ایک وہ سنہری عہد تھا جب گلگت بلتستان کی وادیوں سے لوگ دیامر کی سرزمین پر تجارت اور مزدوری کی غرض سے آیا کرتے تھے۔ یہ سرزمین امن و آشتی کا گہوارہ تھی، جہاں فرقہ واریت، مذہبی تعصبات اور نفرتوں کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ یہاں کے باسیوں کے دل وسیع، مہمان نواز، اور محبتوں سے بھرے ہوئے تھے۔ دیامر کے لوگ اپنی سرزمین سے نکل کر گلگت بلتستان کے دیگر علاقوں میں بغیر کسی خوف و خطر جاتے، نہ موت کا خوف دامن گیر تھا، نہ سازشوں کا اندیشہ۔ سیاست، ذاتی مفادات، اور اقتدار کی رسہ کشی کے بجائے، بھائی چارے اور اخوت کی فضا چھائی رہتی تھی۔
لیکن آج کی تصویر ایک مختلف کہانی سنا رہی ہے۔ آج کا گلگت بلتستان نفرتوں، قتل و غارت گری، فرقہ واریت اور مذہبی منافرتوں کا شکار ہو چکا ہے۔ آج ہر طرف الزام تراشیاں ہیں، فتاویٰ بازی کا چلن عام ہے، اور انسانی قدریں پامال ہو رہی ہیں۔ فرقہ پرستی نے معاشرتی ڈھانچے کو دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے۔ یہ تلخ حقیقت سامنے ہے کہ وہ قومیں جو اپنے اسلاف کی روایات اور ثقافت کا پاس نہیں رکھتیں، انہیں ہمیشہ تاریخ کے جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور وہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑی جاتی ہیں، چاہے وہ غلامی سماجی ہو یا ثقافتی۔
آج کے نوجوانوں کا طرز عمل دیکھ کر دل میں ایک ناقابلِ بیان کرب اٹھتا ہے۔ جب میں انہیں اپنے بزرگوں کے اسلاف کی توہین کرتے، اپنی روایات کو نظر انداز کرتے اور اپنی تاریخ کو بھلاتے دیکھتا ہوں، تو سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہمارے بزرگ کبھی ایسے تھے؟ ہماری نوجوان نسل کو کس چیز نے اس حد تک بے راہ روی کا شکار کر دیا؟ ان کا رویہ اُن دانشمند اور بصیرت مند اسلاف کے بالکل برعکس ہے، جنہوں نے اپنی دانش اور حکمت سے معاشرے کو سنوارا تھا۔ آج کے نوجوان اپنی تاریخ سے بے بہرہ، اپنے بزرگوں کی حکمت سے ناواقف، اور سوشل میڈیا کے فریب میں گرفتار نظر آتے ہیں۔
مکمل کالم پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کیجئے ۔
خوشامد اور علاقائی وقار کا زوال
ہمارے اسلاف نہ تو سوشلزم سے واقف تھے، نہ کمیونزم سے، نہ انقلاب کی پیچیدگیوں سے۔ مگر سچ یہ ہے کہ وہ بذات خود ایک انقلاب تھے، ایک نظریہ تھے۔ اُن کا ہر قدم ایک تحریک تھی جو محبت، اخوت اور اصولوں پر مبنی تھی۔ وہ سیاست سے دور رہتے ہوئے بھی عظیم سیاستدان تھے، کیونکہ اُن کا ہر فیصلہ حق اور سچ کی بنیاد پر تھا۔ دیامر کے بزرگوں کی مثال لے لیں،،، جنہوں نے 1951 میں حکومتِ پاکستان کے ساتھ الحاق کا معاہدہ کیا تھا۔ وہ نہ سیاست دان تھے، نہ انہوں نے گالم گلوچ یا احتجاج کا سہارا لیا، بلکہ انہوں نے اپنی بصیرت، دیانت اور عزم کے ساتھ یہ معاہدہ طے کیا۔
یہ وہ بزرگ تھے جنہوں نے اپنے قول و فعل میں کبھی تضاد نہیں رکھا، اور نہ ہی کبھی کسی بیرونی دباؤ یا سازش کا حصہ بنے۔ آج ہم اپنے نوجوانوں سے سوال کرتے ہیں کہ کیا وہ اُس دور کی پیچیدگیوں کو سمجھ سکتے ہیں؟ کیا وہ اس بصیرت اور عزم کا مظاہرہ کر سکتے ہیں جس کا ہمارے بزرگوں نے کیا تھا؟ آج کے نوجوان نہ تو اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو سمجھتے ہیں، نہ ان کی روایات کو آگے بڑھانے کی سعی کرتے ہیں۔
ہم آج ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں ہماری شناخت داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ ہم نے چند مفاد پرست لوگوں کی باتوں میں آکر اپنی اصل پہچان کھو دی ہے۔ ہم کیسے بھول گئے کہ ہماری شناخت اسلام اور پاکستان سے جڑی ہوئی ہے؟ گلگت بلتستان کی سرزمین پر کھڑے ہو کر ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم پاکستانی نہیں، لیکن دوسری طرف پاکستان کا شناختی کارڈ ہمارے جیب میں ہوتا ہے۔ یہ دوہرے معیار کی زندگی ہمیں کہاں لے جائے گی؟
سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی نفرت انگیز مہمات میں حصہ لے کر ہم دراصل اپنی ہی قوم کے خلاف سازشوں کا حصہ بن رہے ہیں۔ یہ انفارمیشن وارفیئر کا دور ہے، اور ہم نادانستہ طور پر بیرونی ایجنڈوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ دیامر کی سرزمین نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ محبت اور وفاداری کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہاں سے کبھی بھی پاکستان مردہ باد کا نعرہ نہیں لگا، نہ ہی یہاں کے باسی کسی بیرونی سازش کا حصہ بنے ہیں۔ جب بھی یہاں سے آواز اٹھی ہے، وہ پاکستان زندہ باد، پاک فوج زندہ باد اور اسلام زندہ باد کی آواز تھی۔
آج ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم اپنی شناخت کو بچانا چاہتے ہیں یا بیرونی ایجنڈے کا حصہ بن کر اپنے اسلاف کی روایات کو دفن کرنا چاہتے ہیں؟ یہ ملک ہمارا ہے، اور جس طرح پاکستان پر پنجابی، سندھی، بلوچی اور پختون کا حق ہے، اسی طرح گلگت بلتستان کے باسیوں کا بھی حق ہے۔ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا ہمارا حق ہے، لیکن ان کے آڑ میں کسی سازش کا حصہ بننا غداری ہے۔
ہمیں نفرت، تعصب اور فرقہ واریت کی عینک اتار کر اپنے ارد گرد کے حقائق کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی شناخت کو پہچاننے کی ضرورت ہے، ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہماری ثقافت، ہماری روایات اور ہماری تاریخ مٹ جائے گی۔ خدا کرے کہ ہم اپنے اسلاف کی قدروں کو سمجھیں اور ان کی روایات کو زندہ رکھیں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں ان پر فخر کر سکیں۔خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔