینی ترمیم کے تحت فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کر دیا گیا اور پھر اس کی 12 نشستیں کم کر کے چھ کر دی گئیں اور وہ خیبر پختونخوا کے کوٹے میں شامل کر دی گئیں۔یوں اس صوبے کا قومی اسمبلی کا کوٹہ 39 نشستوں سے بڑھ کر 45 تک پہنچ گیا مگر قومی اسمبلی کی مجموعی نشتیں 342 سے کم ہو کر 336 رہ گئیں اگر صرف خیبر پختون خواہ کی بات کریں توخیبر پختونخوا میں صوبائی اسمبلی کی 115 میں سے 113 نشستوں پر انتخابات ہوئےجبکہ اسی اسمبلی میں خواتین کی 26 اور اقلیتوں کی چار مخصوص نشستیں بھی موجود ہیں.
2024 کو پاکستان کے 12ویں عام انتخابات (GE) میں تقریباً 60.6 ملین ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ GE-2024 میں 2018 کے مقابلے میں تقریباً 5.8 ملین زیادہ لوگوں نے ووٹ ڈالے، جب کہ 54.8 ملین ووٹ ڈالے گئے. ووٹرز کی تعداد میں اضافے کے باوجود، ٹرن آؤٹ 2018 میں 52.1 فیصد سے کم ہو کر 2024 میں 47.6 فیصد ہو گیا، جس کی بنیادی وجہ رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 2018 میں 106 ملین سے بڑھ کر 2024 میں 128.6 ملین ہو گئی ہے۔ دونوں انتخابات کے درمیان 22.6 ملین۔ اس کے علاوہ ملک کے کچھ حصوں میں سخت سردی، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں تشدد اور دہشت گردی کے خدشات کے ساتھ ساتھ انتخابات کے انعقاد کے بارے میں غیر یقینی صورتحال نے بھی ٹرن آؤٹ کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (FAFEN) کی یہ رپورٹ کے مطابق ووٹر ٹرن آؤٹ کے صنفی تجزیئے میں مزید وضا حت کی ضرورت ہے. قومی اسمبلی کے 10 حلقوں اور کئی ن صوبا ئی حلقوں کے فارم 47 میں پولنگ ووٹوں کی الگ الگ تفصیل شامل نہیں کی گئی .
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق ملک میں 18 سے 35 سال کے ووٹرز کی تعداد پانچ کروڑ 68 لاکھ سے زائد ہے اور مجموعی ووٹرز میں ان کی شرح 44 فی صد سے زائد بنتی ہے .انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیولیپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کی عام انتخابات 2024 میں نوجوانوں کی شمولیت کے بارے میں جا ری کی گئی رپورٹ کے مطابق نوجوان ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 48 فیصد رہا جوکہ ملکی تاریخ میں نوجوانوں کا سب سے زیادہ ٹرن آؤٹ ہے۔نوجوانوں کا ووٹر ٹرن آؤٹ 2018 کے انتخابات کے مقابلے میں 11 فیصد زیادہ تھا اور نوجوان ووٹرز کا ٹرن آؤٹ مجموعی ووٹر ٹرن آؤٹ سے بھی زیادہ رہا جبکہ 1988 سے 2018 کے درمیان ہونے والے آٹھ قومی انتخابات میں نوجوانوں میں ووٹ دینے کی شرح 31 فی صد رہی۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق 2024 کے عام انتخابات کے لیے کل 58.9 ملین خواتین ووٹرز نے اندراج کیا، جن میں سے 41.6% نے اپنا ووٹ ڈالا، جو کہ 2018 کے عام انتخابات کے مقابلے میں 5% کم ہے. صوبہ خیبرپختونخوا میں کل 9.7 ملین خواتین ووٹرز رجسٹرڈ ہیں، جن میں سے 31.0 فیصد نے اپنا ووٹ ڈالا۔ خیبر پختونخواہ کے تمام گیلپ علاقوں میں، ہزارہ میں سب سے زیادہ خواتین ووٹر ٹرن آؤٹ 39% تھا.
ملازمت پیشہ خاتون خالدہ نے کہا کہ میں نے پہلی مرتبہ ووٹ دیا، الیکشن کے دن بہت دھکم پیل تھی، میں ووٹ پول کرنے نہیں جانا چاہتی تھی لیکن بس مجھے خیال آیا کہ جانا چاہیے اگر ہم نوجوان اور خاص طور پر نوجوان خواتین اپنے ملک کی بہتری کے لیے کوسش نہیں کریں گی تو پھر کون آئے گا ،ہمیں اور ہمارے ملک کو بچانے کے لئے ہمیں خود ہمت کرنی ہے اور اس کا سب سے بہترین طریقہ ووٹ کے ذریعے اپنا پسندیدہ نمائندہ منتخب کرنا ہے،بس یہ سوچ کر میں ووٹ پول کرنے چلی گئی اور ووٹ پول کیا .
خاتون صحافی علشبہ خٹک نے کہا کہ میں نے بھی پہلی مرتبہ ووٹ کاسٹ کیا لیکن جس کو میں نے ووٹ دیا وہ اگرچہ کامیاب تو ہو گیا لیکن ا ن نمائندوں نے لڑائیاں جھگڑے شروع کر رکھے ہیں. ا لیکشن جتنے والے اور ہارنے والوں میں سیا سی جنگیں جاریں ہیں، وہ سب ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں ، سیاسی لڑائیوں نے ہمارا مستقبل بھی ویران کر دیا ہے، اب ہم چاہتے ہیں کہ نوجوانوں کی ترقی کے لیے کام ہو ،ان کے لیے ملازمتیں بڑھائی جائیں، مواقع پیدا کیے جائیں تاکہ ان کے روزگار بڑھے، صحت اور تعلیم کے مواقع ملیں، نوجوان ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، ان پر توجہ دی جائے لیکن سیاسی حکمران اور مخالفین آپس میں لڑ رہے ہیں، ملک کی ترقی کے لیے کوشش نہیں کر رہے، اس لیے مایوسی ہوئی کہ ملک کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیا جاتا لیکن اس پر عمل نہیں ہو رہا ،اربوں روپے پاکستان جیسے غریب اور دیوالیہ ہو جانے کے قریب ملک نے الیکشن پر لگا دیئے لیکن اس کے بعد جن لوگوں نے الیکشن پہ اپنا ذاتی پیسہ لگایا وہ اس کو واپس لینے کے چکروں میں ہیں اور عوام کی کسی کو بھی فکر نہیں ہے.
طالبہ ایمان ثاقب نے کہا کہ میں نے پہلی مرتبہ ووٹ پول کیا .میری عمر 18 سال ہوئی تو شناختی کارڈ بننے کے ساتھ ہی میرا ووٹ بھی رجسٹرڈ ہو گیا، الیکشن میں، میں نے ملک کا حکمران چننے میں اپنا کردار ادا کیا اور میں مطمئن ہوں کہ میں نے اپنا فرض ادا کیا. انہوں نے کہا کہ اب ملک کا مستقبل نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہے ،ملک میں نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور یہ نوجوان ملک میں بہتر تبدیلی لا سکتے ہیں، اگر بہترین حکمرانوں کو چنا جائے، یہی سوچ کر میں نے اپنا حق ادا کیا اور اپنی رائے دی، اپنا ووٹ ڈالا اگرچہ میرا پسندیدہ نمائندہ منتخب تو نہیں ہوا لیکن میں اپنی طرف سے مطمئن ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ تعالی کرے کہ جو بھی ملک کے حکمران منتخب ہوئے ہیں، وہ ملک میں امن و امان کے قیام، نوجوانوں کی فلاح و بہبود اور ملک کی ترقی اور بقا کے لیے کوششیں کریں .
انتخابات میں الیکشن عملے کے طور پر فرائض سر انجام دینے والی خاتون شازیہ نورین نے کہا کہ الیکشن کمشن کا انتظام مجھے اچھا نہیں لگا .خواتین ووٹرز خوار ہوتیں رہیں، کئی کئی کلو میٹڑز دور پولنگ اسٹیشنوں میں ووٹڑڑز لسٹوں میں اپنے نا م ڈھونڈتیں رہیں، انہیں کبھی کسی ایک پولنگ سٹیشن میں بھیجا جاتا تو کبھی کسی دوسرے میں، بہت ساری خواتین تنگ آ کر ووٹ پول کئیے بغیر گھروں کو واپس لوٹ گئیں کیونکہ ان کے پاس ناتو ٹرانسپورٹ تھی اور نا ہی کوئی اور ذریعہ کہ وہ دن بھر اپنا نام ڈھونڈتی رہیں، آن لائن سرکاری سسٹم میں بھی مسائل آ رہے تھے جبکہ بزرگ افراد اورمعذور خواتین کو مزید مشکلات کا سامنا تھا. اس لیے اگرچہ نوجوان خواتین کی ووٹ ڈالنے کی شرح زیادہ رہی تاہم پرانا ووٹر نہیں نکلا اور دوسری طرف عام خواتین کا سیاسی شعور اور رجحان بھی سیاسات میں کم ہے. عام طور پر خواتین یہ سمجھتی ہیں کہ انہیں کوئی ذاتی طور پر فائدہ نہیں ہوگا ،ہمارے ایک ووٹ سے کیا فرق پڑے گا ،دیہی علاقوں میں اور بھی مسائل ہیں، اس لیے ملک کی تقریبا آدھی آبادی کی ایک بڑی شرح اپنا حق ہی استعمال نہیں کرتی،تو ان کے نمائندے کیسے چنے جائیں گے، جو ان کی ترجمانی کریں گے.
خیبر پختون خوا کے حلقے پی کے 82 سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لینے والی خاتون امیدوار شمائلہ تبسم نے کہا کہ ہمیں نوجوان ووٹرز سے بہت امیدیں ہیں، تمام امیدواروں کو امید تھی کہ اس مرتبہ بھی نوجوان ضرور ووٹ کے لیے نکلے گا اور ایسا ہی ہوا، اور نوجوان بھر پور انداز میں نکلے ووٹ ڈالنے کے لیے، آج کا نوجوان زیادہ با خبر ہےاو ر معاملات اب آشکارہ ہیں،نوجوانوں سے کچھ چھپا نہیں اور دوسری طرف نوجوان اب زیادہ ہمت، حوصلےوالا اور بہادر ہے اور ہمیں اب پوری امید ہے کہ آئندہ وہ ملک کی باگ ڈور اہل ہاتھوں میں دیں گے اور نوجوان خواتین کا بھی اس میں بہت کردار ہو گا تاہم گاؤں کی نوجوان خاتون کو آگے لانے کے لیے سیاسی شعور اجاگر کرنے کے لیے مزید کام کی ضرورت ہے.
شہر کی پڑھی لکھی خاتون جانتی ہے ایک ووٹ کی کتنی اہمیت ہےلیکن پھر بھی ان کی ووٹ پول کرنے کی شرح اس حد تک نہیں جاتی جتنی ہونی چاہیئےجبکہ دیہی علاقوں کی خواتین اور نوجوان لڑکیاں اپنی مرضی سے کم اور گھر کے مردو ں کی رضا اور خوشی کے لیے زیادہ ووٹ پول کرنے جاتی ہیں.
گھریلو خاتون طاہرہ رضوان نے کہا کہ میں نے ووٹ پول نہیں کیا، ہم نے اتنے سال ووٹ دیئے لیکن ہمیں کیا ملا جو بھی آتا ہے اپنی تجوریاں بھرتا ہے، ہمیں تومہنگائی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے ،ہم بچوں کو کیا کھلائیں ، عزت سے دو وقت کی روٹی کمانا مشکل ہو گیا ہے، سب ایک جیسے ہیں، اپنی دکان چمکا کر ووٹ لیتے ہیں اور پھر عوام کا خون نچوڑنا شروع کر دیتے ہیں. میں کبھی بھی ووٹ نہیں دوں گی، میرے ووٹ سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ سب پیسے والوں کے کھیل ہیں، سب ملے ہوئے ہیں ،عوام کا کوئی نہیں سوچتا.
فروری2024کے الیکشن میں پہلی مرتبہ ووٹ پول کرنے والی خاتون مناہل نے کہا کہ مجھے بہت خوشی ہوئی جب میرا نام ووٹر لسٹ میں شامل ہوا، اور میں بہت پر امید تھی کہ میں جب اپناو وٹ پول کروں گی، اپنا حق استعمال کروں گی اور میرے حق میں ہی فیصلہ ہوگا اور میری طرح جتنے نوجوانوں کے پہلی مرتبہ ووٹ رجسٹرڈ ہوئے ان سب کو بہت شوق تھا کہ ہم ووٹ پول کرنے جائیں، ان تمام مراحل کو دیکھیں اور اپنا حق رائے دہی استعمال کریں، میں نے بھی پرلطف انداز میں پر امید ہو کر ووٹ پول کیالیکن نتائج آنے کے بعد مجھے بہت مایوسی ہوئی کیونکہ متوقع رزلٹ نہیں آ یا ا گر چہ نتائج سے ہم مطمئن نہیں ہوئے لیکن میں نے ووٹ دیا اور پھر بھی میں بہت خوش ہوں کہ میں نے اپنا حق ادا کیا اور آئندہ ہمیشہ میں ووٹ ضرور دوں گی اور اپنی طرف سے اپنے اپنا حق اور فرض ادا کروں گی ،ہمیں اپنا کام کرنا ہے، دوسرے جانے اور ان کا کام جانے۔
ملک میں 60 فیصد نوجوان ہیں . مجموعی طور پر ملک کی آبادی کا 25 فیصد خواتین پر مشتمل ہے، جن لوگوں نے الیکشن میں بحیثیت نوجوان اور خواتین ہونے کے اپنا کردار ادا نہیں کیاتو ملک میں ہونے والے ا قدامات اور فیصلوں پرتنقید کرنے کا حق بھی وہ نہیں رکھتے۔ کیونکہ جب انہوں نےاپنا حق اور فرض ادا نہیں کیا تو دوسروں کو الزام دینے کا اب کوئی فائدہ نہیں. اگر ہر ووٹ دینے والا ایک اہل بندے کو منتخب کرے گا ،جن میں نوجوان خواتین بھی شامل ہیں تو مجموعی طور پر ایک اچھا فیصلہ ہوگا او راہل لوگ منتخب ہوں گے ،جس میں خواتین کی نمائندگی بھی ہوگی، خواتین اپنے مسائل بھی حل کر پائیں گی.
انتخابات کے بعد منتخب ہونے والے حکمران بھی اپنا حق اور فرض ادا کریں اور جن لوگوں نے ان پر اعتماد کیا ہے، اس پر پورا، اتریں اپنے ملک کے مستقبل کے لیے کچھ کر جائیں کیونکہ آج کا نوجوانوں امن و امان کی غیر یقینی صورت حال ،بے روزگاری اور مہنگائی ، تعلیم اور ملازمت کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے مایوس ہے. نوجوان امن چاہتے ہیں، ملازمت چاہتے ہیں، سیکیورٹی چاہتے ہیں، عملی طور پر یہ سب نظر نہیں آتا،اس لیے نوجوان طبقہ ملک سے باہر جانے کو زیادہ ترجیح دیتا ہے. حکمران نوجوانوں کے مسائل کے حل پر توجہ دیں تاکہ آئندہ نسلیں ملک کی بہتری کے لیے سوچ سکیں جو کہ یقینی طور پر ملک کی بقا و سلامتی ، امن و امان،ترقی و خوشحالی کا پیش خیمہ ہو گی اور نوجوان بھی اپنے ووٹ کا حق ادا کریں ، مایوسی کی بجائے ہر ممکن کوشش کر کے ایک دفعہ ووٹ دیں ،اپنا فرض پورا کریں ،جب سب اپنا فرض ادا کریں گے تو بحیثت مجموعی یقینی طور پر معاشرہ ، ملک وقوم بہتری اور اصلاح کی طرف جائےگا ، جس کا فائدہ سب کو ہوگا۔